Thursday, 19 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Mutalia Pakistan Aur Hum

Mutalia Pakistan Aur Hum

مطالعہ پاکستان اور ہم

میں یہ ماننے کو تیار ہوں کہ ہمیں جو نصاب پڑھایا جاتا رہا ہے وہ بالکل درست ہے۔ محمد بن قاسم سندھ کی دھرتی پر اشاعت اسلام کی خاطر مظلوم بہن کی آواز پر اترا تھا اور محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملے تبلیغ کی غرض سے کیئے تھے۔ میں تمام غیر ملکی آمروں کو اس دھرتی کا ہیرو ماننے کو بھی تیار ہوں۔ یہ بھی درست ہے کہ جناحؒ صاحب ایک روپیہ تنخواہ لیا کرتے تھے، وہ جو پاکستان آرکائیو اسلام آباد میں ان کی پے سلپ کی پرچی محفوظ ہے وہ کسی غلط فہمی کی بنا پر ہو سکتی ہے۔

مگر اتنا تو کہنے دیجیئے کہ مطالعہ پاکستان میں ظالم بادشاہوں کے قصیدے پڑھنے والے مورخوں نے وہ ٹیڑھی اینٹ رکھ دی جس پر جو عمارت بھی تعمیر ہوئی اُس کی غلام گردشوں میں ضیا الحقوں نے ٹک ٹکیاں لگا دیں۔ بھٹو کی پھانسی کے میلے میں پٹھورے اور گول گپے بیچنے والوں نے چاندی کمائی اور انسانوں کو بے حس کرنے کا عمل شروع ہو گیا۔ کن لوگوں نے نظریہ پاکستان کو پوری قوم سے ٹھگ لیا، اور پھر اُس پر لمبی چوڑی مارکیٹنگ کی۔ جو اب تک جاری ہے۔

طلبا کو بتانا تھا کہ یہ کون لوگ ہیں، کن کونے کھدروں سے کیڑے مکوڑوں کی طرح نکلے ہیں؟ ایوب خان کس طرح فیلڈ مارشل بنا اور اس کے مشیروں نے ادب اور ادیبوں کو خریدنے کے لئے کس طرح کے گماشتے مقرر کیے؟ اُس نے شاہی قلعے میں حسن ناصر کو کیسے شہید کیا؟ کس طرح دانشوروں، سیاست دانوں اور باضمیر لوگوں کو ساری رات جگانے کے لئے حربے استعمال کیے؟ ان کے ناخن کس طرح پلاس سے اکھاڑ ے گئے؟

کس طرح ان کی چیخوں کو دبانے کے لئے اقدامات کیے گئے؟ ضیا الحق نے کس طرح ادیبوں، شاعروں، وکیلوں (اُس وقت کے وکیلوں) کسانوں اور صحافیوں کے ننگے جسموں پر کوڑوں کے ساتھ گرم پانی کی بوچھاڑ کروائی؟ کس طرح یہ لوگ پاگل ہوئے اور اُن کے گھر والوں نے انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اداکارہ شبنم کیس میں راتوں رات ضیاء الحق نے پھانسی کے مجرموں کو کس طرح معافی دلوائی؟ کون شبنم کے گھر گیا اور اُس سے معافی نامہ لے کر آیا؟

طلباء کو پڑھانا چاہیئے تھا کہ سعادت حسن منٹو جب پاکستان آئے ہم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ چھوٹی عدالتوں میں کس طرح ذلیل کیا؟ روزگار کے سارے دروازے بند کر دیے۔ دس روپے میں تخلیقی مشقت پر افسانہ لکھوایا۔ قسطوں میں نہیں، یک مشت مرنے پر مجبور کر دیا۔ پاک ٹی ہاؤس میں اُسے دیکھ کر قیوم نظر اور شہرت بخاری ٹائلٹ میں ڈر کے کیوں گھسے تھے؟ بقول منٹو اُس نے تو کبھی بھی اُن سے اُدھار نہیں لیا تھا۔ منٹو کے افسانے" موذیل"، " بابو گوپی ناتھ "، " ٹوبہ ٹیک سنگھ "، "شہید ساز " اور "ننگی آوازیں " پڑھانا چاہیئے تھا۔

فیض کی نظم "ڈھاکہ سے واپسی پر " پڑھانا چاہیئے تھا اور طلباء کو اس مصرعے کا مطلب سمجھانا چاہتا تھا "خون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد"۔ ناصر کاظمی کی غزل طلباء کو پڑھانا چاہیئے تھا۔ جو1971ء کے بعد لکھی گئی۔ "وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے " مجھے بس یہ بتانا تھا کہ وہ بھٹیالی گانے والے ہمارے طرز احساس سے کیسے نکل گئے اور قرۃالعین حیدر، بڑے غلام علی خان اور ساحر لدھیانوی پاکستان چھوڑ کر کیوں چلے گئے اور سجاد ظہیر کو مچھ جیل میں کیوں بند کیا گیا؟

انتظار حسین کا "شہر افسوس"، "بستی " اور "ہندوستان سے آیا ہو ا خط" پڑھانا چاہیئے تھا۔ شیخ ایاز کی نظمیں اور وہ سارا عالمی لٹریچر اور اپنی زبانوں کا لٹریچر جسے ہم نے اپنے طلباء سے چھپا لیا، وہ سب پڑھانا چاہیئے تھا۔ فرانسیسی ڈرامہ نویس آئینیسکو نے ایک ڈرامہ لکھا تھا، " کرسیاں (The Chairs)"۔ اس میں ایک ریٹائرڈ افسر رات کے کھانے پر شہر کے تمام بڑے عہدے والے افسروں کو دعوت پر بلاتا ہے۔

جب وہ ایک ایک کر کے آتے ہیں تو سٹیج پر اُن کے وجود کے بجائے اُن کی صرف کرسیاں رکھی جاتی ہیں۔ ان کرسیوں سے میزبان گفتگو کر کے بتاتا ہے کہ صاحبو درحقیقت تو تم صرف کرسیاں ہو۔ تم اس سسٹم میں اپنی شناخت گم کر بیٹھے ہو۔ میں بھی اپنے قارئین، آپ سب لوگوں سے بصدِ ادب یہ کہنا چاہتا ہوں کہ امید ہے میرا یہ مضمون خالی کرسیوں سے خطاب نہیں ہو گا اور میری علمی کمی کوتاہی کو آپ درگزر فرما کر میرے کہے پر کبھی تو ذرا سا غور کریں گے۔

Check Also

Bharti Gaaye Ka Paigham Apne Bachre Ke Naam

By Ali Raza Ahmed