Kazan Ja Kar Kya Karoge?
کازان جا کر کیا کرو گے؟
رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ آسمان روشن تھا۔ روس میں یہ موسمِ گرما کی انتہا تھی۔ سفید راتیں تھیں۔ سورج رات گئے ڈھلتا اور دو گھنٹے بعد صبح کے دو بجے پھر طلوع ہونے لگتا۔ اس شام میں ماسکو سے بذریعہ ریل تاتارستان کے صدر مقام کازان پہنچا تھا۔ ماسکو سے رخصت ہوتے پلیٹ فارم پر کھڑی میری روسی دوست میزبان تاتانیا نے کہا تھا، تم آخر کازان جا کر کیا کرو گے؟ پھر خود ہی بولی اچھا ہے، تمہیں شاید وہاں اپنایئت کا احساس ہو، کازان میں اکثریت روسی مسلمانوں کی ہے۔
تم اپنے ہم مذہبوں میں رہنا چاہتے ہو؟ نہیں، میں روس میں سیاح ہوں۔ ان دیکھی زمینوں کی جانب سفر کرنا سیاح کی سرشت ہوتی ہے۔ وہاں تمہاری طرح کے مُلحد بھی آباد ہوتے تب بھی جاتا۔ اور ہاں کازان یونیورسٹی بھلا کون نہیں دیکھنا چاہے گا؟ جہاں سے لینن نے وکالت کی تعلیم حاصل کی اور اسی یونیورسٹی سے وہ ہوَا چلی جسے تم لوگ سرخ انقلاب کہتے ہو۔ میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا تو تاتانیا کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔ لینن اس کا دیوتا تھا۔
ریل کے ڈبے میں دو بزرگ خواتین بیٹھیں تھیں۔ دونوں نے سر سکارف سے ڈھانپ رکھے تھے۔ نیچے ایک لمبا سکرٹ تھا جس سے آدھ پنڈلیاں نمایاں ہوتی تھیں۔ اپنے درمیاں اجنبی صورت کو دیکھ کر وہ کچھ دیر کو ٹھٹھکیں۔ پھر مجھے گھورتی رہیں۔ میں سمجھ سکتا تھا کہ ان کے درمیاں میری صورت مکمل اجنبی کی سی ہے۔ ایک بزرگ خاتون نے مجھے روسی زبان میں کچھ کہا۔ میں نے جواب میں اشارے سے سمجھانا چاہا کہ مجھے روسی نہیں آتی۔ وہ چپ ہو گئی مگر گھورنا بدستور جاری رہا۔
میں کھڑکی سے باہر پلیٹ فارم پر چلتے لوگوں کی چہل پہل دیکھنے میں مشغول ہو گیا۔ کچھ دیر گزری ہو گی کہ ایک نوجوان کیبن میں داخل ہوا۔ نوجوان نے سامان دھرا۔ مجھے دیکھا اور پھر روسی زبان میں کچھ بولا۔ میں نے موبائل نکالا۔ ٹرانسلیشن ایپ کے ذریعے اسے کہا کہ مجھے روسی زبان نہیں آتی۔ نوجوان نے دوسرے ہی لمحے مجھے انگریزی میں اوکے کہا اور ساتھ ہی بزرگ خواتین سے باتیں کرنے لگا۔ ماسکو سے کازان تک گیارہ گھنٹے کا سفر بیتتا رہا۔
ٹرانسلیشن کے استعمال سے میرے ہمسفر میرے بارے میں جان چکے تھے اور میں ان کے بارے میں جان چکا تھا۔ ریل کازان سٹیشن پر رکی۔ بزرگ خواتین کی منزل بھی یہی شہر تھا۔ نوجوان کی منزل ابھی نہیں آئی تھی۔ وقت رخصت اس نے مصافحہ کیا اور دعائیں دیں۔ بزرگ خواتین میں سے ایک کا بھاری سوٹ کیس تھا۔ وہ میں اٹھا کے چلا۔ انہوں نے مجھے دعائیں دیں اور ضد کرنے لگیں کہ میں ان کا مہمان بنوں۔ وہ دونوں مسلمان تھیں اور ایک پاکستانی مسلمان سے مل کر ان کو خوشی ہوئی تھی۔
میں نے ان سے دعائیں سمیٹیں اور اجازت لے کر اپنے ہوسٹل کی جانب چل دیا۔ ہوسٹل ریلوے اسٹیشن سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ پیدل چلتے مسافت طے کی۔ ہوسٹل میں داخل ہوا۔ ریسپشن پر ایک بزرگ خاتون کھڑی تھی۔ اس نے مجھے میرا بنک بیڈ دکھایا اور بنا کچھ کہے رخصت ہو گئی۔ سفر کی تھکاوٹ اور نیند کی کمی کے سبب سر چکرا رہا تھا۔ بستر پر گرتے ہی مجھے نیند آ گئی۔ آنکھ کھلی تو رات کے دس بج رہے تھے۔ میں نے سامان کو محفوظ خانے میں دھرا اور آوارگی کی غرض سے باہر نکلنا چاہا۔
ریسپشن پر بیٹھی خاتون نے مجھے باہر نکلتے دیکھا تو روسی زبان میں کچھ بولی۔ میں نے اس کی بات ان سنی کر دی۔ اس وقت مجھے محسوس ہوا تھا کہ یہ شاید مجھے ہوسٹل کے طریقہ کار سمجھانا چاہ رہی ہے۔ میں اسے "اوکے" کہہ کر باہر نکل گیا۔ کریملن کے اطراف رونق تھی۔ نوجوان جوڑے بانہوں میں بانہیں ڈالے گھوم رہے تھے۔ آسمان روشن تھا۔ سورج چمک رہا تھا۔ میں بے مقصد چلتا رہا۔ میری کوئی سمت متعین تھی نہ منزل۔ شاید اس رات میں پانچ سے چھ کلومیٹر چلا۔
شہری بھیڑ سے ذرا ہٹ کر دریائے وولگا کے کنارے چلتے میرے ذہن میں وولگا کی تاریخ چلتی رہی۔ وولگا روس کا سب سے بڑا دریا ہے۔ بالشویک تحریک اسی دریا کے کنارے بسی آبادیوں سے اُٹھی اور پھر لینن نے سرخ آرمی کی بنیاد رکھی۔ سرخ آرمی نے زار روس کا تختہ الٹ دیا۔ وولگا کے کنارے اٹھتی بغاوتوں کو دبانے کی خاطر زار روس کی وائٹ آرمی نے بہت قتل و غارت کی تھی۔ ان دنوں دریا سرخ بہتا تھا۔ اس دن مٹیالا تھا۔ چلتے چلتے احساس ہوا کہ میں شہر کے مرکز سے دور نکل آیا ہوں۔
سورج اُفق پر ڈھل چکا تھا۔ سُرخی نے گلال مل دیا تھا۔ وہیں ایک اکیلا شخص دریا میں کانٹا ڈالے کھڑا تھا۔ اس نے مقامی ٹوپی پہن رکھی تھی۔ یہ کیپ کازانی مسلمانوں کی پہچان تھی۔ میں نے تصویر لی تو اس کا دھیان ٹوٹا۔ اس نے پلٹ کر مجھے دیکھا اور پھر حیرت سے دیکھتا رہا۔ اس کے لئیے ان مقامات پر میری صورت بالکل اجنبی سی تھی۔ نہ اس نے مجھ سے کوئی بات کی نہ میں نے۔ میں وہیں کچھ دیر سستانے کو سگریٹ سلگا کر بیٹھ گیا۔
جب وہ راڈ سمیٹ کر رخصت ہونے لگا تو میرے قریب سے گزرا۔ میں نے اسے "السلام علیکم" کہا۔ اس نے مجھے دیکھا۔ پھر میری طرف لپکا اور گرمجوشی سے مصافحہ کرتے روسی زبان میں کچھ کہنے لگا۔ جب اسے احساس ہوا کہ مجھے اس کی زبان سمجھ نہیں آ رہی تو اس نے اپنے سامان سے ایک ٹافی نکالی اور مجھے تھما دی۔ میں نے اس کا تحفہ قبول کر کے اس کا انگریزی میں شکریہ ادا کیا۔ ہوسٹل واپسی کے سارا راستہ اس ٹافی کو منہ میں رکھے گزرا۔
ہوسٹل پہنچا تو دروازہ لاک تھا۔ یہ ایک مضبوط آہنی دروازہ تھا جو الیکٹرک کوڈ انٹر کرنے پر کھُلتا تھا۔ کوڈ کیا تھا؟ مجھے نہیں معلوم۔ شاید ریسپشن پر بیٹھی خاتون مجھے یہی سمجھانا چاہتی تھی۔ رات کا ایک بج رہا تھا۔ میں نے پریشان ہو کر ہوسٹل کے نمبر پر کال ملانا چاہی۔ ہوسٹل کا نمبر بجتا رہا مگر کوئی اٹھانے والا نہیں تھا۔ پریشان ہو کر ادھر اُدھر دیکھا۔ آوازیں لگائیں۔ موبائل سے بار بار نمبر ملایا۔
اور بلآخر آدھ گھنٹے کی تگ و دو رائیگاں جانے کے بعد میں تھک ہار کر ہوسٹل کی بیرونی سیڑھیوں پر دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھ گیا۔ وہ ساری رات سگریٹ پھونکتے گزر گئی۔ صبح کے چار بجے نجانے کب آنکھ لگ گئی۔ میں وہیں سو گیا۔ آنکھ کچرا اٹھانے والی گاڑی کے شور سے کھُلی۔ ایک روسی شخص کچرے کا بڑا سا شاپر اٹھائے میرے سر پر کھڑا مجھے ٹُک ٹُک دیکھ رہا تھا۔