Imran Khan Ki Kamzori
عمران خان کی کمزوری
عمران خان میں بہت سی خوبیاں ہیں جیسے انتھک، محنتی اور یکسوئی کے ساتھ کسی مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد۔ زندگی کے کئی شعبوں میں ان کی کامیابی کی یہی وجوہات ہیں مگر عمران خان میں کچھ ایسی کمزوریاں بھی ہیں جن کی وجہ سے میں نے ہمیشہ یہ بات کہی کہ ان میں انتظامی صلاحیتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ عمران خان نے تمام عمر کبھی کوئی نوکری نہیں کی اور نہ ہی کبھی کسی ادارے کو چلایا۔ اسی وجہ سے انتظامی معاملات کے بارے میں نہ تو انہیں علم ہے اور نہ ہی کوئی تجربہ۔
یہی وجہ ہے کہ وہ 22 سال میں پی ٹی آئی کو ایک تنظیم نہ بنا سکے-مگر میں سمجھتا ہوں کہ پارٹی کے تنظیم نہ بننے کے سب سے بڑے قصوروار مرکزی ایگزیکٹو کے رکن تھے جو کبھی خان صاحب کے سامنے ڈٹ کر کھڑے نہ ہوئے اور ہمیشہ اسی کوشش میں رہے کہ خان صاحب ان سے ناراض نہ ہوں۔ ان کی نظر ہمیشہ عہدوں پر رہی اور جماعت ثانوی حیثیت میں رہی۔ عمران خان کی دوسری بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ مردم شناس نہیں ہیں اور ہمیشہ آدمی کو پہچاننے میں غلطی کرتے ہیں۔
وہ خاص طور پر امیر لوگوں سے جلدی مرعوب ہو جاتے ہیں اور انہیں کھونا نہیں چاہتے۔ ٹیکنوکریٹ بھی انہیں وہی پسند ہیں جو مشہور ہوں۔ اگر کوئی ٹیکنوکریٹ اپنی مارکیٹنگ نہیں کر سکتا تو وہ خان صاحب کی نظر میں فیل ہے۔ موجودہ کابینہ میں بھی آپ کو قابلیت سے زیادہ امیر اور مشہور لوگ ملیں گے۔ اسد عمر مشہور بھی تھے اور امیر بھی مگر ان میں وزیر خزانہ بننے کی صلاحیت کبھی بھی نہیں تھی۔ اسد عمر کی ناکامی دراصل عمران خان کی قائدانہ صلاحیتوں پر ایک سوالیہ نشان تھا اور انہیں قوم کو بتانا چاہیے تھا کہ کن صلاحیتوں کی بنیاد پر وہ اسد عمر کو وزیر خزانہ کے طور پر پیش کرتے رہے۔
باصلاحیت لوگوں کو محنت کرکے ڈھونڈنا پڑتا ہے اور پھر انہیں یہ اعتماد بھی دینا پڑتا ہے کہ ان کے فیصلوں کو پوری حمایت اور تائید حاصل ہوگی تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کریں اور عوام کے مسائل حل کرنے والے اقدامات کریں۔ عمران خان اور تیسرے امپائر دونوں میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ قابلیت کو پہچان سکیں اور انہیں کام کرنے دیں۔ یہی صورتحال پنجاب میں بزدار صاحب کی صورت رہی۔
عمران خان کی تیسری بڑی کمزوری یہ ہے کہ انہوں نے اپنی ٹیم کی تربیت اور صلاحیت میں اضافے پر کوئی توجہ نہیں دی۔ 2013 کے بعد پی ٹی آئی میں ایک مرکزی تربیتی کونسل بنائی گئی مگر اس تربیتی کونسل کو عمران خان کی حمایت کبھی حاصل نہ ہوئی اور بارہ دفعہ درخواست کے باوجود بھی اس کونسل کا نوٹیفکیشن جاری نہ ہو سکا۔ اس وقت کے جنرل سیکرٹری جہانگیر ترین تھے جو خان صاحب کو بس یہی کہتے رہے کہ "میں ہوں نا آپ بے فکر رہیں"۔ آج جہانگیر ترین کہاں ہے؟
عمران خان کی چوتھی بڑی کمزوری یہ ہے کہ صبح سے لے کر شام تک اگر ان کی تعریف میں قصیدے نہ کہے جائیں تو انہیں مزا نہیں آتا۔ قابل اور کام کرنے والے لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ اپنا سارا وقت تعریفوں میں صرف کریں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کئی خوشامدی جمع ہوگئے جو صرف یا تو خوشامد کرسکتے تھے اور یا غیرسنجیدہ بیان دے کر شرمندگی کا باعث بن سکتے تھے اور وہی ہوتا رہا۔ شہباز گل اور ہمنوا مسلسل نان سیریس بیانات دیتے رہے۔ اپوزیشن کی ہجو بناتے رہے۔
عمران خان کی پانچویں کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنے تئیں سمجھتے ہیں کہ وہ گمراہ زندگی سے نکل آئے ہیں، نوجوانی خود تو عیاشی میں بسر کر لی مگر اب قوم کی روحانی تربیت کرنا ضروری ہے۔ اسی چکر میں ان کے منہ سے رٹی رٹائی، سنی سنائیں باتیں، جملے اور الفاظ نکلتے رہے جن کو عوام سن سن کر بیزار ہو چکی تھی۔ ریاست مدینہ، روحانیت، وغیرہ وغیرہ۔ رہی سہی کسر ان کے مذہبی رجحانات اور توہمات نے پوری کر رکھی ہے۔
عمران خان کی چھٹی کمزوری یہ ہے کہ اقتدار میں آنے سے پہلے کپتان نے اپنی حریف سیاسی جماعتوں پر جو تنقید واعتراضات کئے تھے وہی ان کا آج تک پیچھا کرتے رہے۔ اس کے علاوہ آپ نے پلاننگ اور منصوبہ بندی اور متعلقہ افرادی قوت کا اندازہ کئے بغیر جو بلند وبانگ وعدے عوام سے کئے وہ بھی اُن کےلئے ایک ڈراؤنی صدائے بازگشت کی صورت اختیار کر چکے تھے۔ یہ اور اس طرح کے اور کئی اہم نکات اپنی جگہ لیکن سب سے بڑی خطا یہ ہوئی کہ پی ٹی آئی میں الیکٹبلز کا قبضہ مضبوط ہونے لگا۔
اگرچہ پاکستان کی موروثی سیاست میں یہ ایک مجبوری ہوتی ہے لیکن اس چیز نے پی ٹی آئی کے انقلابی مقاصد کا دم خم بہت کمزور کیا۔ عمران خان نے انتخابی جلسوں میں حکومت کے ہر شعبہ کے ماہرین پر مشتمل ٹیم کا مژدہ سنایا تھا جو کبھی سامنے نہ آسکا۔ معیشت کسی بھی ملک کےلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کا زیادہ تر دار ومدار وزارت خزانہ پر ہوتا ہے اور اس حوالے سے ستم ظریفی دیکھئے کہ وزیر خزانہ ایڈہاک بیسز پر آتے رہے۔
عمران خان کی ساتویں کمزوری یہ ہے کہ کرپشن کے خاتمے کا یقین دلا کر برسر اقتدار آئے اور ان کی اپنی جماعت کے سرکردہ لوگ، ان کے ذاتی دوستوں نے کرپشن و بد عنوانی کے ریکارڈ بنا ڈالے۔ زلفی بخاری، پرویز خٹک، اور ساوتھ پنجاب کے شوگر مافیا سمیت اوپر سے نیچے تک، پر دوسرا شخص گردن گردن تک کرپشن میں لت پت ہو کر الٹا بلیک میل بھی کرتا رہا اور وہ ہوتے رہے۔
عمران خان کی آٹھویں کمزوری یہ ہے کہ انہوں نے میرٹ کی دھجیاں اڑا دیں۔ اپنے دوستوں کو نوازا اور ریاست کے 35 اداروں کے سربراہان کی تقرری پاک فوج کے ریٹائرڈ افسران کی کرنے کے سوا داخلی و خارجی معاملات بھی مکمل ان کے سپرد کر چھوڑے۔ میرے ذاتی خیال میں پس پردہ قوتوں کو ایک کو گھر بھیجنے اور پرانے مہروں سے نئی بساط سجانے سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔ ایک کو لانے اور ایک کو رخصت کرنے کا کھیل سات دہائیوں سے جاری ہے۔ ان کو خود براہ راست سامنے آ کر اقتدار سنبھالنا چاہیئے اور عوام الناس کو اپنا "فیض" پہنچانا چاہیئے۔
سیاستدانوں کو چاہیئے کہ وہ کٹھ پتلیاں نہ بنا کریں۔ بعد میں یہی ہوتا ہے جو تحریک انصاف و عمران خان کے ساتھ ہوا ہے۔ مگر "اپنا درد ہے اپنا پیارے" کے مصداق کوئی سیاسی جماعت اس حقیقت کو سمجھ کر بھی اقتدار نظر آنے پر اپنی آنکھیں بند کر لیتی ہے۔ ملک پر بیرونی قرضہ جات 30 کھرب سے بڑھ کر ان تین سالوں میں 60 کھرب ہو چکے ہیں۔ معیشت کے انڈیکس خطرناک ترین ہیں۔ ملک ٹیکنیکلی دیوالیہ ہو چکا ہے۔ اب مزید نئے تجربات کی گنجائش نہیں۔ یہ معیشت کی دنیا ہے۔
معیشت جغرافیائی تبدیلیاں لاتی ہے۔ افریقہ تا یورپ تا روس دنیا کا نقشہ دیکھ لیجیئے۔ کیسی کیسی ریاستیں کمزور معیشت کے سبب ٹوٹ کر ٹکرے ٹکرے ہوئیں۔ اب جب وہ رخصت ہو چکے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ فراغت پا کر وہ اپنی غلطیوں پر غور کریں گے اور اگر قدرت نے ایک بار پھر موقع دیا تو وہ اپنی غلطیوں سے اسباق سیکھ کر نئے طور سے آئیں گے۔ گو کہ آسمان نے بنی اسرائیل اور رائیونڈ کے علاوہ کسی کو دوسرا موقع کم ہی دیا ہے۔