Imran Khan Ke Masroof Ayam
عمران خان کےمصروف ایام
بلاشبہ گزرا ہُوا ایک سوا ایک ماہ عمران خان صاحب کے سب سے مصروف ایام تھے، روزانہ اوسطاً دس ملاقاتیں، انٹرویوز اور خطابات۔ انہوں نے اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو بھی ایڑیوں پر رکھا اور ایک سپورٹس مین والی توانائی برقرار رکھتے ہوئے لائن اینڈ لینتھ کے ساتھ صرف ایک وکٹ کو نشانہ بناتے ہوئے نئے گیند سے اچھی خاصی متاثر کن بولنگ کی۔
اگرچہ وکٹ تو نہیں اڑی مگر میڈن اوور نے مخالف بلے باز کو حکومتی پچ پر ایک رن بھی نہیں بنانے دیا اور وہ تیز رفتار گیند پر چوکا چھکا لگانے کے بجائے اِدھر اُدھر نکالتا رہا۔ مگر یہ کوئی ٹی ٹونٹی، ون ڈے یا ایک ٹیسٹ نہیں بلکہ پوری سیریز کا معاملہ ہے۔
سیریز جیتنے کے لیے ایک مؤثر گیم پلان، سپنرز، فاسٹ بولرز، اوپنرز اور مڈل آرڈر بیٹنگ کا متوازن کومبینیشن، میرٹ پر سلیکشن، گراؤنڈ کے حالات دیکھتے ہوئے حکمتِ عملی میں بروقت تبدیلی، مخالف ٹیم کی کمزوری و طاقت پر نظر اور اس سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش، جیتنے کے ارادے ظاہر کرنے والی باڈی لینگویج، باقاعدہ نیٹ پریکٹس، مضرِ صحت عادات و اشیا سے پرہیز، کھلاڑیوں کے مورال اور ذہنی و جسمانی ضروریات کا مسلسل خیال، فیورٹ ازم سے چھٹکارا اور مشکل حالات میں بھی جیت کے عزم کو برقرار رکھنا ازحد ضروری ہوتا ہے۔
سیریز کیا میچ بھی نہیں جیتا جا سکتا اگر اپنی خامیوں کو دور کرنے کے بجائے بارش کی دعائیں مانگی جائیں، کھلاڑی دیر تلک جاگنے یا سونے، ہر اناپ شناپ کھانے پینے، یا سٹے بازوں اور حسیناؤں سے فون نمبرز کے تبادلے کو کوئی مسئلہ ہی نہ سمجھیں۔ پھر میدان میں آدھے جاگتے آدھے سوتے اتریں تو ہر فیصلے کے لیے تھرڈ امپائر کی طرف دیکھیں، فیصلہ مرضی کا نہ ہو تو بلا زمین یا وکٹ پر مارتے بکبکاتے پویلین کی طرف روانہ ہو جائیں۔
ٹیسٹ میچ کیا ٹی ٹونٹی بھی نہیں جیتا جا سکتا اگر ٹیم کی فتح و شکست کا دار و مدار صرف ایک آدھ بولر یا ایک دو بلے بازوں پر ہو۔ چل گئے تو چل گئے نہ چلے تو ٹیم کو بھی ساتھ باندھ لے گئے۔ کپتان بھلے کتنا ہی باصلاحیت اور چاروں خانے فٹ کیوں نہ ہو، اکیلے میچ نہیں جیت سکتا۔ کپتان بھلے کتنا ہی پروفیشنل، بے داغ پرفارمنس والا یا ہر حالت میں پرعزم ہو، اپنی انفرادی پرفارمنس کے باوجود کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔
اگر ٹیم بھی صلاحیت، عزم اور پروفیشنل ازم میں کپتان کے ہم پلہ نہ سہی اس کی آدھی بھی نہ ہو۔ ایک دو ریلو کٹے تو کسی بھی ٹیم میں کھپ جاتے ہیں اگر باقی آٹھ یا نو معیاری ہوں۔ مگر جہاں کیمپ ہی بہت سے سفارشیوں، ماٹھوں، پرچی بازوں اور بھائی بھتیجوں سے بھرا ہو، اس کیمپ میں سے میرٹ کے اصول پر بھی جو ٹیم سلیکٹ ہو گی وہ دنیا کے بہترین کپتان کی قیادت میں بھی کیا کر لے گی۔
لہٰذا اگر واقعی پاکستان نامی سمیت کوئی بھی بین الاقوامی کپ جیتنے کی نیت ہے تو پھر ڈومیسٹک کرکٹ کو پسند ناپسند کی نحوست سے نکالنا ہو گا۔ سیاسی سلیکٹر کو پروفیشنلز کے لیے نہ چاہتے ہوئے بھی جگہ خالی کرنی ہو گی۔ باوردی سلیکٹرز کو چلتی سیریز میں کپتان بدلنے کی عادت ختم کرنی ہو گی۔ نیز کسی بھی میچ کے دوران کسی بھی غیر کھلاڑی کا، بھلے وہ کتنا ہی پھنے خان ہو، ڈریسنگ روم میں داخلہ بند کرنا پڑے گا۔ کپتان کو اپنی پِچ پر میڈِن اوور مبارک ہو۔ مگر اب سیریز جیتنے کے لیے آگے کیا کرنا ہے؟
کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ کپتان اپنے من پسند چُنیدہ اور چیدہ چیدہ غیر پروفیشنلز، کپتان کے لئے نرم گوشہ رکھ کر نرم سوال کرنے والے بلاگرز، یوٹیوبرز، فلم ایکٹر وغیرہ سے باہر نکل کر سخت سوالات کی بوچھاڑ کرنے والے پروفیشنل صحافیوں کے سامنے کھُل کر اپنی پرفارمنس دکھائیں تو بعد از ہَوا میں بَلا لہرانے کا مزہ بھی آئے گا اور مخالفین بھی کم از کم اتنا تو کہنے پر مجبور ہوں گے کہ "کھلاڑی کا انداز، ردھم اور سٹروک اچھا ہے"
نیز یہ کہ جذبات سے دھکا تو لگایا جا سکتا ہے البتہ ڈرائیونگ کے لیے عقل ہی کام آتی ہے۔ اگر عام انتخابات والی سیریز جیت گئے تو آگے کیا کرنا ہے؟ کوئی ٹیم پلان؟ کوئی پیشگی منصوبہ بندی؟ کوئی معاشی حکمت عملی؟ وگرنہ تو ساڑھے تین سالہ اننگز بھی سب کو اچھی طرح یاد ہے۔