Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Har Taraf Tu Hi Tu

Har Taraf Tu Hi Tu

ہر طرف تُو ہی تُو

ہر طرف تُو ہی تُو تھا، جبکہ اطراف بھی نہ تھے اور آنکھیں بھی نہ تھیں۔ میں اس وقت کی کہانی سنا رہا ہوں جب جوش ہوش بھی نہ تھا۔ وہم و خیال بھی نہ تھے، راز راز نہ تھا۔ وہ اپنے آپ پر آشکارا تھا۔ کوئی رازداں بھی نہ تھا۔ نہ صبح ازل میں کسی کو ہنوز انکا کی جرأت ہوئی تھی، نہ روح، نہ مادہ، نہ فرشتے، نہ شیطان اور میں بھی نہ تھا۔

نہ پانی، نہ مٹی۔ عناصر لامعلوم، مظاہر نا مشہود، نہ سمت، نہ جہت، نہ رنگ، نہ صورت، نہ لفظ، نہ معنی، کچھ نہ تھا مگر وہ تھا۔ عدم کی رات میں سوتا سنسار، جاگتا پروردگار۔ عالم ہُو تھا۔ صرف خود بینی تھی۔ اور پھر فیکون۔ عالمِ ہُو سے خلاؤں کی وسعتیں پیدا ہوئیں۔

"خیال" نے صورتیں اختیار کرنی شروع کیں۔ "قوت" نے مادہ کی نیرنگی کے روپ دھارن کئے۔ اظہار فیکون میں زمانے لگ گئے مگر یہ زمان و مکان سب کچھ اضافی ہیں کہ کن فیکون کا لمحہ بھی ایک آن ہے اور آن بھی ایک لمحہ۔ ایک کن کے بیج سے ستاروں اور سیاروں کے غنچے کھلے، چاند کی کلی چٹکی اور پھول بنی۔ آفتاب کا پھل لگا۔ صحرا صحرا، دریا دریا و جود میں آئے۔ دشت و بیاباں، جنگل اور کوہستان بر و بحر۔ عالمِ آفاق پیدا کیا گیا۔ میں بھی کہاں ہوتا اگر حُسن نہ ہوتا خود بیں۔ یوں میں پیدا ہوا۔

ابھی تو آدم کی زندگی انگڑائی ہی لے رہی تھی کہ کشمکشِ اقرار و انکار میں مبتلا کر دی گئی۔ کیا کہیں اور کیا نہ کہیں۔ خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری۔ لیکن میری کہانی میری زبانی سننے کو نہ جانے کون بے چین ہے کہ آپ بیتی سنانے میں مجھے بھی مزہ ملتا ہے۔ کون جانے کس چیز کا بار امانت میرے سپرد کیا گیا۔ پہلا واسطہ فرشتوں سے پڑا پھر شیطان سے، بعد ازاں جبریل امین کسی کا فرمان سنا گئے۔

شجر ممنوعہ کا واقعہ تو گذر گیا۔ اس کے بعد قید لا معلوم شروع ہوئی، جیے جانے کی تہمت بھی بالائے غم برداشت کرنی پڑی۔ موت نے بڑا کرم کیا، لیکن اس سے قبل بہت ہی عجیب، بہت حیرت ناک واقعات رونما ہوئے۔ میری روح نئے آدم اور ہر آدم میں بولتی رہی۔ ہر آدمی میں، میں ہی میں تھا۔ میں نے بہت سے اسم سیکھے ہیں، اور اسمِ اعظم بھی سیکھا۔ میں انہیں سیکھ سیکھ کر بھولتا اور بھول بھول کر سیکھتا رہا۔

میں اپنے بیتے دنوں کو جھوٹ سچ کہانیاں بناتا رہتا ہوں۔ محروم وصال تو کر دیا گیا ہوں مگر محروم تمنا نہیں ہوں۔ میری آرزوئیں کہانیاں گڑھتی ہیں اور میری حسرتیں سفر کا سامان پیدا کرتی رہتی ہیں۔ عمر خیام نے ایک کہانی کہی تھی "کوزہ نامہ"۔ مٹی کی مخلوق کی کہانی۔ آپ بیتی، یہ میناو جام کو کون بنا کر توڑتا ہے؟ انہیں مے سے کون بھرتا اور خالی کرتا ہے؟ مگر کہانیوں اور خود بیتیوں کے میناو جام تو میں خود بناتا ہوں۔

خود کوزہ و خود ہی کوزہ گر۔ پیدا ہوا تو میرے اندر احساسات کے بعد جذبات کی آنچ اٹھی۔ پھر تخیلات پیدا ہوئے، بعد ازاں ادراک جاگا۔ میں نے یہ نام رکھ چھوڑے ہیں۔ یہ نت نئی اٹھنے والی اندرونی موجوں کے یونہی سے نام ہیں۔ بالکل ادھورے غرض یہ کہ میرے اندر کی دنیا باہر کی نسبت زیادہ تیزی سے بدلتی رہی ہے۔ میں اپنے روپ، رنگ اور اپنے اندرونی ڈھنگ کو پہچاننا چاہتا ہوں مگر پہچان نہیں پاتا۔

کسی کو قرار نہیں، میں بھی بے قرار ہو جاتا ہوں اور رونے لگتا ہوں۔ ہر آن ایک نئی موت، ایک نئی حیات۔ کیسی الم ناک زندگی ہے۔ جب میں اپنے آپ کو بھی نہ جان سکوں، نہ پہچان سکوں، نہ سمجھ سکوں، اور غضب تو یہ کہ زندگی جاوداں پیہم دواں۔ گھبرا کر میں ماضی کے دامن میں پناہ لینے کی سعی ناکام کرتا ہوں۔ ماضی غیرمتزلزل ہے، مستقل ہے، اٹل ہے، لیکن خود میری نگاہ بدلتی رہتی ہے۔

جیسے دوربین میں نت نئے شیشے لگائے جائیں۔ نظر کا مرکز محور اور فوکس بدلتا ہے، زاویہ نگاہ بدلتا ہے، جانا پہچانا ماضی بھی دھندلاکر رہ جاتا ہے۔ مجھے پناہ نہیں ملتی۔ بوکھلا کر حال کا جائزہ لینے لگتا ہوں۔ اسے سمجھنا چاہتا ہوں لیکن حال سے زیادہ غیر یقینی اور کوئی شے نہیں۔ پھر میں حال کی بھٹی میں جلنے لگتا ہوں، پگھلنے لگتا ہوں، بکھرنے لگتا ہوں اور کوہ آتش فشاں کے لاوا کی طرح پریشان ہو کر مستقبل کی جانب پرواز کرنے لگتا ہوں۔

ایک انجان دنیا کی طرف مستقبل کے تصور سے دو گھڑی کے لئے پناہ مل جاتی ہے یا شاید صرف ایک آن کے لئے۔ جو بھی ہو، بعد میں دل ہی کیوں نہ ٹوٹے، میں آرزو پروردہ مستقبل کو اپنے فکر و خیال کی مدد سے جس طرح چاہتا ہوں پروان چڑھاتا ہوں۔ حسرتیں اور تمنائیں مستقبل کے نئے ہیولے بناتی رہتی ہیں۔ لیکن اس پر پرواز سے مجھے قرار نہیں ملتا۔ ہر لمحہ اضطراب پیہم سے سیماب دار و برق وش بنا رہتا ہوں۔

پھر میں گردشِ مکان اور درد زمان کو روکنے کے لئے بڑے جلال کے ساتھ اٹھتا ہوں۔ جیسے میں خود خالقِ زمان و مکان ہوں۔ میں ایسے ان گنت المیے پیدا کرتا رہتا ہوں۔ میں تو شیطان کو بھی مکمل اپنا نہ سکا۔ فرشتے اور شیطان مجھے اپنی اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں۔ اس محاذِ خیر و شر کا نشانہ تو میں ہوں۔ شیطان اور فرشتہ کا تو ایک بیچ ہے، ایک حجاب ہے۔

میں جانتا ہوں مجھے خراد کر، تراش کر، کاٹ چھانٹ کر، کوٹ پیس کر، گوندھ گوندھ کر، تپاکر، پگھلا کر، کون اپنے لئے کھلونے بناتا رہتا ہے۔ ایک زندہ جود کو تخلیق کی بھٹی میں ڈالنا ستم ہے کہ کرم؟ میں نے ویاس اور والمیکی کا قلم پکڑ کر مہا بھارت اور رامائن لکھوا دی۔ ہومر کے قلم کو الیاڈ اور آڈیسی لکھنے پر مجبور کیا۔ ابن عربی کے بھیس میں فتوحات مکیہ کو انجام تک پہنچایا۔ روح کا ابدی سفر اور اس کی معراج دیکھی۔

میں دانتے کی رگوں میں دوڑا اور اس کی آنکھوں ٹپکا۔ گوئٹے کے مادی وجود میں سما کر میں نے فاؤسٹ کی ذات سے اپنے روحانی المیہ کی ایک تعبیر گڑھی۔ میں نے اوتھیلو بن کر اپنی محبت کا گلا گھونٹا۔ میکبتھ کے روپ میں اپنی وفاؤں کو قتل کیا۔ میں نے لیٹر کے ہاتھوں اپنی شفقت کو زہر دیا اور ہیملٹ کے قالب میں آکر ان سب کا خمیازہ بھگتا، میں ظالم تقدیر کے وار سہتا اور تیر کھاتا رہا مگر جرأت مقابلہ نہ کر سکا۔

میں نے کافکا کی چشم باطن سے زندگی کا مشاہدہ کیا۔ میں نے رومی اور سعدی کی آنکھوں سے بھی یہی کچھ دیکھا تھا۔ میری انسانیت کے ایک جزنے دوسرے جز کو نہ پہچانا۔ دوسرے جز میں انسانیت تھی ہی نہیں، شیطنت تھی، بیسویں صدی کے انسان، مہذب و متمدن ہونے کے باوجود قطعی بے درد، بے حس، کٹھور، ظالم نکلے۔ آہ میں کہ میری روح کا ایک جز چمگادڑ بن جاتا ہے اور دوسرا فرشتہ۔

اسرار ازل کے ایک واقف نے مجھ سے کہا کہ یہ تغیر عظیم، یہ انقلابات، یہ سوچیں سب غدود کی وجہ سے ہیں۔ شہ رگ کے قریب بیٹھ کر وہ میرے خون میں غدود سے "ہارمونز" نچوڑتا رہتا ہے۔ یہی ہارمونز کبھی زہر بن جاتے ہیں، کبھی تر یاق۔ ہورمونز نے مارکس، فرائڈ اور آئنسٹائن کو پیدا کیا۔ اسرار ازل کے ایک واقف نے مجھ سے توریت میں کہا "میں تجھے برکت دوں گا اور تجھ پر لعنت بھی کروں گا۔

میں تجھے فرعون سے نجات دوں گا اور ارض مقدس میں بساؤں گا۔ پھر تو ذلیل بندر کی طرح ساری دنیا میں مارا مارا پھرے گا اور آخری زمانہ میں تو حساب کے لئے ارض پاک میں لایا جائے گا مگر اس وقت تو ملعون ہو گا تو اپنے بھائیوں پر، اسمٰعیل کی نسل پر ظلم ڈھائے گا۔ میری زندگی مضحکہ خیز بھی ہے۔ اس کے بے جوڑپن پر ہنسی آتی ہے۔ بڑی بڑی باتوں کے بارے میں سوچتے میں چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھ جاتا ہوں اور یہ باتیں مضحکانہ طور پر آفاقی اہمیت اختیار کر لیتی ہیں۔

میں بھی کیسا نادان ہوں، چار ہزار برس قبل میں سدھارتھ گوتم بن کر جنگلوں میں پھرا تھا۔ دو ہزار برس قبل میں صلیب پر مصلوب ہوا تھا۔ چودہ سو برس قبل مجھے تمام دُکھوں سے نجات کا مژدہ سنایا گیا۔ لیکن آج بھی پاکستان سے لے کر شمالی افریقہ تک، لاہور سے روم تک، روس سے ترکی تک، پرانی دنیا سے لے کر نئی دنیا تک، میں اپنی صلیب آپ اٹھائے پھرتا ہوں۔

تُو نے مرے خمیر میں کتنے تضاد رکھ دیئے

موت مری حیات میں، نقص مرے کمال میں

Check Also

Irani Sadar Ka Dora, Washington Ke Liye Do Tok Pegham?

By Nusrat Javed