Film Jhunjhuna Ka Aik Review
فلم جھنجھنا کا ایک ریویو
دس اپریل کی رات کو ملک کے تقریباً 272 سینماؤں میں بیک وقت ریلیز ہونے والی پولٹیکل ایکشن فینٹسی تھرلر "جھنجھنا" نے اپنی مقبولیت کے اعتبار سے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیئے، جس جس فلمی ناقد نے ریلیز کے بعد "جھنجھنا" کو بی کلاس کہانی قرار دے کر سپر فلاپ کی پیش گوئی کی تھی، وہ سب تاحال ناکام ہیں۔
لگ بھگ چالیس تا پینتالیس ارب روپے کے بھاری بجٹ سے بننے والی اس فلم میں پرانے سکہ بند ہیروز ہیروئن کو لیا گیا ہے۔ سکرپٹ بھی کسی ایک رائٹر نے نہیں بلکہ "دی لیجنڈز" نامی کسی ٹیم نے مل کر لکھا۔ البتہ فلم کا ولن خان اور اس کے ساتھی فلمی دنیا میں قدرے نئے کردار ہیں۔ "جھنجھنا" کے ڈائریکٹر کا نام بھی پہلے سن رکھا ہے۔ ایکس ٹو، بھلا یہ کیا نام ہوا؟ مجھے تو یہ نام ابنِ صفی کی عمران سیریز سے چرایا ہوا لگتا ہے۔ ایکس ٹو، عمران کا باس جو شاید ایک دو بار کے علاوہ ابنِ صفی کے ہر ناول میں پردے کے پیچھے ہی رہا۔
ایکس ٹو کا اصل نام صرف تین لوگ جانتے تھے۔ ابنِ صفی یا ناول کے دو مرکزی کردار عمران اور سر سلطان۔ بہرحال میں نے بھی اس چاہ میں جھنجھنا دیکھ لی کہ اس میں ایسا کیا ہے کہ خلقت ٹوٹی پڑ رہی ہے۔ واقعی پرانی ٹیم کے ساتھ اتنا بھاری مالی رسک لے کر سکرپٹ، ڈائریکشن، سینماٹو گرافی اور گرما گرم آئٹم سانگز کے اعتبار سے بہت ہی کامیاب پروڈکشن ہے۔
اگر میں ایک لائن میں کہانی بتاؤں تو یوں ہے کہ خیالستان نامی ملک ہر طرح کے بحران سے جوج رہا ہے اور یکے بعد دیگرے ہر قسم کے نجات دہندہ کو آزما رہا ہے۔ باقی کہانی اچھائی اور برائی کے مابین جنگ کے گرد گھوم رہی ہے۔ کہانی نئی نہیں ہے، البتہ جدت اور منصوبہ بندی سے پیش کر کے فلم بینوں کی نئی نسل کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ فلم کے آغاز میں ان تمام سرکاری و نجی اداروں کا شکریہ ادا کیا گیا ہے جنہوں نے اس کی پروڈکشن میں بھرپور تعاون کیا۔
پھر خبردار کیا گیا کہ تمام کردار فرضی ہیں۔ مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ شطرنج کی بساط والے فرضی ہیں یا واقعی فرضی ہیں۔ تاہم جوں جوں کہانی آگے بڑھتی ہے فرضی اصلی کا فرق مٹتا چلا جاتا ہے۔ جہاں تک اداکاری کا معاملہ ہے تو مجھے دو پرانے اداکاروں شہباز اور آصف کی فنی صلاحیتوں نے خوب متاثر کیا۔ عمران کی بھی یہ پہلی فلم ہے، مگر انہوں نے بطور ولن بڑھکیں مار کر کردار بخوبی نبھایا ہے۔ فلم میں کئی لمبے لمبے عدالتی مناظر بھی ہیں۔
ان مناظر کا سیٹ اور فلم بندی نہایت شاندار ہے، مگر بطور ناظر یہ بات پلے نہیں پڑی کہ ڈائریکٹر نے ججوں کے چہروں پر نقاب پڑا کیوں دکھایا؟ اور یہ بھی کہ جن پرانے معاون اداکاروں نے کردار ادا کیا انہیں اور کسی جرم میں نہ سہی کم از کم خراب اداکاری کے جرم میں اڈیالہ جیل میں ہونا چاہیے۔ تعجب ہے ڈائریکٹر نے ان اداکاروں پر محنت نہیں کی یا پھر ڈائریکٹر ان کرداروں کو دکھانا ہی ایسے چاہتا تھا اور اب کچھ ذکر "جھنجھنا" کے ہیرو کا۔
ایک شہباز پر جوش نامی غریب کسان کا بیٹا جو خیالستان کو بحران سے نکالنا چاہتا ہے، مگر کوئی اس کی بات پر دھیان نہیں دیتا۔ وقت گزرتا چلا جاتا ہے پر ہیرو حوصلہ نہیں ہارتا۔ ایک دن وہ عدالت کے احاطے میں پیشی بھگتنے کے بعد افسردہ ٹہل رہا ہوتا ہے تو ایک آواز آتی ہے "مایوس مت ہو بچہ۔ ہم تیرے ساتھ ہیں"۔ ہیرو پریشان ہو کر ادھر ادھر دیکھتا ہے، مگر اسے کوئی آدم نظر نہیں آتا۔
اس لمحے قسمت کا ستارہ چمک اٹھتا ہے حالات بدلنے شروع ہو جاتے ہیں۔ جو لوگ کل تک اسے سنجیدگی سے نہیں لیتے تھے جوق در جوق اس کے ساتھ ملنے لگتے ہیں۔ ایک کے بعد ایک کٹھنائیاں دور ہونے لگتی ہیں۔ اور پھر خوفناک ولن اپنی کوتاہیوں و ناقص حکمت عملی کے نتیجے میں مکافاتِ عمل کی پکڑ میں آتا چلا جاتا ہے۔ آخری منظر میں ہیرو کی رومن تھیٹر کی طرز کے عظیم الشان سیٹ پر تاج پوشی ہوتی ہے۔
ایک بے چہرہ خاکی لباس پوش شخص پیچھے سے نمودار ہو کر اقتدار کی منقش چھڑی ہیرو کے حوالے کرتا ہے۔ دوسرا بے چہرہ سفید جبہ پوش ہیرو کو سنہری جھنجھنا پکڑا دیتا ہے۔ چھڑی شاید نشانی ہے حکومت کی اور جھنجھنا نشانی ہے مسائل سے جوج رہے خیالستانی تماشائیوں کو تماشے میں بہلانے کی اور پھر دھرتی "دیکھو دیکھو کون آیا" کے نعرے سے گونج اٹھتی ہے۔ دی اینڈ۔