Thursday, 05 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Chand Raat Aur Eidi

Chand Raat Aur Eidi

چاند رات اور عیدی

روزانہ کے پھیروں، آج کل آج کل کے بیسیوں بہانوں، ٹنوں خوشامد اور منوں ناراضی کے نتیجے میں عید کا چاند دکھائی دینے کے بھی گھنٹے دو گھنٹے بعد لطیف ٹیلرز ترسا ترسا کے بالاخر یہ کہتے ہوئے جوڑے دے دیتا کہ اس وقت کان کھجانے کی بھی فرصت نہیں لہذا استری گھر جا کے کروا لینا اور اماں سے تاخیر پر معذرت کر لینا۔ چاند رات سال کی سب سے طویل رات ہوتی تھی۔ کٹنے کا نام ہی نہ لیتی۔

بے چینی سے کروٹ پر کروٹ بدلنے کا سبب یہ نہیں تھا کہ صبح ہی صبح نہا دھو کر نئے کپڑے پہن کر ابا کی انگلی تھامے عیدگاہ میں نماز پڑھنے جانا پڑے گا بلکہ بے چینی کا اصل سبب یہ ہوتا کہ نماز ختم ہو تو ہم ابا کی انگلی چھڑا کے گھر کی طرف بھاگیں اور نانی کے گھر جائیں۔ نانی اماں کی گود میں سر رکھ کے انہیں ایک آنکھ سے ملتجیانہ دیکھنا شروع کر دیں۔

نانی کہتیں "مجھے پتہ ہے تو کیوں گھسا چلا جا رہا ہے، لا یہ صندوقچی دے"۔ اور میں ہاتھ بڑھا کر وہ صندوقچی تپائی سے اٹھاتا اور نانی کے سامنے دھر دیتا۔ اس " خزانے" کی چھوٹی سی چابی نانی اماں کے گلے میں چاندی کے خلال والی ڈوری کے ساتھ پروئی لٹکتی رہتی۔ نانی اس جادوئی چابی سے صندوقچی کھولتیں اور حساب کتاب کی پرچیوں کو ایک طرف کرتے ہوئے ایک سو روپے کا نوٹ نکالتیں اور یہ کہتے ہوئے ہاتھ پر دھر دیتیں "لے کل موہے تیری عیدی"۔ اور کل موہا عیدی پکڑتے ہی یہ جا وہ جا۔ پیچھے پیچھے نانی کی آواز آتی رہتی " یہ آج کل کے بچے کتنے مطلبی ہو گئے ہیں، توبہ توبہ "۔

نانی کے عطا کردہ سو روپے کے نوٹ کی اہمیت یہ تھی کہ اب ہم اسے سرٹیفکیٹ بنا کر گھر کے ہر بڑے یعنی ابا، اماں، ماموں، مامی کے پاس دھڑلے سے جاتے اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے "نانی اماں نے عیدی دے دی ہے"۔ اس کا مطلب یہ ہوتا کہ تم کس کھیت کی مولی ہو تم بھی عیدی نکالو۔ یوں عیدی وصولی مہم کے نتیجے میں دوپہر تک وہ مطلوبہ رقم جمع ہوجاتی کہ جسے باہر جا کر اپنی مرضی سے اڑایا جا سکے۔ اس دوران امی پیالوں میں شیر خرما ڈال کر چھوٹی چھوٹی ٹریز میں رکھتی جاتیں۔ پھر کہتیں "یہ ٹرے خالہ زہرہ کے ہاں دے آؤ اور پھر انور کے گھر دے آؤ اور یہ والی ٹرے باجی شہناز کے گھر جائے گی" اور ہم باری باری پھیرے لگاتے۔

ان پھیروں کے نتیجے میں ہر گھر سے ہمیں بھی جوابی عیدی ملتی اور جب تک محلے میں شیر خرما بانٹنے کا کام ختم ہوتا تب تک ہماری جیب عیدی سے اتنی بھر جاتی کہ اب پھٹی کہ جب پھٹی۔ اس کے بعد ہم گھر سے دوڑتے ہوئے نکلتے اور قریب ہی ایک میدان میں پہنچ کر دم لیتے جہاں کرکٹ چل رہی ہوتی وہیں ریڑھی بان اپنا میلہ ٹھیلہ سجائے کھڑے ہوتے۔ وہاں سے تب تک گھر واپسی نہ ہوتی جب تک آخری سکہ بھی خرچ نہ ہوجاتا۔

میٹھی املی، گھگھو گھوڑے، چرخ چوں چرخ چوں کرتا نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے آنے والا لکڑی کا گھماؤ جھولا کہ جس کے ہر چکر میں پیٹ میں میٹھی میٹھی اینٹھن اٹھتی۔ اور پھر چھرے والی بندوق سے پٹھان کے غبارے پھوڑنے کا کھیل۔ اور پھر بائسکوپ مین ڈبے کے نیچے لگی پھرکی گھماتا جاتا اور ڈبے کے اندر تصویر بدلتی جاتی۔ سترہ من کی دھوبن دیکھو، مکہ دیکھو مدینہ دیکھو، انگریجی میم دیکھو، اور اس کے بعد بندر کا تماشا دکھانے والا اور میدان کے آخری کونے پر ریچھ کا ناچ اور بچوں کی تالیاں۔ اور پھر رسیلے گولے گنڈے اور کھوئے والی بڑی قلفی۔ اس کے بعد ان اشیا سے داغدار کپڑوں کے ساتھ گھر واپسی۔

گردش آیام نے وہ دن بھی دکھائے پھر وہ عیدیں بھی آئیں جب گھر میں مدت بعد عید کے روز ہی اچھا کھانا پکا کرتا اور جس کی خاطر اماں کو عید کی تیاری واسطے اپنی قلیل تنخواہ سے بمشکل بچت کر کے جمع پونجی اسی دن کے لئے اٹھا رکھنا پڑتی۔

وہ عیدیں بھی بسر گئیں اور کئی عیدیں گزر گئیں اب تو عادتوں کی ورزش کرتا ہوں۔ صبح دم اٹھ کر نہا لیا، نئے کپڑے پہنے گو کہ کپڑے اب مہنگے دام خریدتا ہوں مگر وہ بچپن کی خوشی کہاں سے خریدوں؟ ، اپنے اکلوتے بیٹے کو انگلی سے لگایا اور قریب کی مسجد میں نماز عید ادا کر دی۔ باقی کا دن بجھے بجھے خیالات، جانے والوں کی یاد اور بسرے دلسوز لمحوں کو کھڑچتے بیت جاتا ہے۔ البتہ ایک روائیت ضرور برقرار ہے۔

بیٹا اور بیٹی ایک ایک کر کے میرے کمرے میں آتے ہیں۔ سلام کرتے ہیں اور میں انہیں پہلے سے بنا کر سرہانے رکھے لفافے میں سے کوئی ایک پکڑا دیتا ہوں۔ یہ ان کی عیدی ہوتی ہے۔ ہاں، مگر، ہائے افسوس کہ بچے کسی کرکٹ گراونڈ میں جا کر وہ سب کچھ نہیں دیکھ سکتے جو میں بچپن میں دیکھتا آیا۔ عید کے دن میں اداس رہا کرتا ہوں۔ عید کے دن وہ میرے اندر کا بچہ کہیں سے میرے سامنے آ کے کھڑا ہو جاتا ہے اور پھر خالی خالی آنکھوں سے بٹر بٹر چاروں طرف وہ سب ڈھونڈتا رہتا ہے جو اب کہیں نہیں۔

خیر محرومیوں کے وہ دن تو گئے

آج میلہ لگا ہے اسی شان سے

آج چاہوں تو اک اک دوکاں مول لوں

آج چاہوں تو سارا جہاں تول لوں

نارسائی کا اب جی میں دھڑکا کہاں

پر وہ چھوٹا سا ننھا سا لڑکا کہاں

Check Also

Thokar Kamyabi Ka Pehla Sabaq Hoti Hai

By Javed Ayaz Khan