Talibani Yalghar Aur Khushiyon Ki Bahar (2)
طالبانی یلغار اور خوشیوں کی بہار (2)
طالبان کی غیر متوقع غیر معمولی سبک رفتار اور اچانک یلغار اور پورے افغانستان پر حیرت انگیز قبضے جیسے اہم تغیر کے بارے میں ہمارےملک کے بعض حلقوں کی جانب سے جس بے وقت اور بے تکی مسرت کااظہار کیا گیا اس کے بارے میں احقر نے پچھلے کالم میں اپنے کچھ تحفظات کا اظہار کیا تھا اور طالبان کے قبضے کے ممکنہ منفی اثرات اور اچانک قبضے کے بارے کچھ شبہات کی جانب قارئین کی توجہ منعطف کرانے کی اپنی سی کوشش کی تھی آج میں کچھ دیگر شبہات کا ذکر کروں گا۔
طالبانی تاخت پر فخر انبساط کا مظاہرہ کرنے والے اپنے عزیز ہموطنوں سے میں پوچھتا ہوں کہ کیا انہوں نے کبھی یہ جاننے کی زحمت گوارا کی ہے کہ یہی افغان فوج تھی جو پچھلے دو سوا دو سال سے طالبان کے خلاف صف آراء تھی اور چند علاقے جو ایک عرصے سے طالبان کے زیر تسلط تھے ان کو چھوڑ کر کسی علاقے یا صوبے پر طالبان نے قبضہ کرنے کی جرات تک نہ کی تو آخر وہ کونسی غیبی قوت طالبان کے ہمرکاب ہوگئی کہ وہی فوج فقط چند دنوں میں طالبان کے سامنے ڈھیر ہوگئی؟ اگر تو یہ خدائی تائید و نصرت کا نتیجہ تھا تو میں یہ پوچھنے میں حق بجانب نہیں کہ ا س سے پہلے یہ تائید کیونکر کارگر ثابت نہ ہوئی؟
جب روسی افواج کی پسپائی کے بعد ڈاکٹر نجیب کی حکومت کو مجاہدین اور ان گوریلوں کے رحم و کرم پہ چھوڑا گیا جنہوں نے دنیا کی عظیم طاقت کو ناکوں چنے چبوائے تھے ان گوریلا مجاہدین کے خلاف ڈاکٹر نجیب نے صرف پچاس ہزار فوج کے ساتھ تین سال تک مزاحمت کی جبکہ افغان فوج جس کی پشت پر امریکہ جیسی طاقت ور قوت موجود تھی فقط چند دنوں میں ریت کی دیوار کے مانند بکھر گئی کیا یہ بعید ازعقل و قیاس نہیں؟ کیا یہ کیسی عالمی گیم کا شاخسانہ نہیں؟
چلیے اٹھائے گئے تمام سوالات اور عالمی سازش والی بات سے صرف نظر کیجئے لیکن مجھے تو حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے ملک کے باشندے خوشیوں کے شادیانے آخر کس لئے بجا رہے ہیں کیونکہ ہمارے ملک پر تو اس کے کچھ مثبت اثرات پڑنے والے نہیں کیا پولی چرخی جیل سے تحریک طالبان پاکستان کے نائب امیر ملا فقیر محمد سمیت سینکڑوں دہشت گرد جنہوں نے ہمارے ملک میں خون کی ہولی کھیلی ان کے فرار کی خبریں ہمارے ان خودساختہ دانشوروں کی سماعتوں سے نہیں ٹکرائی؟
ہمارے ہاں یہ ایک انتہائی گمراہ کن مفروضہ پایا جاتا ہے کہ افغان طالبان اچھے اور ہمارے خیر خواہ ہے جبکہ پاکستانی طالبان ہمارے دشمن ۔ یہ مفروضہ گھڑتے وقت وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان نے ریاست پالستان کے خلاف ہتھیار ہی اس بنیاد پر اٹھائے تھے کہ پاکستان نے افغان طالبان کے خلاف دشمن ملک یعنی امریکہ کی دستگیری کی اور نائن الیون میں افغان طالبان کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیا اب آپ خود سوچئے کہ کیا ایسے دو گروہوں جن میں تعاون و اعانت کا یہ عالم ہے کہ ایک گروہ دوسرے گروہ کے خلاف اقدام پر ایک ریاست کے خلاف بغاوت کرڈالے کیا ان میں کوئی تفریق کی جاسکتی ہے؟
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کا ہر جنگجوں افغان طالبان کے امیر کی بیعت لیتا ہے اور حالیہ طالبان کے قبضے کے بعد مفتی نور ولی کی قیادت میں ایک بار پھر ٹی ٹی پی منظم ہوگئی ہے اوربقول سلیم صافی صاحب ان سب نے با جماعت افغان طالبان کے خلیفہ ملا ہیبت اللہ کی بیعت لی ہے جبکہ سی این این پر پاکستان کے خلاف اعلان جنگ بھی کیا جاچکا ہے جو خدنخواستہ پاکستان میں دہشت گردی کی ہولناک لہر پر منتج ہوسکتا ہے جس کے کچھ مظاہر کراچی اور کوئٹہ میں بم دھماکوں کی صورت دیکھے جاسکتے ہیں۔
اگرچہ طالبان نے اپنی زمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے کی یقین دہائی کرائی ہے مگر پرسوں افغان سائیڈ سے پاکستانی سرحد پرحملے کے نتیجے میں دو جوانوں کی شہادت کابل ائیر پورٹ پر داعش کے وحشت ناک حملوں اور طالبان ترجمان کی جانب سے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کی مخالفت جیسے واقعات کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ ہم طالبانی فتح پر خوشی کے ڈونگرے برسائیں بلکہ سنجیدگی کے ساتھ اپنے ملک کے مجموعی مفاد کو مدنظر رکھ ملکی سلامتی کو درپیش ان ممکنہ خطرات سے بچاؤ کی کوئی تدبیر کریں بصورت دیگر وقت کے ادراک سے عاری مجموعی غفلت کا مظاہرہ کرنے والی قومیں صفحۂ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹ جاتی ہے یہ قدرت کا اٹل قانون ہے (ختم شد)۔