Sardar Ataullah Mengal
سردار عطاءاللہ مینگل
یہ بات کہ انسان اپنی فطرت میں خیر و شر کے داعیات رکھنے کے ساتھ ساتھ ان داعیات کے استعمال میں بھی خود مختار ہے ایک بدیہی حقیقت اور علم عمرانیات و سماجیات میں مبادیات کا درجہ پاچکی ہے اسی طرح یہ بھی ایک بڑی حقیقت ہے کہ انسان اپنی جان مال اور آبرو کے حوالے سے حساسیت کے منتہائے کمال پر فائز ہے۔
چنانچہ اسی فطری حساسیت اور شر کے جبلی داعیے کی موجودگی کا ادراک کرتے ہوئے انسان نے ریاست کے وجود کو گوارا کیا اور اپنے مال کا ایک مخصوص حصہ ٹیکسوں کی صورت میں ریاست کے لئے وقف کیا اور بدلے میں ریاست سے اپنی جان مال اور آبرو کے حفاظت کی ضمانت کا عمرانی معاہدہ کیا اب اگر کوئی ریاست شہری کے جان مال ابرو اور دوسرے بنیادی حقوق کی حفاظت میں ناکام ہوجائے تو درحقیقت ریاست اپنے وجود کاجواز کھو بیٹھتا ہے۔
یہ فلسفیانہ تمہید مجھے اس لئے باندھنی پڑھی کہ ہماری ریاست (جو اپنے قیام کے پہلے عشرے میں چند مطلق العنان اور فاشسٹوں کے ہاتھوں یرغمال ہوگئی) نے چند ایک مخصوص سوچ اورآمرانہ طرز جبر کے لئے مہمیز کا کام دینے والوں کے علاوہ ہر قومی اور علاقائی سیاسی اور سماجی رہنماکی زندگی کو جہنم بنانے میں کوئی کو کسر باقی نہ چھوڑی اور وہ قدآور رہنما اور مخلص لیڈرز جنہوں نے تشکیل پاکستان کے لئے تن من دھن کی قربانیاں دیں اور جو تعمیر پاکستان کا ایک جذبۂ دیرینہ رکھتے تھے ان کو حاشیوں میں دھکیل کر ابنالوقتوں موقع پرستوں اور ذاتی مفاد کو ملکی مفاد پر ترجیح دینے والوں کے لئے سیاسی بساط خالی کردی گئی۔
قائد اعظم کے دست راست جوگندرناتھ منڈل سندھ مسلم لیگ کے مخلص رہنما جی ایم سید ایوب کھوڑو افتخار حسین ممدوٹ بنگال میں سائیکل پر تحریک پاکستان کی منادی کرنے والے حسین شہید سہروردی اپنی جائداد بیچ کر تحریک پاکستان کی ترجمان سٹار انڈیا نامی اخبار نکالنے والے خواجہ ناظم الدین قرارداد پاکستان پیش کرنے والے شیر بنگال اے کے فضل حق بانئ پاکستان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح غوث بخش بزنجو فاطمہ جناح کے الیکشن مہم بلوچستان کےانچارچ خیر بخش مری اور حال ہی میں فوت ہونے والے بلوچستان کے پہلے منتخب وزیراعلی عطاءللہ مینگل سمیت جانے کتنے لوگ جن کے اہل و عیال مال ومتاع اور عزت و ابرو کے دامن کو اس ریاست کے نام نہاد کرتا دھرتاؤں نے تار تار کردیا اور جن کی زندگی صرف اس جرم کے پاداش میں اجیرن بنادی گئی کہ ان قدآور رہنماؤں نے ریاست کو جمہوری اصولوں پر چلانے اور ریاست سے اپنی شہریوں کے بنیادی حقوق کا مطالبہ کرکے ریاست اور شہری کے درمیان مضبوط بندھن قائم کرنے کی کوشش کی۔
یہ پوری تاریخ مجھے اسلئے دہرانی پڑ رہی ہے کہ حال ہی میں بلوچ سیاست کے ایک عظیم وضعدار اور باوقار رہنما عطاءاللہ مینگل داربقا کو کوچ کرگئے یہ وہ عظیم رہنما تھے جس کی منتخب حکومت کو بغیر کسی وجہ کے گرادیاگیا جس کے معصوم لخت جگر کو اغوا کرکے اور سر راہ گولیوں سے بھون کر رات کی تاریکی میں دفنادیاگیا جن کو من گھڑت قتل کیس میں اپنے بزرگ والد کے ساتھ حبس بے جا میں رکھا گیا جن پر غداری کے الزمات لگائے گئے جن کی دوسری منتخب حکومت کو بھی گرادیا گیا ان سب زیادتیوں کے باوجود اس نے وفاق پاکستان کی مضبوطی کی ہر چند کوششیں کی لیکن ریاست کے اصل کرتا دھرتا ان سے بیزار ہی رہے۔
اور پچھلے دنوں ان کے انتقال پر ہمارے مین سٹریم میڈیا نے ان کے سانحۂ ارتحال کی خبر کو حاشیوں میں جگہ دے کر یہ ثابت کردیا کہ اس ملک میں حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ خلوص محبت عوامی خدمت اور ملکی مفاد کو ترجیح دینے پر نہیں بلکہ چند مخصوص امرانہ اور جابرانہ قوتوں کی ہمنوائی پہ دیے جاتے ہیں ان کے انتقال کی خبر پر ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے جو بے اعتنائی بھرا رویہ اختیار کیا اس پر وجاہت مسعود صاحب نے کیا خوب فرمایا کہ "غیر شفاف ریاستوں میں صحافت نادیدہ طور پر سرکاری بیانیے کی حنا بندی سیکھ لیتی ہے" اور سرکاری بیانیہ اور ریاستی کھرتا دھرتا کون ہے وہ ہم سب کو معلوم ہے خدا عطاءاللہ مینگل کو غریق رحمت کرے اور ہمارے ریاستی بندوبست کے ارباب بست وکشاد میں یہ احساس پیدا کرے کہ شہری کی جان مال ابرو پر تاخت کرنے والی ریاستوں کو اس شہری سے ریاست زندہ باد کے نعرے لگانے کی توقع نہیں کرنی چاہئے۔