Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Farhan
  4. Sahil Adeem Ba Muqabla Aurat

Sahil Adeem Ba Muqabla Aurat

ساحل عدیم بمقابلہ عورت

ابتدائی آفرینش سے کہ جب سے حضرت انسان نے متمدن دنیا میں قدم رکھا ہے اور ریاستوں اور سلطنتوں کے دور میں داخل ہوا ہے قوموں اور ملکوں کی سطح پر انسانی سماج میں تقسیم در تقسیم کا چلن عام ہے۔ یہ باہمی تفاوت مذہبی نظریاتی نسلی لسانی یا کسی بھی اور گروہی بنیاد پر سماج کو تقسیم کرتی باہمی معاونت اور بھائی چارے کو آپسی دشمنیوں اور کدورتوں میں تبدیل کرکے کسی بھی قوم کی بربادی کا سامان کرتی ہے یہی تاریخ کا سبق اور قوموں کے عروج سے ازروئے زوال سفر کی بنیادی وجہ ہے۔

اب یوں نہیں کہ اس کا سدباب ممکن نہیں ایسا بھی ہوا ہے کہ قوم میں موجود درد دل رکھنے والے اقتضائے وقت کے ادراک سے بہرہ مند بصیرت افروز اہل دانش نے سماج کے تقسیم شدہ مختلف اکائیوں کے مابین وسیع تر ہوتی خلیج کو پُر کرکے منقسم معاشرے کو یک جاں بنایا ہے اور وہی لوگ جو باہمی اختلافات کو ذاتی دشمنیوں کا خلعت پہنا کر ایک دوسرے کے جان کے درپے تھے اب ایک دوسرے پر جان نچھاور کرنے کے لئے تیار تھے اور یوں متفرق سماج میں اتفاق و یگانگت کی فضا کا دور دورا ہوا۔

اس تمہید کا محرک ہمارے سماج میں اہل مذہب اور مذہب بیزار طبقے میں وہ باہمی چپقلش ہے جس نے اب نظری اور علمی اختلاف کے بجائے ذاتی انا اور ہٹ دھرمی کی سی شکل اختیار کرلی ہے اہل مذہب نام نہاد خبط عظمت سے نکلنے پر آمادہ نہیں جبکہ مذہب بیزار طبقے کو مذہب سے خدا واسطے کا بیر ہوچکا ہے۔ ہر دو فریق کسی بھی استدلال اور منطق سے بے بہرہ اپنے ہی دھن میں ایک دوسرے کے ساتھ گھتم گتھا اور دست و گریباں ہے۔ آپ کو اگر ان کے مابین ہوئے مباحث سننے کا اتفاق ہوں تو آپ حیران ہو جائینگے کہ ایک بات بھی ایسی نہیں جس کا عقل سے یا دلیل سے کوئی علاقہ ہو۔

اب کل ہی ایک ٹی وی پروگرام میں اپنے تئیں عقل کل اور مذہبی علوم میں بزعم خود ید طولی رکھنے والے ساحل عدیم نامی ایک صاحب نے لائیو شو میں خواتین کو جاہل کہا جس پر ناظرین میں بیٹھی ایک خاتون سیخ پا ہوئی اور ان صاحب سے معافی کا مطالبہ کردیا۔ کورا جواب ملنے پر خاتون نے لگے ہاتھوں ملفوف لفظوں میں مذہب پر ہاتھ صاف کیے اسی اثنا میں اپنی بھڑکوں اور بدتمیزی کے لئے مشہور ایک نام نہاد لکھاری نے اونچی آواز میں بھڑک ماری اور پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ (باقی آپ سمجھدار ہیں)۔

اب ذرا سوچیے کہ جس مذہب کا بنیادی مقصد ہی اخلاقی تطہیر ہوں انسان کو تہذیب و شائستگی اور اخلاقی محاسن کا مجسم نمونہ بنانا جس مذہب کا مقصود اولین ہوں جو اپنے پیغمبر کو منکرین حق کے ساتھ مجادلے تک کی صورت میں شائستگی اور مبنی بر تہذیب طرز تخاطب اختیار کرنے کا درس دیتا ہوں اس مذہب کا پیروکار آخر کیسے سر بازار کسی کو جاہل کہہ سکتا ہے؟ کیا ہم رواداری برداشت اور امن و اشتی سے عبارت اپنے مذہب کے خوشنما تشخص کی تخریب کا باعث تو نہیں بن رہے یہ سوچنے کی بات ہے کہ ہمارا مذہب تو سر تا سر امن محبت بھائی چارے اور برادشت کا دوسرا نام ہے بطور دلیل ملاحظہ ہوں سیرت آقائے نامدار ﷺ۔۔

Check Also

Taunsa Barrage

By Zafar Iqbal Wattoo