Maskharon Ka Raj
مسخروں کا راج
اگرچہ یہ ملک اپنے قیام کے دن سے ہی مسلسل عدم استحکام کا شکار ہے اگرچہ اس ملک کی بنیادیں بے انصافی ظلم جبر حق تلفی اور وحشت پر قائم و دائم ہے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس ملک میں عوام نامی شے کو کیڑوں مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں ملی اگرچہ یہ ملک یہ ریاست اور اس کے کرتا دھرتا تیشۂ زر ہاتھ میں لیے چند بد معاشوں اور اجاراہ داروں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں اگرچہ اپنے جنم دن سے ہی اس ملک کے ارباب دست وکشاد اور سنگھاسن اقتدار پر براجمان ہوئے نام نہاد عوام کے منتخب نمائندوں کا فرض اولین عوام کی چمڑی ادھیڑ کر دولت کمانے والے چند خاندانوں کے کالی دھن کی حفاظت ہے اگرچہ یہ ملک اپنے آغاز ہی سے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی ایک بہترین اور موزوں مثال ہے۔
لیکن پھر بھی پہلے آئی حکومتوں بلکہ فوجی ڈکٹیٹروں نے اگرچہ اندر خانے عوام کا خون چوسا لیکن پھر بھی جہاں عوام کو کیڑے مکوڑوں جتنی اہمیت ہی سہی مگر کچھ وقعت دی وہاں حکومت چلانے کے معاملے میں بھی کچھ سنجیدگی دکھائی اور کاروبار سلطنت چلانے کا کچھ شد بد بھی انہیں حاصل تھا معیشت معاشرت اور انتظام حکومت جیسے تیسے چل رہے تھے۔
لیکن کرکٹ کی دنیا کے شہسوار نے تو اس ملک اور امور ریاست کو ایک مذاق بنا دیا ہے اتنی غیر سنجیدگی نااہلی نالائقی کی مجھے تو وہ لطیفہ نما قصہ یاد آرہا ہے کہ جب ایک سلطنت کے بادشاہ کے فوت ہوجانے کے بعد فیصلہ ہوا کہ کل شہر میں سب سے پہلے داخل ہونے والے شخص کو باشاہ بنایاجائے گا تو شومئی قسمت کہ ایک فقیر بھوکا ننگا شہر میں داخل ہوا جسے تخت پر بٹھایا گیا اب ظاہر ہے ایک ملنگ ٹائپ شخص کو اقتدار کی نزاکتوں اور باریکیوں کی کیا خبر لہذا وہ مسلسل حلوہ پکانے اور کھانے کی فرمائش کرتا رہا۔
اتنے میں ہمسایہ ملک کے فوج نے یلغار کردی تو سپہ سالار نے کہا جناب دشمن فوجوں نے گھیرا تنگ کرکے ناطقہ بند کردیاآپ فوج کو کوچ کرنے اور لڑائے کا حکم دے لیکن جناب کو حلوا کھانے کا شوق چڑھا تھا لہذا وہ مسلسل حلوہ پکانے کی فرمائش کرتا رہا اور محل میں حلوہ پکانے کا شغل چل رہا تھا جبکہ دشمن فوج نے ملک پر قبضہ کرلیا چنانچہ فقیر نے اپنا کشکول اور پوٹلی اٹھائی اور اپنی پرانی خلعت پہن کر کہا کہ بھائی ہم تو حلوہ کھانے آئے تھے جو خوب پیٹ بھر کھائی اب تم جانو اور تمہارا دشمن اور وہ چلتا بنا۔
یہی حال ہمارے موجودہ حکمرانوں کا ہے جن کا عقل و فہم اور شعور و ادراک سے گزر بھی نہیں ہوا اپنے تئیں عقل کل کرکٹ دنیا کے سٹار حکمران کی خود کی شعوری استعداد کا یہ حال کہ کبھی جرمنی جاپان کی سرحد ملاتے ہیں کبھی مغلوں کو ترک قرار دیکر ان کے غلام بننے کو فخریہ انداز میں پیش کرتے ہیں کبھی قازقستان کی تاریخ پر وہاں کے مقامی باشندوں سے بھی زیادہ دسترس رکھنے کی بھڑک مارتے ہیں کبھی حقانی خاندان کو پختون قبیلہ ڈکلئیر کرتے ہیں کبھی ملک میں آٹھ موسموں کا انکشاف کرتے ہیں اور کبھی حضرت عیسی کا ذکر تاریخ سے غائب پاتے ہیں (پتہ نہیں ہمارے یہ عزیز ازجان حکمران کونسی تاریخ پڑھتے ہیں)لیکن اس پر مستزاد وزیر و مشیر بھی ایسے چن چن کے مسخرے تلاش کیے ہیں کہ نظر انتخاب کی توصیف نہ کرنا سخت زیادتی ہوگی۔
ایسے ایسے وزیر مشیر اور کرائے کے ترجمان کہ جن کے عقل و فہم پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے یعنی آپ غیرسنجیدگی دیکھے کہ خود بارہ تیرہ قسم کے کھانوں سے مزین دسترخوان کے سامنے پاؤں پھیلائے بیٹھا ایک انتہائی بے ڈھنگ وزیر علی امین گنڈہ پور صاحب فرمارہے کہ مہنگائی سے کسانوں کو فائدہ پہنچا ہے اگر آلو سستا ملتا تو کسانوں کو نقصان ہوتا جبکہ ایک بیان میں ان کی رگ بصیرت کچھ اس انداز پھڑکی کہ موصوف عوام کو تجویز دینے لگے کہ وہ دس نوالوں کے بجائے نو نوالے کھائے تو کونسی قیامت آجانی ہے یقینا قیامت تو نہیں آنی لیکن جب آئے گی تو جو لوگ آپ کی اس نااہلی کی وجہ سے بھوکوں مررہے آپ کو ان کا حساب دینا ہوگا۔
چلوں وزیر مشیر تو ہے ہی چمچے ان کو تو تنخواہ ہی بڑھکیں اور ڈھکوسلے مارنے کی ملتی ہے لیکن اس پر کیا کہا جائے کہ سٹیٹ بینک کی گورنری جیسے سنجیدہ ترین اور حساس ترین منصب پر فائز شخص بھی وزیروں اور مشیروں کی طرح کرائے کا ترجمان بن کر ایک ایسے بے پرکی اڑایے جس کا معاشیات تو کیا عقلیت سے بھی دور کا تعلق نہیں موصوف نےفرمایا کہ روپے کی قدر میں گراوٹ سےبیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو فائدہ پہنچتا ہے یعنی پاکستان کے تین کروڑ پچاس لاکھ خاندانوں میں سے صرف پچاس لاکھ خاندانوں کو فائدہ پہنچے اور باقی تین کروڑ جائے بھاڑ میں وہ بھوکوں مرے خودکشیاں کرے بیٹیاں بھیج کر گھر کا گزر بسر کرے۔
گورنر کو کیا ان کا تو تعلق ہی نہیں اندرونی ملک بسنے والے پاکستانیوں کے ساتھ جب تک گورنر ہے سو ہی جب نہ ہوں تو بریف کیس بغل میں لیے بیرون ملک جابسے گا اب انہیں کیا پڑی ہے کہ وہ پاکستان کے عوام کا سوچے، پھر وہی بات کہ جب تک ہم زندہ باد مردہ باد کے نعرلے لگاتے اور شخصی چکا چوند میں گرفتار ہوکر اپنی عقلی اور شعوری استعداد میں پختگی نہیں لائیں گے اسی طرح کے مسخرے ہم پر حکمرانی کرتے رہے گے لہذا جمع خاطر رکھیں مسخروں کا اور ہمارا سفر اتنا جلد ختم ہونے والا نہیں اس مسخرے کے بعد ایک اور مسخرے کا انتظار کیجئے۔