1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Farhan/
  4. Hukumat Ki 3 Sala Karkardagi

Hukumat Ki 3 Sala Karkardagi

حکومت کی تین سالہ کارکردگی

روز اول سے ملک کی مخدوش تر سیاسی صورتحال عدم استحکام سے دوچار مضمحل بنیادوں پر قائم معاشی حالت زار اور ہر قسم کے قانونی اور اخلاقی ضابطوں سے یکسر آزاد ہمارا سماجی نظام ہماری کن اجتماعی کوتاہیوں کمیوں اور کج فہمیوں کا شاخسانہ ہے؟ یہ سوال ہر طبقے کی بحث و تمحیص کا محور و مرکز چلا آرہا ہے اس بارے ہمارے اہل دانش کئی مجلدات پر مبنی ضخیم کتابیں لکھ چکے ہیں جنہوں نے اپنی علمی استعداد کے مطابق ملک کے اس مجموعی مرتعش صورتحال کے محرکات و عوامل کا ہمہ پہلو جائزہ لیا ہے جسکے بارے میں تفصیل کے ساتھ پھر کبھی لکھوں گا۔

لیکن آج ملکی تنزلی کے منجملہ محرکات میں سے صرف ایک محرک کا ذکر کروں گا جونہ صرف میرے اس کالم کے نفس مضمون سے میل کھاتا ہے بلکہ میری دانست میں ملکی پسماندگی کا سب سے بڑا محرک بھی ہے اور وہ ہے ہمارا فکری نظری تخلیقی اور شعوری انحطاط اور بانجھ پن۔

میں اس کے بارے میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ہماری فکری اور شعوری سطح اتنی گری ہوئی ہے کہ مستقبل بینی اور دور موجود کے واقعاتی اور معروضی حقیقتوں کے ادراک سے ہمارا گزر تک نہیں ہوا اور میری دانست میں ہماری اس فکری اور ذہنی انحطاط کی سب سے بڑی وجہ ہماری تقلید ذدہ ذہنیت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا شخصی رومان ہے جس کی وجہ سے ہم کسی بھی سیاسی یا مذہبی بہروپیے کے جھوٹے وعدوں اور سہانے خوابوں کے فریبی جال کے پرپیچ خموں میں بغیر سوچے سمجھے پھنس جاتے ہیں اور پھر قوم اپنے اجتماعی فیصلوں میں بیوقوفی اور کند فہمی کی وہ اعلی مثالیں قائم کرلیتے ہیں کہ جس پر عقل ماتم ہی کرسکتی ہے۔

اس کی سب سے بہترین مثال ہماری قوم ہے جس نے موجودہ گرامئ قدر وزیر اعظم جناب عمران خان کے جھوٹے وعدوں بے بنیاد بھڑکوں اور فہم و ادراک سے عاری ڈھکوسلوں پر آنکھیں بند کرکے یقین کرلیا جس کا نتیجہ ملکی معیشت معاشرت اور سیاست کے ستیاناس کی صورت میں نکلا حکومت میں آنے سے پہلے ہمارے موجودہ وزیراعظم نے عوام کو وہ سہانے خواب دکھائے اور اپنے جلسوں میں اپنی سحر انگیز اور مسحورکن تقریروں سے ایک ایسا طلسماتی ماحول بنایا جس میں عوام تخیلاتی گھوڑوں پر سوار آسودگی خوشحالی میرٹ اور امن و اشتی کی دلنواز فضاؤں میں گھومتے کہ ہمارے وزیراعظم صاحب خطابت کے ساتھ ساتھ افسانہ نگاری میں بھی ید طولی رکھتے ہیں۔

ایک کروڑ نوکریاں پچاس لاکھ گھر دو ارب ڈالر کی لوٹی دولت کی برآمدگی میرٹ کا بول بالا قانون کی حکمرانی انصاف کی فراوانی پروٹوکول کا خاتمہ وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے کا عہد صمیم صحت کا بہترین نظام اقتدار کے سنگھاسن پر دس سال سے قابض چوروں اچکوں سے پائی پائی وصول کرکے ان کو نشان عبرت بنانے کاعزم مہنگائی کرپشن اور ذخیرہ اندوزی سے مکمل نجات سمیت سینکڑوں وعدے کیے گئے لیکن جیسے ہی ہمارا یہ خیر خواہ لیڈر تخت اقتدار پر براجمان ہوا تو یوں لگا جیسے اقتدار کی راہداریوں میں رقصاں عیش و سرور اور رعونت و تکبر نے اس مخلص لیڈر کا حافظہ چین لیا اور پھر عوام کے سنہرے خوابوں کا وہ بد نما تعبیر نکلا کہ علم الرویا کی تاریخ میں شائد ہی ایسا بدصورت خواب کیسی نے دیکھا ہوں۔

اس افتاد نما حکومت کے تین سالہ دور مصائب کے خاتمے پر کنونشن سنٹر میں ایک ذی شان تقریب کا انعقاد کیا گیا اور عمران خان نے پھر اسی روایتی تیقن لہجے کی ٹھاٹ باٹ اور الفاظ کے ہیر پھیر سے اپنے ان دیکھے اور نامعلوم کارنامے گنوائے حکومت نے ان تین سالہ دور میں کیا کارہائے نمایاں سرانجام دیے ان کا ذکر اگلے بلاگ میں۔

Check Also

Hum Ye Kitab Kyun Parhen?

By Rauf Klasra