Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Farhan
  4. Hukumat Ki 3 Sala Karkardagi (3)

Hukumat Ki 3 Sala Karkardagi (3)

حکومت کی تین سالہ کارکردگی(3)

اقتدار پر براجمان ہوتے ہی عمران خان نے ایک کمیشن بنایا جس کے ذمے فرض شناس حکومت نے یہ ذمہ داری لگائی کہ وہ کھوج لگائے کہ ملک کا مجموعی بیرونی و اندرونی قرضہ جو دوہزار آٹھ میں چھ ہزار ارب روپے تھا آخر وہ کیسے دوہزار اٹھارہ تک چوبیس ہزار ارب کا ہندسہ بھی عبور کرگیا عمران خان صاحب نے بڑے درد دل کے ساتھ قرضوں میں اس بے پناہ اضافے کا نوٹس لیا اور پھر وہی ہوا جو ہر نوٹس لینے کے بعد ہوتا ہے کمیشن نے کیا تحقیقات کرنا تھی الٹا اس حکومت نے قرضوں کی اخیر ہی کردی نون لیگ کے پانچ سالوں میں ساڑھے دس ہزار ارب روپے قرضوں کے مقابلے میں حکومت عمرانی نے صرف تین سالوں میں آٹھ ہزار ارب روپے کا قرضہ لیا۔

حکومت کے اپنے معاشی سرویے کے مطابق ملک کا مجموعی قرضہ جو دوہزار اٹھارہ میں 24 ہزار 953ارب روپے تھا وہ اب تین سال گزرنے کے بعد 38 ہزار 6 ارب روپے ہوچکا ہے اور مجموعی قومی معیشت میں قرضوں کا تناسب (dept to gdp ratio) جو دو ہزار اٹھارہ میں 72.1 فیصد تھا اب بڑھ کر 79.7 فیصد ہوگیا ہے کیا اب عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب نہیں کہ آپ تو "قرضوں کا پتہ چلانے چلے تھے کمیشن بنانے" اب خود ہی قرضوں کی بھرمار کردی اب اس کی ذمہ داری کس کی ہے کیا اب بھی بندہ ایماندار ہے؟

اپنی تین سالہ کارکردگی بیان کرتے وقت اس حکومت نے سب سے زیادہ کریڈٹ محصولات یعنی ٹیکس کولیکشن کے حوالے سے لیا اور یہ تاثر دیا کہ تین سالوں میں چار ہزار سات سو ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کرکے گویا ہم نے کوئی بڑا تیر مارلیا اب ذرا سنئے دو ہزار آٹھ میں حکومت نے 1008ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا پیپلز پارٹی حکومت کے تیسرے سال یعنی دو ہزار گیارہ میں 1558.2 ارب روپے ٹیکس کولیکشن ہوئی یعنی صرف تین سال میں پچاس فیصد اضافہ ہوا نون لیگ کے تیسرے سال ٹیکس کولیکشن 3112.7 ارب روپے ہوئی یعنی پھرتین سالوں میں پچاس فیصد اضافہ ہوا۔

اب ذرا دل تھام کے سنئیے کہ وہ عمران خان جو ایک سال میں آٹھ ہزار ارب روپے کے ٹیکسز جمع کرنے کے دعوے کرتا تھا اس کی حکومت آنے کے بعد تاریخ میں پہلی بار 2019میں ٹیکس کولیکشن پچھلے سال یعنی دوہزار اٹھارہ کے 3843ارب روپے کے مقابلے میں 3828ارب یعنی تقریبا پندرہ ارب روپے کم ہوئی اور اب تین سال گزرنے کے بعد ٹیکس کولیکشن میں پی پی پی اور نون لیگ کے پہلے تین سالوں کے پچاس فیصد اضافے کے مقابلےمیں صرف اور صرف بیس فیصد اضافہ ہوا ہے کیا یہ سوال کرنا ہمارا حق نہیں کہ اگر بندہ ایماندار ہے تو نون لیگ اور پی پی پی جیسے چور اچکوں کے مقابلے میں عوام اس حکومت کو ٹیکس کیوں زیادہ نہیں دے رہی؟ کیا فی الواقع بندہ ایماندار ہے؟

یہ بھی سنتے جائے کہ اس حکومت میں پہلی حکومتوں کے مقابلے میں ڈائریکٹ ٹیکسز کے مقابلے میں ان ڈائریکٹ ٹیکسز میں اضافہ ہوا ان ڈائریکٹ ٹیکسز وہ ٹیکسز ہوتے ہیں جو کسٹم ڈیوٹی یا جنرل سیلز ٹیکس (GST)کی صورتوں میں غریب عوام کی جیبوں سے نکالے جاتے ہیں جبکہ ڈائریکٹ ٹیکس صاحب ثروت بڑے بڑے سرمایہ داروں اور کارخانوں سے انکم ٹیکس کی شکل میں وصول ہوتا ہے۔

غریب عوام کو ریلیف دینے کے نام پر حکومت میں آنے والی حکومت عمرانی کے تین سالہ دور ابتلاء میں ان ڈائریکٹ ٹیکسز میں پچھلی حکومت کے 62 فیصد کے مقابلے میں 65 فیصد اضافہ ہوا، لیکن ہمارے کچھ دوستوں کو اب بھی اصرار ہے کہ بندہ ایماندار ہے پتہ نہیں کیسے؟ ایمانداری کے معیارات بدل گئے ہونگے شاید کہ تبدیلی کی سونامی کا دور دوراں ہے ہر چیز کا بدلنا خارج ازامکان نہیں باقی نالائقیوں اور غفلتوں کا ذکر اگلے بلاگ میں۔

Check Also

Netherlands

By Zaigham Qadeer