Chubhta Sawal Aur Dr Zakir Naik Ka Jawab
چبھتا سوال اور ڈاکٹر ذاکر نائیک کا جواب
سماج میں رواج پانے والے متشدد رویے اس وقت خوب پروان چڑھتے ہیں جب کوئی ایسا انسان جس کی سماج میں ایک فیصلہ کن حثیت ہوں جن سے ایک بڑا طبقہ متاثر ہو، جن کی بات کو قابل اعتنا سمجھا جاتا ہو، جن کو علوم دنیوی یا مذہبی میں استنادی حیثیت حاصل ہو، جب محولا بالا صفات کا حامل شخص سرراہ کسی کو ٹوکے زجر و توبیخ کا رویہ اختیار کرے سوال کرنے پر کسی کی حوصلہ شکنی کرے تو یہ طرزِ عمل متشدد جذبات کو جلا بخشتا ہے پھر مذہب جیسا سنجیدگی کا متقاضی موضوع بھی جذبات کی برانگیختگی کی نظر ہو جاتا ہے۔
اس تمہید کا محرک پاکستانی حکومت کی دعوت پر تشریف لائے مذہب اسلام کے معروف سکالر اور تقابل ادیان کے باب میں اپنی غیر معمولی تعمق نظری کے لئے مشہور و معروف جناب ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کا ایک لڑکی کے سوال کے جواب میں وہ رویہ ہے جس نے سوشل میڈیا پر ایک ہنگام برپا کردیا ہے۔ ان محترمہ نے ڈاکٹر صاحب سے یہ استفسار کیا کہ ہمارے سماج میں بنیادی اسلامی احکامات کی خوب اہتمام کے ساتھ بجا آوری کے باوجود کم عمر بچوں کے ساتھ جنسی بے رواہ روی کا چلن عام ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟
اس پر ڈاکٹر صاحب نے ان سے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی معاشرہ اسلامی تعلیمات پر سختی سے کار بند ہونے کے باوجود اس فعل قبیح کا مرتکب ہورہا ہو اور ان سے کہا کہ آپ کا اس معاشرے کو اسلامی کہنا اور پھر اسی سماج پر یہ الزام دھرنا کہ اس سماج میں اس عمل شنیع کا ارتکاب ہو رہا ہو یہ کھلا تضاد ہے یعنی سوال ہی میں تضاد ہے۔ جب وہ محترمہ اپنے سوال کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتی ہے تو ڈاکٹر صاحب کی جانب سے ان محترمہ کو باقاعدہ ٹوکا جاتا ہے اور طرز تکلم میں ذرا سختی اور تُرشی در آتی ہے جس سے سائل لڑکی سہم جاتی ہے اور یوں یہ معاملہ سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث کا موضوع بن جاتا ہے۔
مجھے یہ ماننے میں کوئی تامل نہیں کہ اس واقعے کو لیکر ڈاکٹر صاحب کی شخصیت اور علمی وجاہت پر بازاری تبصرے کرنا ہرگز صائب رویہ نہیں، جو لوگ اس واقعے کی بنیاد پر ڈاکٹر صاحب پر تہذیب و تمیز کے دائرے سے نکل کر تضحیک آمیز تنقید کررہے ہیں ان کو خدا کے خوف سے ڈرنا چاہیے اور ان سے گزارش ہے کہ اگر آپکو ڈاکٹر صاحب کی شخصیت اور اسلام کے لئے ان کی گرانقدر خدمات سے خدا واسطے کا بیر ہو تو پھر تو آپ جو چاہے کریں۔ جتنا گر سکیں گریں لیکن اگر معاملہ الٹ ہوں تو پھر آپ کو اس قبیح رویے پر نظر ثانی کرنی چاہیے کسی کو یہ زیبا نہیں کہ وہ الحاد و دہریت کے خلاف برسرپیکار اسلام کے عظیم سکالر پر کسی ایک واقعے کو لیکر یوں کیچڑ اچھالے۔
ڈاکٹر صاحب سے بھی بصد ادب و احترام اور ان کی خدمات کے دلی اعتراف کے ساتھ دست بستہ عرض ہے کہ ان کو بھی کسی سوال پر یوں برانگیختہ نہیں ہونا چاہیے تھا اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب اس دین کے داعی ہیں جو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ لوگوں کو دین کی طرف حکمت اچھی نصیحت اور شائستگی کے ساتھ بلائے اور جب کبھی بحث یا مجادلے تک کی صورتحال پیدا ہوجائے تو پھر بھی شائستگی اور تہذیب کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ دے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کا یہ کہنا کہ محترمہ کے سوال میں تضاد ہے نہایت ادب کے ساتھ یہ بات میری دانست میں ٹھیک نہیں تضاد سوال میں نہیں بلکہ سماجی رویوں میں ہے ڈاکٹر صاحب نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ تو عرض یہ ہے کہ یہ ہوسکتا نہیں بلکہ ہوا ہے اور ہورہا ہے سوال تو اصل میں یہ ہے کہ ایک طرف اسلام کی ٹھیکیداری کا دم بھرنے والا سماج اپنی خلوتوں میں ایسی غلاظتوں کا مرتکب ہورہا ہے جس کو شیطان بھی دیکھ کر شرما جائے۔ یہ ایک امر واقعہ کا بیان ہے ہمارے ہاں یہ سب کچھ ہورہا ہے اور اسی تضاد کی طرف محترمہ نے اشارہ کیا اور اسی تضاد کو سمجھنے کی محترمہ متمنی تھی۔
ڈاکٹر صاحب شائستگی کے ساتھ جواب دیتے اور یہ فرماتے کہ ایسا سماج ہرگز اسلامی نہیں بلکہ یہ صرف اسلام کا ظاہری لبادہ ہے جس کو اوڑھ کر یہ لوگ اس قدر گرے ہوئے افعال قبیحہ کا مرتکب ہورہے ہیں۔ ان کو خدا سے ڈرنا چاہیے دراصل یہ بہروپیے ہی اسلام جیسے پاکیزہ دین پر ایک بدنما دھبہ ہے لیکن صد افسوس ڈاکٹر صاحب نے سماج کو سدھارنے کے واسطے نصیحت کرنے کے بجائے اس محترمہ کو ہی جھڑک دیا اور سوال پر معافی تک مانگنے کا مطالبہ کیا یوں لگا جیسے سماجی برائی کی نشاندہی ایک جرم ہو، جس کا فقط ذکر کرنے پر بھی بندے کو معافی مانگنی پڑجائے معافی اس لڑکی کو نہیں بلکہ اس سماج کو مانگنی چاہئے جواپنے نفسانی خواہشات سے مغلوب ہوکر اسلامی احکامات کے حصے بخرے کررہے ہیں اور اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔