Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Farhan
  4. Asaib Ka Saya, Mulki Tanzuli Aur Bartanvi Intikhabat

Asaib Ka Saya, Mulki Tanzuli Aur Bartanvi Intikhabat

آسیب کا سایہ، ملکی تنزلی اور برطانوی انتخابات‎

ہر دم تازہ دم اور روز افزوں نت نئے افکار سے مہمیز پاتا ارتقائی شاہراہ پر روبہ سفر اجتماعی انسانی دانش کا اس بات پر کامل اتفاق ہوچکا ہے کہ کسی بھی ریاستی سماجی اور اجتماعی بندو بست کو چلانے کا بہترین اور آزمودہ نظام جمہوریت ہی ہے یہی انسانی دانش کی صدیوں پر محیط شعوری ارتقاء اور عہد گزشتہ کے ہزار ہا دورانیے پر محیط ریاستی تاریخ کے عملی تجربے کا حاصل ہے۔

اگر آپ انسانی تاریخ کا بالاختصار مطالعہ کرے تو آپ کو ہر ہر صفحہ انسانی خون سے رنگ آلود نظر آئینگا جہاں کسی بھی زمین کے ایک ٹکڑے کے حصول کے خاطر یا بادشاہ کے ذاتی انا کی تسکین کے لئے انسانی آبادیاں تہہ تیغ ہوئی اور کروڑوں یا تو مارے گئے یا غلام بنا لئے گئے۔ یہ کشت و خون جاری رہا یہاں تک کہ انسانی شعور جمہوریت کی روشنی سے منور ہوا اور یوں ایک دوسرے کو برداشت کرنے ایک دوسرے کی رائے کو تکریم دینے اور باہمی تعاون و معاونت جیسے بلند اخلاقی محاسن کو رواج ملا امن و آشتی کو فی زمانہ پنپنے کا موقع ملا اور نسل انسانی کو کچھ سکون کی گھڑیاں میسر آئی۔

آپ دورِ موجود میں دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی خوشحالی اور آسودگی کے پس منظر میں کارفرما وجوہات کا بنظرِ غائر جائزہ لیجئے آپ ایک وجہ مشترک پائینگے اور وہ ہے جہموری رویوں کا چل چلاؤ اور جمہوری اداروں کی مضبوطی اور یہی وہ ماحول ہے جس میں سماجی انصاف مساوات اور دولت کی منصفانہ تقسیم عمل میں آتی ہے جو اپنے منطقی نتیجے کے طور پر عوامی آسودگی کا باعث بنتا ہے۔ اس کے برعکس وہ ممالک جہاں عوام کا جینا محال ہے دو وقت کی روٹی کا حصول جہاں ایک جان جوکھوں کا کام ہے جہاں آدھی سے زیادہ آبادی خطِ غربت کے آس پاس رینگ رہی ہے۔

ان ممالک کی اس پیہم خجل خواری کی یہی وجہ ہے کہ وہاں جمہوریت کا گلا گھونٹ کر چند ادارے یا افراد طاقت کا مرکز و محور بن کر عوام پر اپنی من مرضی کی حکومت کرتے ہیں اور عوام کا خوب بھرکس نکالتے ہیں۔ وجہ اس کی واضح ہے کہ جمہوریت جہاں عوام اپنی ووٹ سے کسی بھی ناہنجار حکمران کو ایوانِ اقتدار سے پرے پھینک دے جبکہ اس کے برعکس ہمارے جیسے ممالک میں تو عوام کی یہ حیثیت ہی نہیں ہوتی کہ وہ اپنے حق کے لئے آواز بلند کرے ان کی تو اولین ذمہ داری جہاں پناہ کے ہر جائز و ناجائز فرمان کی بجا آوری ہوتی ہے اور یوں عوام کی تنزلی کا سفر پورے آب و تاب سے جاری رہتا یے۔

اس پوری بحث کو سمجھنے کے لئے حال ہی میں ہوئے ہمارے جیسے پسماندہ ملک اور برطانیہ میں ہوئے انتخابات کا موازانہ قارئین کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ ایک جمہوری اور نیم جمہوری ریاست میں وہ کیا بنیادی فرق ہے جو دونوں ملکوں کے عوام کی طرز زندگی میں واضح دکھائی دے رہا ہے۔

برطانیہ میں ایک طویل عرصے سے دو پارٹیوں میں انتخابی دنگل سجتا ہے اور عوام انہی دو پارٹیز کو ملک کی سربراہی کے لئے 1922 سے اب تک چنتے آرہے ہیں پچھے پندرہ سال یعنی سن دو ہزار دس سے کنزرویٹو پارٹی کی طویل حکومت کے بعد اب عوام نے لیبر پارٹی کو منتخب کیا اور 650 کے ایوان میں لیبر پارٹی کو اب تک کے نتائج کے مطابق 409 نشستیں حاصل ہوئی ہے، جبکہ حکمران جماعت صرف 119 سیٹیوں پر کامیاب قرارپائی ہے۔ اب ذرا غور کیجئے کہ 1922 سے ابتک وہاں کسی نام نہاد اسٹبلشمنٹ کو یہ جرات نہ ہوئی کہ وہ عوامی اختیار میں دست درازی کرکے خوامخواہ کسی تیسری قوت کو لانچ کردے اور بطور تاویل یہ فرمان جاری ہوں کہ بس اب ان دو پارٹیوں سے عوام اکتا چکی ہے لہذا تیسرے بندے کو میدان میں اتار دوں چاہے وہ نیم پاگل ہی کیوں نہ ہوں۔

وہاں اس پورے عرصے میں کسی فوجی طالع آزما کو سیاسی بساط لپیٹنے اور کسی بھی سویلین اختیار میں ٹانگ اڑانے کی ہمت نہ ہوئی اور اسی جمہوری رویوں کا ایک پرتو آپ نے دیکھا کہ وہاں کی شکست خوردہ حکمران پارٹی نے ہرگز دھاندلی کا رونا نہیں رویا بلکہ شکست تسلیم کرکے استعفی دیکر چلے گئے جبکہ نئی پارٹی کے منتخب وزیراعظم نے اپوزیشن پر رعب جمانے ان پر ملک دشمنی کا الزام لگانے اور ان کو جیلوں میں ٹھونسنے جیسی بھڑکیں مارنے کے بجائے ان کی تعریف کی اور نیک خواہشات کے اظہار کے ساتھ سریر آئے اقتدار پر براجمان ہوئے۔

جبکہ ہمارے ہاں جو ہوا سے دہرانے کی ہر گز ضرورت نہیں کہ ہر دم تازہ دم میڈیا کے توسط سے ہر پاکستانی بخوب واقف ہے کہ کیا ہوا اور کیا نہیں یہاں مجھے منیر نیازی کا وہ شعر یاد آرہا ہے کہ ملکی تنزلی پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے ایک شعر میں یوں گویا ہیں۔۔

منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

تو دست بستہ عرض ہے کہ یہ آسیب ہی کا سایہ ہے جو اس ملک کی ترقی می حائل ہے اور آسیب یہاں کی وہ نام نہاد اسٹبلشمنٹ ہے جس نے کبھی بھی اس ملک میں جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا لہذا ان تمام مسائل کا حل مضبوط جمہوریت ہی میں مضمر ہے۔۔

Check Also

Taunsa Barrage

By Zafar Iqbal Wattoo