Wednesday, 16 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sohaib Rumi
  4. Netflix, Streaming Ya School?

Netflix, Streaming Ya School?

نیٹ فلکس، سٹریمنگ یا اسکول؟

کہانیاں، جو کبھی بزرگوں کی زبانی بچوں کے ذہنوں میں گونجتی تھیں، آج اسکرینوں کے پردے پر اُتر آئی ہیں۔ نیٹ فلکس نے قصہ گوئی کی اس قدیم روایت کو اک نیا موڑ دیا ہے۔ اس نے ایک ایسا آئینہ بننے کی کوشش کی جس میں سب معاشروں کے حالات کی عکاسی ہو۔ یہی وہ جدید درس گاہ بنی جہاں "پلے" کے بٹن کو چھو کر ہم نے اپنی وقت کو گزارا۔ آج نیٹ فلکس صرف ایک سٹریمنگ سروس نہیں، بلکہ ایک ایسا پلیٹ فارم بن چکا ہے جو عوام کی سوچ کو شکل دے رہا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ یہ سیریز صرف تفریح کے لیے نہیں، بلکہ "سبق آموز" بننے لگی ہیں۔

کبھی ہم مارکو پولو دیکھتے ہیں جو ایک اطالوی تاجر کی کہانی سناتی ہے۔ وہ منگول سلطنت کے دربار میں پہنچتا ہے اور ثقافتوں کا ٹکراؤ، زبان کی الجھنیں اور کبلائی خان جیسے بڑے کردار اسے ایک عجیب دنیا میں لے جاتے ہیں۔ مارکو سیکھتا ہے، حالات سے مطابقت پیدا کرتا ہے اور آخر میں اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔ اب یہ دیکھ کر دلچسپ لگتا ہے کہ ایک بندہ اتنی دور دراز کی دنیا میں جا کر بھی اپنے پاؤں جما لیتا ہے۔ یہ تو جیسے ہم ہی ہیں جو نئی نوکری یا شہر میں جا کر اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں، بس فرق یہ ہے کہ مارکو کے پاس گوگل نہیں تھا، ورنہ وہ اور جلدی گھل مل جاتا۔

کبھی وائکنگ دیکھتے ہیں جو جنگجوؤں کی کہانی ہے، جہاں رگنار لوتھبروک جیسے کردار ہمیں دکھاتے ہیں کہ طاقت کے ساتھ عقل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ صرف تلواروں اور فتوحات کا قصہ نہیں، بلکہ خاندان، قیادت اور روایات کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ یہ داستان ایک کسان سے لے کر بادشاہ تک کے سفر کو بیان کرتی ہے۔ ابتدائی سیزن میں جوش اور دریافت کی لہر ہے، مگر درمیانی حصوں میں سیاسی سازشیں اور ذاتی رقابتیں مرکزی ہو جاتی ہیں۔ آخری سیزن نئی نسل کے لیے راستہ چھوڑتا ہے، جہاں پرانی روایات اور نئے تصورات کا ٹکراؤ نظر آتا ہے۔ ویسے راگنار کو دیکھ کر ایک طرف تو آپ کا دل کرتا ہے کہ تلوار اٹھا کر دنیا فتح کر لیں مگر پھر نیند ہم پہ غالب آ جاتی ہے اور یہ منصوبہ صرف ذہن میں ہی رہ جاتا ہے۔

کہیں یہ ہمیں پابلو ایسکوبار کی دنیا میں لے جاتی ہے، جو کولمبیا کا سب سے بدنام منشیات کا سردار تھا اور دکھاتی ہے دولت اور طاقت کی ہوس انسان کو کہاں تک لے جا سکتی ہے۔ عروج و زوال کی کہانی کو دو حصوں میں پیش کیا گیا ہے۔ پہلا سیزن اس کی طاقت کے عروج کو دکھاتا ہے، تو دوسرا اس کی گراوٹ کی المناک تفصیلات۔ یہ صرف ایک مجرم کی کہانی نہیں، بلکہ ایک معاشرے کی عکاسی ہے۔ اب ذرا "دی آفس" کی بات کرتے ہیں۔ امریکی ہو یا برطانوی ورژن، یہ سیریز ہمیں دفتری زندگی کے وہ رنگ دکھاتی ہے جو ہم اپنے سرکاری دفتروں میں چائے کے کپ اور فائلوں کے ڈھیر کے پیچھے چھپا کر رکھتے ہیں۔ مائیکل سکاٹ کی بے وقوفی دیکھ کر ہنسی تو آتی ہے، لیکن ساتھ ہی خیال آتا ہے کہ ہمارے اپنے باس بھی کبھی کبھی اسی طرح کے "جینیئس" آئیڈیاز لے کر آتے ہیں۔

ایک اور شاہکار ہے "برئیکنگ بیڈ"۔ واٹر وائٹ نامی ایک کیمسٹری ٹیچر جو اچانک ڈرگ لارڈ بن جاتا ہے۔ اب یہاں سبق یہ نہیں کہ کیمسٹری پڑھ کر آپ بھی نیلی مٹھائی بنائیں، بلکہ یہ کہ زندگی کے فیصلے کتنی تیزی سے آپ کو ایک نئے راستے پر لے جا سکتے ہیں جہاں کا آپ کو گمان تک نہیں ہوتا۔ ویسے کہانیاں اکثر ہمیں ہماری اپنی زندگی کی جھلک دکھاتی ہیں، جہاں ناکامیاں اور کامیابیاں ایک دوسرے کا حصہ ہوتی ہیں۔ "Vikings" کی جنگی داستانیں اور "Narcos" کی حقیقی کہانیاں ہمیں یہ احساس دلاتی ہیں کہ ہر شکست کے بعد ایک نیا آغاز ہوتا ہے۔ اب ذرا "منی ہائیسٹ" کو ہی دیکھ لیں۔ ایک طرف پروفیسر اور اس کی ٹیم بینک لوٹ رہی ہے، دوسری طرف سب سوچ رہے ہیں کہ ایک اچھا پلان ہو تو کیا کچھ نہیں ہو سکتا۔ لیکن مذاق ایک طرف، یہ سیریز ہمیں دکھاتی ہے کہ زندگی میں نظم و ضبط، ٹیم ورک اور تھوڑی سی دماغی مشقت سے بڑے کام ہو سکتے ہیں۔ ہاں، البتہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اگلے ہفتے اپنے شہر کے بینک پر چھاپہ مارنے کا پلان بنائیں۔ "اسکوئڈ گیم" کا نام تو ذہن سے نکل گیا۔ کون سا بچہ یا بڑا ہے جو سرخ لباس والے گارڈز اور "ریڈ لائٹ، گرین لائٹ" کے کھیل کو دیکھ کر اپنے بچپن کو یاد نہیں کرتا؟ لیکن یہاں بات کھیل سے آگے نکل کر زندگی اور موت کے داؤ پر جا پہنچتی ہے۔ ہمارے ہاں تو ویسے بھی زندگی ایک اسکوئڈ گیم ہی ہے، جہاں بل اور مہنگائی آپ کو ہر موڑ پر "آؤٹ" کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر نیٹ فلکس کے ذریعے نوجوانوں کو کچھ اچھا دیکھنے، سوچنے اور سیکھنے کا موقع ملتا ہے، تو کیوں نہ ہم اسے "تفریحی تربیت" کا نام دیں؟ ہاں، اس کے لیے شرط یہ ہے کہ صرف بیٹھ کر دیکھنے سے زیادہ اسے سمجھنا بھی سیکھیں۔ تو اگلی بار جب آپ "Continue watching" کا بٹن دبائیں، تو یاد رکھیں کہ اگلی قسط صرف دل بہلانے کے لیے نہیں، دماغ جگانے کے لیے بھی ہونی چاہیے۔

Check Also

Khawaja Fareed Ke Rang Aur Jam Jamil Ka Business Model

By Muhammad Saqib