Chalo Sakoon Lane Ki Khatir Chalen
چلو سکون لینے کی خاطر چلیں
آج ہم بات کرتے ہیں لاہور کی۔ کیا اس شہر کے لوگ اپنے مستقبل کے بارے میں جانتے ہیں۔ میری اپنے ایک دوست سے بات ہوئی ہے۔ جو لاہور میں رہتا ہے۔ اس کا نام ہے فاروق احمد خان میرے پیارے دوست رحیم صاحب کے دوست ہیں۔ لاہور شہر کی زندگی ایک ایسی زندگی ہے جس میں ایک گھر کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے گھر کے تمام افراد کو مل کر کام کرنا پڑتا ہے۔ انھوں نے لاہور کی زندگی کے بارے میں بتایا اور اس کے اصول بھی بیان کیے۔
اس شہر کے تمام افراد ایسے پلیٹ فارم پر ہیں۔ زندگی کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سات دنوں میں سے چھ دن کام کرنا پڑے گا۔ جو لوگ لاہور میں برسرِ روزگار ہیں ان کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال کر سکیں۔ جو لوگ ملازمت کرتے ہیں وہ صبح گھر سے جاتے ہیں اور سارا دن دفاتر کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کے پاس اتنا وقت بھی میسر نہیں ہوتا کہ وہ اپنی صحت کا خیال رکھ سکیں۔
صحت کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے ان کی جسمانی کام کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ روز بروز کام کے دباؤ کی وجہ سے ان کی یاداشت کی صلاحیت میں کمی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ بس شہر کے لوگوں کو تو صرف پیسہ چاہیے۔ چاہے جس طرح سے بھی آئے۔ ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شہری زندگی کے تو بہت سے مسائل ہیں۔ شہری زندگی تو ایسی ہے جیسے ایک غریب انسان کو برف پر چلنے کے لئے کہا جائے اور یہ بھی کہا جائے کہ اس پہ بنا جوتے کے چلنا پڑے گا۔
لیکن غریب انسان کو مجبوریوں کے باعث چلنا پڑے گا۔ اگر نہیں چلے گا تو اس کی زندگی کاپہیہ رک جائے گا کیونکہ اسے اپنے اور اپنے گھر والوں کی ضروریات کے لیے ایسا کرنا پڑے گا۔ شہری زندگی تو ایسی ہے کہ سات دنوں میں سے ایک دن صرف سکون ملتا ہے۔ وہ بھی وہ دن سو کر گزار دیتا ہے۔ بس وہ دن بھی ایسا گزرتا ہے کہ گھر میں ہر فرد اپنی خواہشات سامنے رکھ دیتا ہے کہ مجھے یہ چاہیے اور مجھے وہ چاہیے۔ ایسے حالات میں انسان گھر چھوڑ کر بھی کہیں نہیں جا سکتا۔
کیا زندگی ہے بس انسان کچھ نہیں سیکھتا بلکہ معاشرہ اس کو بہت کچھ سیکھا دیتا ہے جب تک وہ اپنے مسائل کو حل نہیں کر سکتا وہ اپنے معاشرے کے مسائل کو کیسے حل کرے گا؟ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومت کو مختلف تجاویز پیش کرنی چاہیے کہ تمام پڑھے لکھے افراد کو یہ پیغام دیا کہ اسلامی اصولوں کے مطابق ہر سال دو عیدیں مناتے ہیں۔ جو غریب انسان اپنے لیے کپڑے نہیں خرید سکتا اس کی مالی معاونت کر دی جائے۔
دلی طور پر خوشی تب محسوس ہوگی جب آ پ کسی کو دل سے کوئی چیز خرید کر دیں گے۔ اس کی خوشی میں ہی آپ کی خوشی ہونی چاہئے شہر میں انسان سب کچھ مال و دولت دےکر خرید سکتا ہے لیکن خوشی نہیں خرید سکتا۔ شہری زندگی تو ایسی ہے جیسے بنا چینی کے چاۓ۔ کیونکہ شہری زندگی تو دوسروں پر انحصار کرتی ہے یہاں خوشی کے لیے وقت لینا پڑتا ہے۔ یہاں لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ کچھ وقت روز کسی کو دے سکیں۔
شہر ایک ایسی دلدل والی جگہ ہے جہاں دیہاتوں سے تو لوگ آتے ہیں پھر واپس جانے کا نام نہیں لیتے۔ شہر والوں کی اوسطاً عمر تقریباً 60 سال ہے۔ لیکن دیہی زندگی کی اوسطاً عمر 75 سال ہے۔ شہری زندگی میں فاسٹ فوڈ کے استعمال میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن جو مزہ دیہی زندگی کا ہے، جو مٹھاس اس زندگی میں ہے وہ شہری زندگی میں نہیں ہے۔
شہری زندگی میں تو انسان بیماریوں کے چکروں میں پھنسا رہتا ہے۔ کبھی سر میں درد اور کبھی بلڈ پریشر کا مسلئہ۔ شہر والے دیہی علاقوں میں رہنا پسند نہیں کرتے اور دیہات والے شہر میں رہنا پسند نہیں کرتے کیونکہ ان کو رہنے سے خوشی نہیں ملتی۔ خوشی انسان کو اس وقت ملتی ہے۔ جب اس کو ذہنی طور پر سکون مل رہا ہو۔