1.  Home
  2. Blog
  3. Shahzad Malik
  4. Sangam Do Daryaon Ka

Sangam Do Daryaon Ka

سنگم دو دریاؤں کا

جون کا مہینہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا اور ہم آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں موجود تھے۔ اس علاقے میں دو دریاؤں کا سنگم ہوتا ہے جس مقام پر یہ سنگم ہوتا ہے وہاں ایک ہوٹل تعمیر کیا گیا ہے، جس کا نام ہی سنگم ہوٹل ہے۔ اسی علاقے میں دریائے جہلم اور دریائے نیلم کے ملاپ سے ایک ڈیم بن رہا تھا جسے نیلم جہلم پاور پروجیکٹ کا نام دیا گیا ہے۔

ملک صاحب اس منصوبے پر بڑی اہم پوسٹ پر کام کر رہے تھے۔ ان کا کام اگرچہ پروجیکٹ کے لاہور آفس میں تھا لیکن ہر مہینے کے پہلے پانچ دن انہیں سائٹ وزٹ اور میٹنگز کے لئے مظفرآباد جانا ہوتا تھا وہاں جانے کے لئے دفتر کی گاڑی اور ڈرائیور انہیں اسلام آباد چھوڑتا اور آگے پروجیکٹ کی گاڑی مظفرآباد تک لے جاتی۔ جب ہر مہینے پانچ دن اکیلے رہ رہ کر میں تنگ آ گئی تو ملک صاحب سے کہا اس دفعہ مجھے بھی ساتھ لے کر جائیں۔

انہیں کوئی اعتراض نہیں تھا اگلی بار ان کے جانے پر میں بھی ساتھ تھی۔ ملک صاحب نے دفتر کی گاڑی ڈرائیور کی بجائے اپنا پرائیویٹ ٹرپ بنا کر اپنی ذاتی گاڑی کا استعمال کیا کیونکہ دفتر کی گاڑی اور اخراجات اپنے ٹرپ کے لئے انہیں گوارہ نہیں تھے۔ ہم ایک دن پہلے روانہ ہو گئے رات پنڈی میں اپنی بیٹی کے پاس گزاری اور اگلی صبح ہم مری کے راستے مظفرآباد پہنچے۔ راستے میں کوہالہ کے قریب نیلم جہلم پاور سٹیشن کی سائیٹ دیکھنے کے لئے رکے۔

اونچے پہاڑوں کے نیچے میلوں کھدی ہوئی سرنگوں میں سے دونوں دریاؤں کے پانی کو گزار کر پاور سٹیشن تک لایا جانا تھا، پاور سٹیشن کی تعمیر کا کام زور شور سے چل رہا تھا۔ سائیٹ انچارج نے مجھے بھی پاور ہاؤس کو اندر سے دیکھنے کی دعوت دی۔ سرنگ کے اندر جانے کے لئے میں نے بھی مخصوص ٹوپی پہنی اور جیپ میں بیٹھ گئی، سرنگ کے اندر دنیا ہی نرالی تھی۔

ہزاروں ٹن مٹی اور پتھروں کو سرنگوں سے نکالنے اور بھاری سامان کو اندر پہنچانے کے لئے چلنے والی گاڑیوں کے لئے سڑک اور ریل کے لئے پٹڑی بچھائی گئی تھی۔ سرنگ کی دیواروں کو مضبوط کرنے کے لئے سٹیل کی موٹی چادروں کی لائننگ کی جا رہی تھی۔ کام ابھی ابتدائی مرحلے میں تھا مزید سرنگوں کی کھدائی جاری تھی جہاں تک کھدائی مکمل ہو چکی تھی جیپ وہاں تک گئی، جگہ جگہ رک کر ملک صاحب نے کام کا معائنہ کیا اور سرنگ سے باہر آ گئے۔

لنچ کا انتظام وہیں کیا گیا تھا کھانے کے بعد ملک صاحب نے وہاں کے سٹاف سے میٹنگ کی اور پھر ہم مظفرآباد کے لئے روانہ ہو گئے وہاں ملک صاحب کا قیام پرل کانٹینینٹل ہوٹل میں ہوا کرتا تھا۔ جب ہم پہنچے تو شام ہو رہی تھی ملک صاحب کے مخصوص کمرے کی کھڑکی دریائے جہلم کی طرف کھلتی تھی پوری دیوار پر محیط بڑی سی کھڑکی سے دکھائی دینے والا نظارہ بےحد حسین تھا، سرسبز پہاڑوں کے پیچھے غروب ہوتے سورج کی سرخی سے یوں لگتا تھا بادلوں میں آگ لگی ہوئی ہے۔

ڈوبتے سورج سے پھیلتے اندھیرے تک میں تو وہیں جم کے کھڑی رہی۔ اندھیرا پھیلتے ہی اونچی نیچی عمارتوں اور سڑکوں پر بجلی کے قمقمے جل اٹھے تو یہ ایک الگ ہی نظارہ تھا، رات کا کھانا ہم نے کمرے میں ہی منگوا لیا صبح جیسے ہی آنکھ کھلی میں پھر سے کھڑکی میں جا کھڑی ہوئی۔ ملک صاحب کمرے میں نہیں تھے حسب عادت واک کے لئے باہر نکلے ہوئے تھے۔ صبح کے جھٹ پٹے میں پہاڑوں کا سحر پوری طرح فضاء پر چھایا ہوا تھا۔

نکلتے سورج کی کرنیں دریا کے پانی کو زرنگار کر رہی تھیں اس میں اٹھتی ہلکی ہلکی لہریں سنہری چمک منعکس کر رہی تھیں، اس مبہوت کن نظارے سے میں تب چونکی جب ملک صاحب کمرے میں آئے اس کے بعد تیار ہو کر ناشتے کے لئے ڈائٹنگ ہال میں گئے۔ پہاڑ کی طرف کھلتی بڑی سی کھڑکی کے پاس رکھی میز کا انتخاب کر کے ہم اپنا ناشتہ لے کر وہاں آ بیٹھے سامنے والے پہاڑ پر ابھی تک گزشتہ زلزلے کے آثار دکھائی دے رہے تھے۔

لگتا تھا پہاڑ کا سامنے والا پورا حصہ ہی گر گیا تھا کیونکہ ابھی تک وہاں سبزے کی بجائے مٹی ہی دکھائی دے رہی تھی۔ ہوٹل کے لان میں فوارہ چل رہا تھا جس کا پانی دھوپ میں چمک رہا تھا ہر طرف قدرت کی صناعی کو دیکھتے ہوئے ناشتہ ختم کر کے ہم واپس کمرے میں آئے ملک صاحب تیار ہو کر دفتر روانہ ہوئے اور میں اخبار لے کر بیٹھ گئی۔

تھوڑی دیر بعد ایک آدمی ہوٹل کے مینیجر کی طرف سے میرے لئے کمپلیمنٹری پھلوں کی ٹوکری اور کیک لایا شکریہ کے ساتھ میں نے وصول کیا ہوٹل مینیجر کی یہ مروت ہمارے پورے قیام تک رہی لیکن پہلے دن کے بعد کیک تو میں کمرے کی صفائی کرنے والے آدمی کو دے دیتی آخر ہم دونوں کتنا کیک کھا سکتے تھے۔ اس کے بچے ہم سے زیادہ مستحق تھے کچھ دیر کمرے میں گزارنے کے بعد میں ہوٹل کے لان میں نکل آئی اور گھوم پھر کر ماحول کی تازگی سے لطف اندوز ہونے لگی۔

مظفرآباد کا پرل کانٹینینٹل ہوٹل ایک الگ سی پہاڑی پر بنی ایک بہت خوبصورت عمارت ہے اس کی تعمیر سادہ مگر دلکش ہے جس میں مقامی پتھروں اور لکڑی کا بہت اچھا استعمال کیا گیا ہے خاص طور پر داخلی دروازے سے ڈائٹنگ ہال تک کوریڈور کی لکڑی کی محرابی چھت بہت خوبصورت لگتی ہے۔ عمارت کے اطراف میں پھیلے سبزہ زاروں میں گلاب کے ہر رنگ کے پھول اور مختلف پودوں کی جھاڑیاں بہار دکھا رہی تھیں رات کو ہوٹل کے لان سے شہر کی روشنیاں ایسے لگتی تھیں جیسے لاکھوں ستارے زمین پر اتر آئے ہوں۔

دوپہر کے بعد ملک صاحب واپس آئے تو ہم مظفرآباد کے بازار میں گھومنے گئے مجھے تھوڑی حیرت ہوئی کہ بازاروں میں کشمیری مصنوعات کم اور پنجابی سامان کی بہتات تھی کشمیری کڑھائی کی شالیں جو دنیا میں مشہور ہیں وہ تو کہیں دکھائی نہ دیں البتہ لاہور، اسلام آباد اور راولپنڈی کی دکانوں پر ملنے والی شالیں بہت تھیں قیمت میں بھی کوئی خاص فرق نہ تھا۔

بعد میں معلوم ہوا کہ وہ شالیں عام بازاروں میں فروخت نہیں ہوتیں یہ کاٹیج انڈسٹری ہے۔ شالوں کے سوداگر مخصوص دکانوں سے تھوک میں مال اٹھا لیتے ہیں اور پاکستان کے مختلف شہروں اور بیرون ملک فروخت کرتے ہیں اس مخصوص بازار تک جانے کا ہمارے پاس وقت نہیں تھا لہٰذا ہم نے بچوں کے لئے چند چھوٹی موٹی چیزوں کے سوا کچھ نہ لیا۔

اگلے دن ملک صاحب اپنے کام سے فارغ ہو کر آئے تو ہم دریائے جہلم پر بننے والے نیلم جہلم ڈیم کو دیکھنے گئے۔ دریا کے ساتھ ساتھ بنی سڑک پر چلتے ہوئے ڈیم سائیٹ دیکھتے ہوئے ہم بھارتی مقبوضہ کشمیر کی سرحد کے قریب آخری پاکستانی قصبے تک گئے وہاں کے بازار کی ایک دکان پر بھی پنجابی سامان دیکھا ہمارے پوچھنے پر دوکاندار نے بتایا کہ وہ اپنی دوکان کے لئے سامان شاہ عالمی مارکیٹ لاہور سے لاتا ہے۔

شام ہو رہی تھی ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہوئی تو ہم واپس پلٹ آئے راستہ بھر ہم دیکھتے آئے کہ زلزلے میں تباہ شدہ علاقوں کی اتنی دیر بعد بھی بحالی نہیں ہو سکی تھی سڑک کے ساتھ ساتھ آبادیوں کے مکان کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے تھے۔ شاید حکومتیں اور مکانوں کے مالکوں نے بہتری کی ضرورت ہی نہیں سمجھی تھی۔

ہمارے قیام کا چوتھا دن تھا ملک صاحب حسب معمول اپنے کام سے واپس آئے تو پروگرام بنا کہ ڈیم کی سائٹ تھری کو دیکھنے جائیں جو دریائے نیلم پر ہے۔ مظفرآباد سے نیلم کنارے سڑک پر گاڑی بہت ہچکولے کھا رہی تھی وجہ یہ تھی کہ یہ علاقہ زلزلے سے سب سے ذیادہ متاثر ہوا تھا۔ سڑک ٹریفک کے لئے بحال تو ہوگئی تھی مگر پکی نہیں بنی تھی۔ ڈیم سائیٹ تک پہنچ کر ہی ہمت جواب دے گئی تھوڑا اور آگے تک جا کر ہم واپس آ گئے۔ اگرچہ زلزلے نے کشمیر جنت نظیر کے قدرتی حسن کو کسی حد تک گہنا دیا تھا اس کے باوجود حسین پہاڑی نظاروں کا جوبن نظر نواز تھا اس سے محظوظ ہوتے ہوئے ہم ہوٹل واپس آئے۔

اگلے دن صبح کے وقت دفتر میں مختصر میٹنگ کے بعد ہماری واپسی کے لئے روانگی تھی۔

Check Also

Masoom Zehan, Nasal Parast Ban Gaye

By Zaigham Qadeer