1.  Home
  2. Blog
  3. Shahzad Malik
  4. Pardes Ki Eid

Pardes Ki Eid

پردیس کی عید

ہمارا بھی یہی خیال ہوا کرتا تھا کہ عید اپنے وطن میں اپنوں کے ساتھ ہی اچھی لگتی ہے، مگر یہ خیال اس وقت تک تھا جب تک ہم پردیس نہیں گئے تھے۔ دیار غیر کے لوگ اگر اپنے ہم مذہب ہوں غیر ملکی کمیونٹی میں مذہبی رواداری ہو ایک دوسرے کے تیوہار میں ہنسی خوشی شامل ہونے کا جذبہ ہو تو وطن اور اپنوں سے دوری کا احساس بڑی حد تک کم ہوجاتا ہے۔ اس تہوار پر مصروفیت اتنی ہوتی کہ سارا دن کچھ یاد کرنے کا ہوش نہیں رہتا اور جب فارغ ہوکر بستر پکڑیں تو تھکاوٹ کچھ سوجھنے نہیں دیتی۔

جب پہلی بار صومالیہ گئے تو رمضان کا مہینہ تھا میں ادھر سے ہی سب کے کپڑے بنوا کر لے گئی تھی وہاں جاکر صرف بچیوں کے کرتوں پر گوٹا کناری ٹکائی اور کپڑے تیار ہوگئے۔ چونکہ ہم ابھی نئے نئے تھے اس لئے عید کا دن گھر پر ہی گذارا البتہ رات کا ڈنر ایک انڈین فیملی کی طرف تھا جس میں میاں ہندو اور بیوی مسلمان تھی۔

اگلے سال عید تک آٹھ کے قریب بنگلہ دیشی ڈاکٹر ہرگیسہ میں آچُکے تھے اور ان کے ساتھ مسلمان ہونے کی وجہ سے اور کسی حد تک اردو سمجھنے کی وجہ سے ہمارا بہت ملنا جلنا ہو چکا تھا اس لئے رمضان اور پھر عید پر بھی خوب رونق اور گہما گہمی رہتی تھی۔ پچھلے تجربے میں معلوم ہوچکا تھا کہ اس شہر میں عید کی مناسبت سے کھانے پینے کی کوئی چیز دستیاب نہیں ہوتی اسلئے جب ہم پاکستان چھٹی پر آئے تو یہاں سے سویّاں باسمتی چاول بیسن حتی کہ سفید چینی بھی لے کر گئے کہ وہاں صرف براؤن شوگر ہی ملتی تھی۔

ضرورت کی اور بھی بہت سی چیزیں پیک کرتے ہوئے دیکھ کر کہنے والے کہا کرتے کہ اگر راشن بھی یہاں سے لے جا کر ہی کھانا ہے تو یہیں کیوں نہیں رہتے۔ بہر حال آئندہ عیدوں پر ہم اپنے پاکستانی ٹھاٹ باٹ سے تہوار منا رہے ہوتے اس وقت تک بنگلہ دیشی ڈاکٹروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوچکا تھا اور یو این او کے تحت کئی اور شعبوں میں بھی بنگلہ دیشی آگئے تھے۔ البتہ پاکستانی ہم واحد فیملی تھے اور ان سب میں سینئر بھی اس لئے غیر متنازع طور پر سب نے ہمیں اپنے بڑے مان لیا تھا۔

خواتین کی میں آپا اور ملک صاحب مردوں کے ملک بھائی بن چکے تھے چونکہ ملک مسلمان تھا اس لئے شہر میں کئی مساجد تھیں اور ماحول اسلامی تھا عید کی چھٹیاں بھی ہفتہ بھر چلا کرتی تھیں۔ عید کی صبح پورے گروپ کے لوگ عید کی نماز کے لئے شہر کی مرکزی جامع مسجد جاتے ہوئے خواتین کو ہمارے گھر چھوڑ جاتے اور نماز سے فارغ ہوکر سب ادھر ہی آجاتے جہاں مزے دار برنچ ان کا منتظر ہوتا۔

دو دن کی بھرپور محنت اور اپنی ساری مہارت لگا کر میں نے چند ڈشیں بنائی ہوتی تھیں چٹ پٹی چنا چاٹ ایک دو چٹنیاں شامی کباب فرائیڈ فش کے ساتھ فرنچ بریڈ اور عید کی خاص میٹھی ڈِش سویّاں دو طرح سے بناتی تھی ایک تو وہی دودھ اور میوے والی کھیر اور دوسری دیہاتی طرز کا پریہہ۔ اس کے لئے میں چائنیز نوڈلز سویوں کی جگہ استعمال کرتی تھی۔ چونکہ وہاں خالص دیسی گھی وافر ملتا تھا اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں یہ سویّاں بناتی تھی ایک بڑے تھال میں ابلی ہوئی گرما گرم سوئیاں ڈال کر اوپر دیسی گھی اور اس پر براؤن شوگر اس کے ساتھ جگ میں گرم دودھ جس کا جتنا دل چاہے ڈال لے۔

یہ دیسی ڈِش سب کو بہت پسند آتی تھی اور کچھ دیر بعد چائے تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ اکثر عیدوں پر یہ ہمارا عید برنچ کا مینیو ہوتا ملک صاحب کھانے کی ڈشوں کی تعداد کی بجائے کوالٹی پر زور دیتے۔ یہ بات بھی پیش نظر ہوتی کہ رات کا ڈنر کافی بھاری ہوتا ہمارے مہمانوں میں ہمارے ہندو ہمسائے اور انڈین مسلم بھی شامل ہوتے سب بڑے شوق سے کھانا کھاتے اور تعریفیں بھی ساتھ ساتھ جاری رہتیں۔

کچھ دیر گپ شپ کے بعد سب اپنے اپنے گھروں کو سدھارتے شام کا ڈنر اکثر ڈاکٹر مرشد کے گھر ہوتا جن کا دروازہ ہمارے دروازے سے اگلا ہوتا اور مسز مرشد کھانا پکانے میں میری شاگرد! اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ میری شام کیسی گزرتی ہوگی۔ آدھا کھانا ہمارے گھر پک رہا ہوتا اور ڈنر کے وقت بھاگ بھاگ کر سروس بھی کرنی پڑتی۔ لاڈوں پلی مسز مرشد نے بنگلہ دیش میں اپنی فکرمند ماں کو بتا دیا تھا کہ اسے ہرگیسہ میں ایک بڑی بہن مل گئی ہے آپ فکر نہ کریں اب ان کے اس مان کی لاج تو رکھنی ہی تھی نا! لیکن جب وہ کھانا پکانے میں ماہر ہوگئیں تو استاد کے بھی کان کترنے لگیں۔

عید کے دن کا صحیح لطف تو مرد اٹھاتے صبح ہمارے گھر گپوں کی محفل جمتی تو شام میں کسی دوسرے گھر اور دوپہر میں آرام فرماتے یا پھر بچوں کے مزے ہوتے جو دن میں دو دفعہ تیار ہو کر اپنے ہمجولیوں کے ساتھ کھیلتے کودتے دن گذارتے۔ ہرگیسہ میں جتنے گروپ کے ممبر تھے اتنے دن ہی عید چلتی رہتی ہر روز کسی ایک کے گھر میں عید مِلن پارٹی ہوتی۔

روزانہ تیار ہوکر ڈنر پر جانا اور وہاں اکٹھے بیٹھ کر دنیا جہان کی باتیں کرنا ہماری تو یہی عید ہوا کرتی تھی حالانکہ روز وہی لوگ ہوتے مگر پھر بھی بڑا اچھا لگتا ایک ڈاکٹر صدیقی صاحب ہرگیسہ سے باہر رہتے تھے ان کے ہاں جاتے تو آؤٹنگ بھی ہوجاتی تھی ایسی ہواکرتی تھیں ہماری پردیس کی عیدیں۔

Check Also

Pakistan Se Baramad Kiye Jane Wala Chawal

By Zafar Iqbal Wattoo