1.  Home
  2. Blog
  3. Shahzad Malik
  4. Nao Umri Ke Masail Ki Qabil e Amal Tajveez

Nao Umri Ke Masail Ki Qabil e Amal Tajveez

نو عمری کے مسائل کی قابل عمل تجویز

چند دنوں کے اندر اندر اوپر تلے کم سن بچوں کے گھروں سے جا کر والدین کی اجازت کے بغیر کورٹ میرج یا نکاح کر لینے کے واقعات رونما ہو چکے ہیں جن کا میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر بہت چرچا ہورہا ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں والدین کی تربیت کمزور تھی کہیں میڈیا کو ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے، کہیں کسی جرائم پیشہ گروہ کے سرگرم ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے، کہیں کوئی گیم قصوروار سمجھی جارہی ہے۔

یہ سب وجوہات اگر ساری اکٹھی نہیں تو کوئی ایک وجہ تو ٹھیک ہی ہوگی آخر بچوں نے بلاوجہ تو اتنا بڑا قدم نہیں اٹھایا۔ ایک بہت بڑی وجہ تو بچوں کا سن بلوغت کو پہنچ جانا ہے بچہ لڑکا ہو یا لڑکی یہ عمر اس کے لئے بہت بڑی آزمائش ہوتی ہے۔ میڈیکل سائینس کی رو سے اس عمر کے تقاضے بہت طاقتور ہوتے ہیں سن بلوغت کو پہنچ جانے کے ابتدائی چند سال اگر خیر و عافیت سے گذر جائیں تو بچے سمجھداری کے دور میں داخل ہونے لگتے ہیں اور غلطی کرنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔

پچھلے دور میں اس عمر میں بچے تعلیم کے مختلف مدارج میں ہوتے تھے اور ساری توجہ پڑھائی اور کیرئیر بنانے پر رکھتے تھے، انہیں ادھر ادھر دھیان کرنےکی فرصت نہیں ہوتی تھی یہ بات ان کے ذہنوں میں بیٹھی ہوتی کہ کیرئر بنانا اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ان کی اولین ترجیح ہے پڑھائی کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں مختلف کھیل کھیلنا ایک صحتمند جسمانی مصروفیت ہوتی تھی۔

والدین بھی اپنی پوری توجہ اولاد پر رکھتے تھے جب بچے تعلیم ختم کرکے فارغ ہوتے تو مناسب جوڑ تلاش کرکے رشتۂ ازدواج میں منسلک کردیا جاتا اور بچے ایک خوشگوار فیملی لائف میں مصروف ہو جاتے وہ پرامن دور اب گذر چکا نئے وقت کے نئے تقاضے ہیں۔ ماحول اور ڈیجیٹل انقلاب نے بچوں کو ذہنی اور جسمانی طور پر بہت متاثر کیا ہے ہر طرح کی معلومات اپنا رنگ دکھاتی ہیں۔

بچے سن بلوغت کے تقاضوں پر قابو پانے کی بجائے ان سے مغلوب ہونے لگے ہیں والدین کی سوچ ابھی وہی ہے کہ کیرئر بنالیں بچے کوئی چارا نہ پاکر انتہائی قدم اٹھا بیٹھتے ہیں جن بچوں کے والدین چوکسی اور دوراندیشی سے بچوں کے قریب رہ کر ان کا یہ وقت گذار دیتے ہیں وہ اس پریشانی سے بچ جاتے ہیں۔

مغرب میں پلنے والے مسلمان بچوں کے وہاں کے ماحول سے متاثر ہونے کے امکانات کے پیش نظر بہت سے والدین نے یہ حل نکالا ہے کہ بچے جب ایک خاص عمر کو پہنچتے ہیں تو چاہے تعلیم کے کسی بھی مرحلے پر ہوں، انہیں اجازت دے دیتے ہیں کہ وہ کسی کو پسند کرتے ہوں تو انہیں نکاح کے رشتے میں باندھ دیں اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ شادی کے بعد لڑکا لڑکی اپنے اپنے والدین کے پاس ہی رہ کر اپنی تعلیم مکمل کرتے رہتے ہیں ویک اینڈ پر ایک دوسرے سے ملتے ہیں فیملی بڑھانے کا خیال تعلیم مکمل ہونے تک اٹھا رکھتے ہیں یوں وہ بہت سی قباحتوں سے بچ جاتے ہیں۔

ہمارے ہاں والدین بچوں کے تعلیمی اخراجات تو اٹھاتے ہی ہیں، اگر بچے چاہیں تو مناسب عمر میں ان کی شادی کرکے انہیں اسی طرح سپورٹ کرتے رہیں بچے چاہیں تو اپنے اپنے والدین کے گھروں میں ہی رہیں آپس میں ملتے بھی رہیں اور ایک دوسرے پر مالی بوجھ بھی نہ پڑے اور جیسے ہی کیرئیر شروع ہو دونوں اپنی باقاعدہ ازدواجی زندگی شروع کرلیں۔

حال ہی میں ہمارے جاننے والوں میں دو تین گھرانوں نے پڑھائی کے دوران بچوں کی شادیاں کی ہیں جو اب اپنے اپنے گھروں میں خوش باش زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آج کے دور میں مقابلہ اتنا سخت ہے کہ بچوں کے پیروں پر کھڑا ہونے میں بہت وقت لگتا ہے اس کا انتظار کرتے رہنے سے مسائل شروع ہوتے ہیں۔

اگر ان کے گھر والے تعاون کرتے رہیں تو بچے بھٹکنے سے بچ جائیں گے ویسے بھی تو جب تک پڑھائی ختم نہ ہو والدین ہی بچوں کی کفالت کرتے ہیں اگر ان کی شادی کرکے کچھ عرصے کے لئے لڑکے لڑکی کے والدین اپنے اپنے بچے کے اخراجات برداشت کرتے رہیں تو ان کا کیرئر بھی بن جائے گا اور ان کے باقی مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔

یہ ایک تجویز ہے جو ناقابل عمل نہیں ہے بس سوچنے کی ضرورت ہے۔

Check Also

Amma Ke Niwari Palang

By Tahira Kazmi