1.  Home
  2. Blog
  3. Shahzad Malik
  4. Kunhar Ke Sang Sang

Kunhar Ke Sang Sang

کنہار کے سنگ سنگ

ہم مظفرآباد، مری کے راستے آئے تھے مگر جانے کے لئے ہم نے وہ راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا جو گڑھی حبیب اللہ سے ہوتا ہوا مانسہرہ اور ایبٹ آباد جاتا ہے اور پھر وہاں سے راولپنڈی اسلام آباد پہنچ جاتے ہیں۔ اس راستے کے انتخاب کی ایک وجہ تو مزید پہاڑی علاقوں کے حسن سے لطف اٹھانا تھا اتفاق سے یہ موقع ملا تھا ورنہ گھر کے جھمیلوں سے جان چھڑا کر بطور خاص ان علاقوں میں کہاں جایا جاتا ہے۔

دوسری وجہ اپنے داماد کی والدہ سے ملاقات تھی جو حسن ابدال کے پاس پاکستان ائر فورس کی خوبصورت کالونی میں اپنے چھوٹے بیٹے کے پاس مقیم تھیں جب بھی پنڈی آنا ہوتا ان سے ضرور ملتے۔ اکثر وہ پنڈی میں ہی ہوا کرتی تھیں مگر اس دفعہ وہاں نہیں تھیں تو ان سے ملاقات بھی اس راستے کے انتخاب کی بڑی وجہ تھی۔ مظفرآباد سے چل کر گڑھی حبیب اللہ روڈ پر چلے ایک اونچی جگہ سے دریائے جہلم کا نظارہ کیا جو دو شاخوں میں بٹا ہوا تھا۔ درمیان کے چھوٹے سے ٹاپو پر بنے ہوئے گھروں کی ٹین کی چھتیں دھوپ میں چمک رہی تھیں۔

چلتے چلتے جانے کب چپکے سے دریائے کنہار ہمارے ساتھ ہو لیا۔ یہ کہیں نیچے گہرا اور کہیں سڑک کے برابر اٹھکھیلیاں کرتا ہوا ہمارا ہم سفر بن چکا تھا اس کے ساتھ چلتے چلتے گڑھی حبیب اللہ پہنچے تو اس شوخ کی روانی میں جولانی آ گئی۔ اس جگہ کا منظر بڑا مسحور کن تھا۔ دریا کے اس پار سرسبز پہاڑوں کے دامن میں بنے ہوئے گھر، گھاس چرتی اچھلتی کودتی بکریاں اور ہرے بھرے درختوں سے سجا کشمیر کا یہ علاقہ سچ میں جنت کا کوئی ٹکڑا ہی لگ رہا تھا۔

ہم نے ادھر گاڑی کھڑی کی اور بے اختیار باہر نکل کر اس حسین نظارے میں کھو گئے۔ منزل پر پہنچنے کی جلدی نہ ہوتی تو جانے کب تک اسی طرح مبہوت کھڑے رہتے۔ دوبارہ سفر شروع کیا اور شوریدہ سر دریا کی خوبصورت ہمراہی میں اس جگہ تک آ پہنچے جہاں سے سڑک مانسہرہ کی طرف مڑتی ہے۔ یہاں آ کر ملک صاحب کی رگ سیاحت پھڑک اٹھی کہنے لگے یہاں سے کچھ ہی فاصلے پر بالاکوٹ ہے کیوں نہ وہاں تک ہو آئیں؟ مجھے بھی کوئی حرج نہ لگا تو حامی بھر لی ہم نے گاڑی مانسہرہ کی طرف موڑنے کی بجائے آگے بالاکوٹ کی طرف بڑھا دی۔

حسین کنہار کا سحر پوری طرح ہمیں جکڑے ہوئے تھا اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ہم کچھ ہی دیر میں بالاکوٹ پہنچ گئے یہاں ابھی تک زلزلے کی تباہی کے آثار بڑے نمایاں تھے۔ تباہ شدہ گھروں کی جگہ خالی ہموار جگہوں پر دوست ملکوں کے عطیہ کئے ہوئے تیار گھر جا بجا قائم تھے۔ بازار کی رونق اگرچہ بڑی حد تک بحال ہوگئی تھی مگر باقاعدہ دوکانوں کے ساتھ ساتھ ریڑھیاں بھی کافی تعداد میں تھیں یہ ان لوگوں کی تھیں جن کی دکانیں تباہ ہوگئی تھیں مگر ابھی تک وہ انہیں دوبارہ تعمیر نہیں کر سکے تھے۔

اس مقام پر دریائے کنہار پر پل بنا ہوا ہے جسے پار کرکے وادئ کاغان روڈ شروع ہوتی تھی۔ ملک صاحب کی مہم جو طبیعت جانے اس وقت کون سے درجے پر تھی کہ بجائے واپس پلٹنے کے پل پار کیا اور گاڑی کاغان روڈ پر چڑھا دی اب یہاں سے بلند و بالا پہاڑ شروع ہو گئے تھے۔ منظر یہ تھا کہ سڑک کے ایک طرف اونچے پہاڑ اور دوسری طرف گہرائی میں دریائے کنہار آنکھ مچولی کھیلتا رواں دواں تھا کبھی سڑک کے برابر تو کبھی گہری کھائی میں بل کھاتا ہوا۔

اس کے دوسری طرف اونچے پہاڑوں پر سبز اطلس کی طرح بچھا سبزہ، اونچے اونچے پیڑ اور پہاڑوں کی ترائیوں پر بنے رنگا رنگ ٹین کی چھتوں والے گھر عجیب بہار دکھلا رہے تھے۔ پہاڑوں کی چوٹیوں سے کچھ ہی نیچے بنے گھر مجھے حیران کر رہے تھے کہ لوگ وہاں تک پہنچتے کیسے ہوں گے؟ یہ مناظر اتنے مدہوش کن تھے کہ ہم ان میں گم چلتے ہی جا رہے تھے ہوش تب آیا جب ایک جگہ لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے ٹوٹی ہوئی سڑک کی مرمت ہو رہی تھی، آگے جانے کے لئے بہت تنگ سا راستہ تھا۔

چند فٹ کے فاصلے پر گہرائی میں دریا بہہ رہا تھا بڑی خطرناک صورت حال تھی۔ میں نے کہا بھی کہ یہاں سے واپس چلتے ہیں مگر کچھ تو گاڑی واپس موڑنے کی جگہ نہیں تھی اور کچھ ملک صاحب ایڈونچر پر تلے ہوئے تھے۔ مجھ غریب کی ایک نہ سنی اور اپنی ڈرائیونگ کی مہارت کے بل بوتے پر اس تنگ راستے سے گاڑی نکال لے گئے۔ اب انہوں نے ٹھان لی کہ ناران پہنچ کر ہی دم لیں گے وہاں کسی ہوٹل میں رات بسر کر کے دن میں وہاں کے نظاروں کا لطف اٹھاتے ہوئے واپس پلٹ آئیں گے۔ سڑک اچھی تھی مگر متعدد جگہوں پر اسی طرح زیر مرمت تھی مگر ہم احتیاط سے وہاں سے گزرتے چلے گئے۔

میں پہلی بار اس علاقے میں آئی تھی اس جنت نظیر علاقے کے متعلق کتابوں میں ہی پڑھا تھا۔ انہی معلومات کے بل پر میں نے ان دیکھے میں ایک نظم لکھی تھی مگر جب حقیقت میں ان نظاروں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو مجھے اپنے تخیل کی قوت پر بڑا ناز ہوا کہ وہ جگہیں ہو بہو ویسی ہی تھیں جیسے میں نے اپنی نظم میں بیان کی تھیں۔

Check Also

Neo News Ke 9 Saal

By Najam Wali Khan