1.  Home/
  2. Blog/
  3. Shahzad Malik/
  4. Hasrat e Natamam

Hasrat e Natamam

حسرت نا تمام

ہماری گاڑی ناران روڈ پر رواں دواں تھی جنت نظیر مناظر کو دیکھ کر خوشی حیرت اور ایک دبے دبے خوف کے ملے جلے جذبات کے ساتھ میں گاڑی کی کھڑکی سے پہاڑوں کی عظمت کا نظارہ کرتے ہوئے اللہ کی قدرت پر سبحان اللہ پڑھ رہی تھی۔ جگہ جگہ پہاڑوں کی بلندیوں سے اترتے آبشار ایسے لگ رہے تھے جیسے پگھلی ہوئی چاندی بہتی چلی آ رہی ہو۔ یہ آبشار پہاڑوں سے اتر کر سڑک پر بہتے ہوئے نیچے دریائے کنہار میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ان جھرنوں کے ٹھنڈے پانیوں میں ٹراؤٹ مچھلی کی خوب افزائش ہوتی ہے۔

ایک جگہ سڑک کے ساتھ ہی ٹراؤٹ کی افزائش نسل کے لئے فش فارم قائم ہے۔ ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ بھی ہے جہاں ٹھنڈے میٹھے شفاف پانیوں میں پلی ٹراؤٹ مچھلی سے مسافروں کی تواضع کی جاتی ہے۔ سڑک اور پہاڑ کے درمیان جھرنے کے پانی پر بچھی چارپائیوں پر بیٹھے لوگ مچھلی کھانے کے لئے بیٹھے تھے۔ فضا میں بھنی ہوئی مچھلی کی اشتہاء انگیز خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ بھوک لگنے کے باوجود وقت کی کمی کے باعث ہم وہاں رک نہ سکے اور واپسی پر مچھلی سے لطف اندوز ہونے کا پروگرام بنا کر ہم آگے روانہ ہو گئے۔

راستے میں چھوٹی بڑی بستیوں کے بازاروں سے ہوتے ہوئے ایک جگہ سڑک پر گرے گلیشیئر کے درمیان سے گزرے دو دن پہلے گرنے والے اس برفانی تودے کو درمیان سے توڑ کر سڑک کو صاف کیا گیا تھا، بہتے پانی پر سے گاڑیاں گزر رہی تھیں۔ ناران پہنچنے سے پہلے ہی ایک چھوٹے سے میدان نما ٹیلے پر گاڑیوں کا رش دیکھ کر رکے تو معلوم ہوا کہ آگے سڑک بند ہے ایک برفانی تودہ گرا تھا جس میں سے ابھی گاڑیوں کے لئے راستہ نہیں بن سکا تھا۔ مقامی لوگ کسی متبادل مگر خطرناک راستے سے جیپوں کے ذریعے لوگوں کو آگے لے جا رہے تھے۔

لوگ اپنی گاڑیاں اس میدان میں کھڑی کر کے ضروری سامان کے ساتھ جیپوں میں جا رہے تھے۔ ہمیں بھی پیشکش کی گئی مگر ہم نے اس کی ضرورت نہ سمجھی اور یہاں سے ہی واپسی کی ٹھان لی۔ اس جگہ سے سامنے ناران کی عمارتیں دکھائی دے رہی تھیں ہم اسی شہر کو دیکھنے اتنی دور نکل آئے تھے مگر اس جگہ کا آب و دانہ ہمارے نصیب میں نہیں تھا۔ گلیشئر دیوار بن کر ہمارے راستے میں حائل ہوگیا تھا اور وادئ ناران دیکھنے کی حسرت ناتمام ہی رہ گئی، ہم نے اسے اللہ کی رضا سمجھا اسی کو تو بزرگ کہا کرتے ہیں" دانے پانی کا اختیار۔ "

شام ہو رہی تھی ہم نے گاڑی واپس موڑ لی ابھی فاصلہ ذیادہ طے نہیں ہوا تھا کہ بارش بھی شروع ہوگئی۔ گاڑی چلانے میں احتیاط کی وجہ سے رفتار خاصی دھیمی رکھنی پڑ رہی تھی، واپس بالاکوٹ تک پہنچنا دشوار تھا جاتے ہوئے ہم نے اسی علاقے میں بر لب سڑک ایک ہوٹل دیکھا تھا۔ اب سوچا کہ جا کر اس میں ہی شب بسری کی جائے، آہستہ روی سے چلتے ہوئے ہم اس ہوٹل تک پہنچے۔ سڑک کے ساتھ ہی لگے بورڈ پر PC ہوٹل لکھا تھا اس کا مطلب جاننے کی کوشش بھی نہیں کی کیونکہ اس وقت بھوک اور تھکاوٹ کے سوا کچھ یاد نہ تھا۔

ہوٹل کے احاطے میں گاڑی کھڑی کر کے ملک صاحب چوکیدار کے کمرے میں پتا کرنے گئے۔ دریائے کنہار کے کنارے یہ ہوٹل نیا بنا تھا اور ابھی باقاعدہ اس کا آغاز نہیں ہوا تھا لیکن وہاں موجود چوکیداروں نے ہمیں کمرہ دینے کی حامی بھر لی۔ شکر کرتے ہوئے ہم نے ضروری سامان نکالا اور کمرے میں پہنچ گئے، بھوک سے بھی برا حال تھا۔ ان لوگوں نے بتایا کہ ابھی چونکہ کچن نہیں چل رہا تھا اس لئے وہ ہمارے لئے خود ہی کوئی بندوبست کریں گے۔ میں نے سویٹر پہنا، شال اوڑھی اور ذرا باہر کا نظارہ دیکھنے پہنچے۔ دریا بالکل ساتھ بہہ رہا تھا سورج ابھی غروب نہیں ہوا تھا اس کی زرد ہوتی ہوئی کرنیں دریا کے پانی پر منعکس ہو رہی تھیں۔

ہوٹل اور دریا کے کنارے کو ایک کنکریٹ کے جنگلے نے الگ کیا ہوا تھا۔ جنگلے کے اندر کی جانب ذرا کھلی جگہ پر دائرے میں کرسیاں رکھی تھیں اور درمیان میں آگ کا الاؤ جلانے کی جگہ بنی ہوئی تھی مقصد یہ تھا کہ ہوٹل میں آنے والے مسافر آگ کے گرد بیٹھ کر دو پہاڑوں کے درمیان بہتے دریا کے خوبصورت منظر سے لطف اندوز ہو سکیں۔ اس جنگلے کے پاس کھڑے ہو کر دیکھا تو اس وقت دریا کا منظر اتنا خوبصورت تھا کہ نظریں ہٹانا مشکل لگ رہا تھا مگر ہڈیوں میں گھستی ہوئی ٹھنڈی ہوا سے باقاعدہ کپکپاہٹ طاری ہوگئی اس لئے وہاں سے ہٹ کر کمرے میں بھاگے۔

پچھلی رات کی طوفانی بارش اور گلیشیئر کے گرنے سے بجلی کی تاریں ٹوٹ کر برقی رو منقطع ہوگئی تھی۔ سورج غروب ہوتے ہی کوہساروں پر اندھیرا اتر آیا تھا۔ کمرے کے ساتھ بنے چھوٹے سے لاؤنج میں ان لوگوں نے کیروسین لیمپ اور کوئلے کی انگیٹھی دہکا رکھی تھی ہم اس کے گرد بیٹھ گئے اور کھانے کا انتظار کرنے لگے۔ شدید بھوک کے عالم میں ڈیڑھ گھنٹہ کا انتظار گویا قیامت کا انتظار تھا، اللہ اللہ کر کے کھانا آیا خالص دیہاتی انداز میں پکا ہوا دیسی مرغی کا سالن اور توے پر پکی ہوئی موٹی مگر اچھی طرح سینکی ہوئی روٹیاں تھیں۔ ہم نے کھانا شروع کیا تو مناسب نمک مرچ اور مصالحوں والا سالن واقعی مزے دار تھا یا ہمیں بہت بھوک لگی تھی یہ کھانا ہمیں ہزار نعمتوں پر بھاری لگا، سچ ہے ذائقہ بھی بھوک کا محتاج ہے۔

جب سے ہم نے دریائے کنہار کے اسیر ہو کر بالاکوٹ کا پل پار کر کے ان وادیوں کی طرف رخ کیا تھا تب سے میرے دل میں کھٹک سی تھی کہ ہم ان کہساروں میں گھوم رہے ہیں، خدانخواستہ کوئی اونچ نیچ ہو جائے تو ہمارے پیچھے کسی کو نہیں معلوم ہوگا کہ ہم کہاں ہیں۔ راستہ بھر حسین نظاروں میں اتنے گم رہے کہ کسی کو فون کر کے بھی نہ بتا سکے۔ کھانا کھا کر یاد آیا کہ فون ہی کر لیں اب دیکھا تو ہم دونوں کے فون ڈیڈ ہوئے پڑے تھے اور ہوٹل میں بجلی نہیں تھی۔ اپنا مسئلہ ان چوکیداروں کو بتایا تو انہوں نے ایک گھنٹے کے لئے جنریٹر چلایا ڈیزل کی کمی کی وجہ سے وہ ذیادہ دیر تک نہیں چلا سکتے تھے۔

ہم نے اپنے فون چارج کئے اور سندھ میں پٹارو کینٹ میں اپنی بیٹی اور داماد کو بتایا کہ ہم یہاں ہیں وہ حیران ہوئے کہ بغیر کسی پروگرام کے ہم کدھر پہاڑوں میں پہنچے ہوئے ہیں۔ بہرحال ہماری تسلی ہوگئی کہ ہمارے بچوں کو اطلاع ہوگئی ہے۔ باہر ہر طرف اندھیرا چھا گیا تھا اور اندھیرے میں پہاڑوں کی ہیبت اور دریا کا شور مل کر ماحول کو پراسرار سا بنا رہا تھا۔ کمرے میں بالکل نئے بستر اور دو دو روئی کی رضائیوں کی پہلے تو سمجھ نہ آئی مگر پھر کڑاکے کی سردی نے دو رضائیوں کا جواز سمجھا دیا۔ میں سویٹر سمیت سر پر شال لپیٹے دو رضائیوں کے نیچے دبی رات بھر سوتی رہی۔

رات گزری صبح بیڈ کے بالکل سامنے کھڑکی کا پردہ ہٹایا تو سامنے اتنا مبہوت کر دینے والا نظارہ تھا کہ بےاختیار سبحان اللہ منہ سے نکلا، کھڑکی سے باہر برف سے ڈھکی نانگا پربت کی چوٹیاں طلوع ہوتے سورج کی روشنی میں چمک رہی تھیں، ان کے نیچے پربت ابھی ملگجے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے تھے، روشنی اندھیرے کا یہ امتزاج مسحور کن تھا۔ ہم بہت دیر تک اللہ کی قدرت کا نظارہ کرتے رہے۔ گیس تو وہاں نہیں تھی ایسے گیزر تھے جن کے نیچے لکڑیاں جلا کر پانی گرم کرتے تھے۔

ہم گرم میدانی علاقوں کے باسی پہاڑی علاقوں کی ہلکی ٹھنڈ کو بھی کچھ ذیادہ ہی محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے علاقے میں تو گرم موسم چل رہا تھا احتیاط کے طور پر مظفرآباد کے لئے ایک سویٹر اور ایک شال ہی میں نے ساتھ رکھی تھی، وہاں ابھی موسم گرم ہی تھا اس کی بھی ضرورت نہ پڑی تھی اور اس جگہ کے لئے یہ گرم کپڑے نہ ہونے کے برابر تھے اس لئے ہم نے واپسی کا ارادہ اس فیصلے کے ساتھ کیا کہ آئندہ اگر ادھر آنا ہوا تو پوری تیاری کے ساتھ آئیں گے۔

تیار ہوئے تو انڈوں کے آملیٹ کے ساتھ پراٹھوں کا ناشتہ لاؤنج میں رکھا تھا، کوئلوں کی انگیٹھی سے ماحول کچھ آرام دہ تھا ناشتے کے بعد گرم چائے سے جسم میں حرارت آئی ہم نے چوکیداروں کی مہمان نوازی کا بہت شکریہ ادا کیا اور چلنے کو تیار ہو گئے۔ گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے میں ایک بار پھر دریا کنارے بنے جنگلے سے دریا کا منظر دیکھنے گئی، اس وقت سنہری دھوپ پھیل چکی تھی۔

دن کے وقت دریا کے حسن کا اور ہی عالم تھا اس پار پہاڑ کے دامن میں بنے گھر، بے تحاشا سبزے کے بیچوں بیچ بہتا دریا زمین کا یہ حصہ جنت کے کسی ٹکڑے کا گماں ہو رہا تھا۔ وہاں سے ہٹنے کو دل تو نہیں چاہتا تھا لیکن سردی نے ذیادہ دیر کھڑا ہونے نہ دیا۔ گاڑی میں سوار ہو رہے تھے تو ہوٹل کے دوسرے حصے سے نوجوان لڑکوں کا ایک گروپ آتا دکھائی دیا۔ چوکیدار سے معلوم ہوا کہ کافی رات کو یہ لوگ بھی ناران کے راستے سے واپس آ کے یہاں ٹھہرے تھے اور اب وہ بھی جا رہے تھے۔

واپسی میں ایک چھوٹے قصبے کے سڑک کنارے بازار سے ہم نے کھڈی پر بنی ہوئی مختلف ڈیزائنوں کی شالیں خریدیں جو بہت گرم اور خوبصورت تھیں۔ ہم نے یہ اپنے عزیزوں کو تحفہ میں دینے کے لئے خریدیں۔ دوکان والوں نے بتایا کہ ان کی ملک اور بیرون ملک بڑی مانگ ہے جو سیاح یہاں سے گزرتے ہیں کافی تعداد میں یہ شالیں لے کر جاتے ہیں۔ اس وقت بھی کسی بیرون ملک سے گاہک کی آرڈر کی ہوئی شالیں تیار ہو رہی تھیں۔ مجھے خوشی ہوئی کہ ہمارے ملک کی دستکاری کی بیرون ملک قدر ہے، خالص بھیڑ کی اون سے تیار شدہ یہ شالیں برفانی سردی کا توڑ ہیں۔

یہاں سڑک کنارے ایک اور بھی کاروبار ہو رہا تھا۔ پہاڑ سے اترتے جھرنوں کی نزدیکی بستیوں کے لوگ اس پانی کے آگے پائپ لگا کر آتے جاتے لوگوں کی گاڑیاں دھوتے ہیں اور مزدوری میں کچھ پیسے کما لیتے ہیں۔ کئی جگہ ان جھرنوں کے پانی کو نل کے ذریعے لوگ بوتلوں اور بڑے بڑے کنٹینروں میں بھر کر پینے کے لئے لے جا رہے تھے کیونکہ اس پانی میں کوئی آلودگی نہیں ہوتی اس کے علاوہ اس میں معدنیات کا خزانہ ہوتا ہے۔ یہ سب دیکھتے دیکھتے ہم ایک ہوٹل کے پاس رکے یہاں سردی کی شدت ذیادہ نہ تھی۔ ہوٹل کے لان سے ذرا ہٹ کے نیچے دریائے کنہار اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ موجیں اڑاتا جا رہا تھا یہاں ہم نے چائے پی کچھ فوٹو گرافی کی اور پھر چل پڑے ہمارا اگلا سٹاپ بالاکوٹ تھا۔

بالاکوٹ سے کچھ ڈرائی فروٹ خریدے، دریائے کنہار کے کنارے پہاڑ کے دامن میں بنے خوبصورت ہوٹل کا جائزہ لیا لان میں بیٹھ کر پہلے کھانا کھایا اور چائے پی۔ ہم راستے کے ہوٹلوں کا جائزہ اس لئے لے رہے تھے کہ آئندہ جب ہم اسپیشل پروگرام بنا کر اس طرف آئیں تو رہائش کے لئے کونسا ہوٹل مناسب رہے گا لیکن آج تک وہ دن تو آیا نہیں کہ ہم ایسے کسی پروگرام کا سوچ سکتے۔ ہم بالاکوٹ سے چلے تو براستہ مانسہرہ ایبٹ آباد پہنچ کر دم لیا۔

Check Also

Gandum, Nizam e Taleem, Hukumran Aur Awam (2)

By Zia Ur Rehman