Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Shahzad Malik/
  4. Ehsas e Ziyan Ab Kar Hi Lein

Ehsas e Ziyan Ab Kar Hi Lein

احساس زیاں اب کر ہی لیں

قطع نظر اس کے کہ قصور کس کا ہے اس وقت ملکی معاشی حالات جس تباہی سے دوچار ہیں۔ ان کی بحالی کے لئے حکومت کے ساتھ عوام کو بھی کوشش کرنی چاہئیے۔ جو قومیں دنیا میں باعزت ہو کر جینا چاہتی ہیں وہ اس مقام تک پہنچنے کے لئے اجتماعی جد و جہد کرتی ہیں اور بالآخر اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جاتی ہیں۔ ماضی میں دو عالمگیر جنگوں میں جاپان سمیت یورپ بری طرح تباہ ہوا تھا لیکن ان کی حکومتوں اور عوام نے مل کر اپنے ملکوں کو اس تباہی سے نکال کر جس طرح ترقی کے راستے پر ڈالا یہ تاریخ کا حصہ ہے اور دنیا کے لئے قابل تقلید بھی ہے۔

ہمارے ہاں الٹا حساب ہے ہم بہت کاہل سست اور سہل پسند قوم ہیں۔ اللہ نے اس خطے کو ہر قسم کے وسائل سے نوازا ہے لیکن ہماری حکومتوں سمیت عوام نے ان قدرتی وسائل کو ترقی دے کر آمدنی کا ذریعہ بنانے کی بجائے ان سے اغماض برتا اور قرضوں کی معیشت کو فروغ دے کر ہر چھوٹی بڑی چیز درآمد کرنے کی آسان پالیسی اپنالی۔ جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے ملکی وسائل نظر انداز کرنے سے وہ بے ثمر ہوکر رہ گئے۔

ہماری معیشت زرعی تھی جس کی وجہ سے ہم خوراک میں خود کفیل تھے کپاس نہ صرف ہماری ملکی ضروریات پوری کرتی تھی بلکہ ہم اسے برآمد کرکے زرمبادلہ بھی کماتے تھے زراعت کو جدید خطوط پر ترقی دے کر اپنی ملکی آمدنی بڑھانے کی بجائے ہم نے کھیتوں میں محنت چھوڑ کر خوراک سمیت ہر چھوٹی بڑی چیز درآمد کرکے زرمبادلہ ان پر خرچ کرنا شروع کردیا۔ اس درآمدی پالیسی نے ہماری معیشت کا توازن بگاڑ کر رکھ دیا ہے اور قرضوں کی دلدل میں ہم گردن تک دھنس چکے ہیں۔

سال ہا سال سے اسی ڈنگ ٹپاؤ روش پر چلنے کا نتیجہ موجودہ خوفناک مہنگائی کی شکل میں برآمد ہورہا ہے، اب بھی ہم سبق سیکھ کر اصلاح احوال کی کوشش کرنے کی بجائے ایک دوسرے سے دست بگریباں ہیں۔ ایک دوسرے پر دشنام طرازی انتہا تک پہنچی ہوئی ہے اور اقتدار کی کشمکش میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ آنے والے وقت کی سختیوں کا اندازہ نہیں کرپا رہے۔ بجائے اس قیامت کے مقابلے کی تیاری کرنے کے ہم آنکھیں بند کئے اس کے منتظر ہیں اہل ثروت کو اس کڑے وقت میں پیارے نبیﷺ کے زمانے کا عہد مواخات یاد رکھنا چاہئیے جب انصار مدینہ نے بے سرو سامان مہاجرین مکہ کو اپنے بھائی بنا کر ان کی مدد کی تھی اتنا نہ سہی ہم اپنی بساط کے مطابق کچھ تو اس جیسا کر سکتے ہیں۔

ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جن پر اللہ تعالی کی خاص رحمت ہے وہ کاروباری ہیں، ملازمت پیشہ ہیں، زمیندار ہیں یا صنعت کار ہیں ان کے پاس دفاتر میں یا گھروں میں کئی کئی ملازمین کام کرتے ہیں۔ اگر ہم تھوڑا احساس کرتے ہوئے ان ملازمین کے مالی حالات سے آگاہی حاصل کرکے ان میں سے مستحق لوگوں کی مالی ضروریات میں مکمل نہیں تو جزوی طور پر کچھ معاونت کردیا کریں تو ان کے لئے حالات کی سختی سے نمٹنا اتنا مشکل نہ رہے۔

یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو آپ کے دائرۂ اختیار میں آتے ہیں اور ان کی مالی حالت سے کسی حد تک ہم آگاہ بھی ہوتے ہیں۔ یہ خود ستائی نہ سمجھی جائے تو مثال ہے کہ ہمارے پاس تین مستقل ملازم ہیں ان میں سے جس کو اپنی کمائی سے ذیادہ کوئی ضرورت درپیش ہوتی ہے تو ہم اس کی مدد کر دیتے ہیں رقم اگر ہماری بساط کے مطابق ہو تو ہم اس سے واپس نہیں لیتے، ذیادہ ہو تو دو تین قسطوں میں لے لیتے ہیں، اس میں سے مناسب رقم معاف کر دیتے ہیں۔ مثلاً ملازمہ کے گھر کی چھت تبدیل کرنے میں دوسری ملازمہ کے چار سکول جانے والے بچوں کی سالانہ کتابوں اور دوسرے اخراجات میں ڈرائیور کو سال بھر کی گندم خریدنے میں اور مالی کو گھاس کٹائی کی مشین لینے میں مدد کرنے سے ان کو آسانی ہو جاتی ہے اور ہمیں ان کی دعائیں ملتی ہیں۔

صاحب خود ملازمت کرتے ہیں انہوں نے دفتر میں ایک مخصوص رقم کا فنڈ رکھا ہوا ہے جس میں سے دفتر کا چھوٹا عملہ اپنی کسی فوری ضرورت کے لئے کچھ رقم لے لیتا ہے اور مناسب وقت میں واپس کردیتا ہے تاکہ کسی اور کی ضرورت پوری ہو سکے۔ یہ رقم ہر وقت گردش میں رہتی ہے کو پیسے لے رہا ہوتا ہے کوئی واپس لوٹا رہا ہوتا ہے اس طرح ان لوگوں کی ضرورت بھی پوری ہو جاتی ہے اور ہم پر کوئی بوجھ بھی نہیں ہوتا کورونا کے دوران یہ طریقۂ کار بہت کار آمد رہا طبقۂ امرا اگر کم وسیلہ لوگوں کو سہارا دیں تو برا وقت کاٹنے میں آسانی ہوجائے گی۔

Check Also

Ameer Jamaat e Islami Se Mulaqaat (1)

By Amir Khakwani