1.  Home
  2. Blog
  3. Shahzad Malik
  4. Bache To Pyar Ke Hote Hain

Bache To Pyar Ke Hote Hain

بچے تو پیار کے ہوتے ہیں‎‎

دریائے جہلم کا پل پار کرتے ہی جہلم چھاؤنی کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔ کسی زمانے میں فوجی چھاؤنی کے بیچوں بیچ کھڑے چرچ کی برجیاں دور سے نظر آیا کرتی تھیں اب درختوں اور عمارتوں نے انہیں چھپا لیا ہے۔ اس چرچ کے ساتھ ہمارے بچپن کی بڑی خوبصورت یادیں وابستہ ہیں۔ جہلم کینٹ کے چھوٹے سے پوسٹ آفس کے ساتھ بنی چند گھروں پر مشتمل پوسٹل کالونی میں اپنے بچپن کے بے فکرے دن بتائے ہوئے ہیں۔

ہم سے دو گھر چھوڑ کر ایک کرسچئین جوڑا رہتا تھا وہ سیالکوٹ کے رہنے والے تھے۔ چچا نعمت مسیح ہمارے ابا جی کے کولیگ تھے اور خالہ سوسن گھریلو خاتون تھیں شادی کے کئی سالوں بعد بھی اولاد کی نعمت سے محروم تھے۔ ہم اس وقت تک دو بہن بھائی تھے میں اور میرا چھوٹا بھائی۔ میرا بھائی بہت پیارا تھا گورا چٹا سبز آنکھوں والا انگریزوں کا بچہ لگتا تھا۔ وہ دونوں کرسچئن میاں بیوی ہم سے بہت پیار کرتے تھے دن کا ذیادہ حصہ ہم ان کے ساتھ ہی گذارتے تھے۔ خالہ سوسن ہمیں مزے مزے کی چیزیں بنا کر کھلاتیں اور چچا نعمت ہمیں کینٹ کے پارک میں گھمانے لے جاتے۔

کرسمس کی رات وہ دونوں اپنے گھر میں خوب موم بتیاں لگاتے کھانے پکاتے۔ ہم تو وہاں ہی کھاتے پیتے مزے کرتے مگر کالونی کے گھروں میں ان کے ہاں سے خشک میوہ پھل اور مٹھائی کرسمس کے تحفے کے طور پر بھیجی جاتی۔ کرسمس کی صبح جب خالہ اور چچا کینٹ کے گرجا گھر عبادت کے لئے جانے لگتے تو شکور میرا چھوٹا سا پیارا بھائی مچل جاتا کہ ہمیں بھی لے کر جائیں وہ کچھ ہچکچاتے کہ ہمارے والدین برا نہ منائیں۔

گھرتک آنا جانا تو ٹھیک ہے مگر اب یہ عبادت خانے بھی ساتھ جائیں گے۔ ہم بچے اس بات سے بے نیاز بس ساتھ جانے کی ضد کئے جاتے آخر کار زچ ہوکر ابا جی کو اجازت دیتے ہی بنتی۔ سوسن خالہ ہمیں خوب تیار کرتیں اور ہم بڑی خوشی خوشی ان کے ساتھ جاتے گرجا کی عمارت کے بڑے ہال میں لوگ سروس کے لئے جمع ہوتے۔ ہر کسی کے ہاتھ میں چھوٹی چھوٹی کتابیں ہوتیں جن پر حضرت یسوع مسیح کی تعریف میں گیت لکھے ہوتے سب مل کر اس کتاب میں سے دیکھ کر گیت گاتے۔

ہم بھی سینے پر ہاتھ باندھے چپکے چپکے سب کے منہ دیکھا کرتے جب سروس سے فارغ ہوتے تو پادری صاحب ہمارے سروں پر ہاتھ پھیر کر دعا دیتے۔ کینٹ کے گرجا میں سروس سات سے آٹھ بجے تک ختم ہوجاتی اس کے بعد ہمیں گھر چھوڑ کر انہیں شہر والے بڑے چرچ میں جانا ہوتا تھا۔ شکور صاحب یہاں بھی شور کرنے لگتے کہ میں تو ساتھ ہی جاؤں گا۔ مجھے تو اجازت نہ ملتی مگر بھائی صاحب رو دھو کر ان کے ساتھ چل دیتے جہاں سے ان کی دوپہر کو واپسی ہوتی۔

ان دونوں میاں بیوی کا رنگ سانولا تھا، سوسن خالہ بتایا کرتی تھیں کہ ان کے ساتھ شکور کو دیکھ کر لوگ پوچھتے کہ یہ کون ہے؟ جب وہ کہتیں کہ ہمارا بیٹا ہے تو حیران ہوکر کہتے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے تم تو دونوں ہی پکی رنگت والے ہو تمہارے گھر یہ انگریز کیسے پیدا ہوگیا اور جب حقیقت معلوم ہوتی تو کہتے کہ یہ کیسے مسلمان ہیں جنہوں نے اپنا بچہ تمہارے ساتھ بھیج دیا۔ ہمارے والدین نے تو ایسی بات کبھی سوچی ہی نہ تھی بچے تو بچے ہوتے ہیں اور سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔

کرسمس کے علاوہ ہم کئی بار اتوار کو بھی ان کے ساتھ کینٹ کے چرچ میں چلے جاتے تھے۔ پادری صاحب کے ساتھ برج کی سب سے اوپر کی منزل پر جا کر گھنٹہ بھی بجا دیا کرتے تھے۔ اسی دوران ہمارا دوسرا بھائی فاروق بھی دنیا میں آگیا تو خالہ سوسن کو ایک اور ننھا منا کھلونا مل گیا ان کا بھرپور پیار ہمیں میسر تھا۔ وقت بڑا اچھا گذر رہا تھا سب بڑے خوش تھے ایسا لگتا تھا زندگی ایسے ہی گذرے گی کبھی کوئی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوگا۔

جس دن ابا جی نے اچانک اعلان کیا کہ ان کی ٹرانسفر ہوگئی ہے ان میاں بیوی پر تو جیسے بجلی ہی گر گئی۔ نعمت چچا کو بھی دھچکہ تو لگا مگر مرد تھے ذیادہ ظاہر نہ کیا مگر سوسن خالہ تو جیسے ڈھے گئیں انہیں چپ لگ گئی کبھی۔ شکور کو کبھی فاروق کو گلے لگا کر خوب روتیں اور کبھی خالی خالی نظروں سے انہیں دیکھتی رہتیں۔ ہم بچوں سے جدائی ان کا ذہن قبول ہی نہیں کرپا رہا تھا۔

ابا جی نئی پوسٹنگ کا چارج لینے اور رہائش کا بندوبست کرنے گجرات چلے گئے۔ ہمارے جانے میں ابھی کچھ دن باقی تھے وہ صبح بڑی اداس اور ویران سی تھی چچا نعمت امی کو بلانے آئے کہ سوسن کے پیٹ میں شدید درد ہے آپ اس کے پاس بیٹھیں میں کالونی کے ڈاکٹر کو لینے جا رہا ہوں۔ درد کی دوا تو ڈاکٹر نے دے دی ساتھ ہی کہا کہ یہ کسی ذہنی دباؤ میں ہیں اس ہفتے کے اختتام پر ابا جی نے ہم لوگوں کو لینے آنا تھا۔

امی سارا دن سامان سمٹنے میں لگی رہتیں اور ہم اپنے گھر اور سوسن خالہ کے گھر کے چکر لگاتے رہتے۔ ابھی ابا جی کے آنے میں دو تین دن باقی تھے کہ اس شام نعمت چچا نے بتایا کہ ہم اگلی صبح سیالکوٹ جارہے ہیں سوسن ضد کر رہی ہے کہ میں ان بچوں کے جانے سے پہلے یہاں سے چلی جانا چاہتی ہوں۔ اپنے سامنے انہیں جاتا دیکھ کر برداشت نہیں کر سکوں گی اگلی صبح وہ دونوں جانے کے لئے تیار ہوکر ہمیں ملنے آئے دونوں نے باری باری ہمیں گلے لگا کر پیار کیا۔

امی جان سے رخصت چاہی اور آنسو بہاتے ہوئے چلے گئے پھر کبھی نہ ملنے کے لئے کرسمس جب بھی آتی ہے مجھے وہ بہت یاد آتے ہیں وہ جہاں بھی ہوں شائد اب اس دنیا میں بھی نہ ہوں، اللہ ان کی روحوں کو پرسکون رکھے۔ ان سے ہمارا کوئی رشتہ نہ تھا نہ خون کا نہ مذہب کا بس انسانیت کا اور پیار کا رشتہ تھا جو اتنی عمر گذرنے کے بعد بھی بھلائے نہیں بھولتا۔

Check Also

Khari Jharoo, Darbe Mein Billi, Sufaid Chadar

By Azhar Hussain Azmi