1.  Home
  2. Blog
  3. Shahzad Malik
  4. Awam Ka Naseeb Nahi Badlega

Awam Ka Naseeb Nahi Badlega

عوام کا نصیب نہیں بدلے گا

ہمارے شعور نے جب ذرا سی آنکھ کھولی تو ایوب خان کا زمانہ تھا۔ شروع کا وقت تو ہمیں ذیادہ یاد نہیں مگر اس عشرے کے آخری سالوں کے حالات کی کافی حد تک شد بد ہے۔ پاکستان میں تربیلا ڈیم بن رہا تھا کارخانے لگ رہے تھے، مختلف ممالک سے تجارتی معاہدے ہورہے تھے۔

ایوبی دور کا عشرۂ ترقی منایا جارہا تھا اسی دوران 65 کی جنگ بھی ہوئی جس کی وجہ سے قوم میں جذبۂ حب الوطنی آسمان کی بلندیوں تک جا پہنچا، پھر جانے کس کی نظر لگ گئی ایوب خان کے ساتھیوں میں سے ہی ایک ذوالفقار علی بھٹو اٹھے اور ایک زبردست تحریک چلا کر ایوب خان کو اقتدار سے بے دخل کردیا، مگر ساتھ ہی اقتدار سول ہاتھوں میں جانے کی بجائے مارشل لا لگ گیا۔

فوج نے الیکشن کرائے مگر نتائج تسلیم نہ کئے جانے کی وجہ سے ملک کا دایاں بازو کٹ گیا، بچے کھچے ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والے اپنی گرفت مضبوط نہ رکھ سکے اور اقتدار پھر فوج کے ہاتھ میں چلا گیا۔ فوجی حکمران نے اپنی حکومت کا جواز پیدا کرنے کے لئے مجلس شوری اور غیر جماعتی الیکشن جیسے تجربے کئے اور خرابی یہاں سے شروع ہوئی۔

غیر جماعتی قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین اپنے اپنے علاقوں کے معززین تھے جو ہمیشہ الیکشن جیتتے رہے تھے ان کے حلقوں میں ترقیاتی کام کرانے کے لئے ان میں ترقیاتی فنڈز تقسیم کرنے کی ریت یہیں سے شروع ہوئی اور انہیں فنڈز میں خرد برد کی عادت پڑی۔ چونکہ اراکین اسمبلی باقاعدہ کسی پارٹی کے رکن نہیں تھے اس لئے اپنی کرپشن کے لئے کسی کو جواب دہ نہیں تھے حکومت وقت بھی ان کی ہمدردیاں اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کے لئے ان کی باز پرس نہیں کرتی تھی۔

اس طرح یہ ارکان اسمبلی ترقیاتی فنڈز پر اپنا حق سمجھنے لگے بظاہر تو یہ غیر جماعتی ارکان تھے مگر ان کی اکثریت مختلف جماعتوں میں سے ہی آئی تھی جب سیاسی جماعتیں بحال ہوئیں تو پارٹیوں سے آئے ہوئے لوگ واپس اپنی پارٹیوں میں لوٹ گئے مگر اس تبدیلی کے ساتھ کہ ان کے منہ کو ترقیاتی فنڈز کا ذائقہ لگ چکا تھا۔

چونکہ یہ الیکشن ہارتے نہیں اس لئے یہ سیاسی پارٹیوں کی ضرورت بن گئے، اب حکومت کسی جماعت کی بھی ہو ان کبھی نہ ہارنے والے الیکٹیبلز کو ٹکٹ دینا اور حکومت بن جانے کی صورت میں انہیں وزارتیں اور ترقیاتی فنڈز دینا ایک ایسی مجبوری بن چکی ہے کہ جس کو یہ لالچی اور حریص لوگ اپنے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

ان فنڈز کو اپنے حلقوں کی فلاح پر خرچ کرنے کی بجائے اپنے ذاتی مفادات پر خرچ کرتے ہیں نہ صرف ترقیاتی فنڈز بلکہ مختلف محکموں اداروں حتی کہ ضروریات زندگی کے ہر شعبے سے اپنی ہوس زر پوری کرتے ہیں۔ ادھر کچھ برسوں سے یہ بد طینت لوگ ہوا کا رخ دیکھ کر بھاری مالی فائدے کے عوض اپنی پارٹی چھوڑ کر اقتدار میں آنے والی ممکنہ پارٹی کو اپنی وفاداریاں فروخت کردیتے ہیں۔

ان دنوں بھی یہی تماشا لگا ہوا ہے ایک شوروغوغا اور افرا تفری مچی ہوئی ہے جنہوں نے کل ان ابن الوقتوں کو خریدا تھا انہوں نے نہیں سوچا تھا کہ وہ کن کھوٹے سکوں کا سودا کر رہے ہیں اور جو آج ان کی بولی لگا رہے ہیں وہ آنے والے کل کا نہیں سوچ رہے۔

جب تک گھوڑوں کی خرید و فروخت کا یہ سلسلہ چلتا رہے گا سیاست کا گند صاف نہیں ہوگا اور اس ملک کے عوام کا نصیب نہیں بدلے گا وہ یونہی بد حال رہیں گے۔

Check Also

Abba Jan Ki Hisab Wali Diary

By Mohsin Khalid Mohsin