Sunday, 29 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Three Not Three (2)

Three Not Three (2)

تھری ناٹ تھری (2)

میری جان حیات اس سلسلے میں تم جو کچھ بھی کر سکتی ہو جلد از جلد کرو کہ وقت ہاتھوں سے نکلا جا رہا ہے۔ یہ لوگ میرے ساتھ چوہے بلی کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ مجھے میری بے گناہی کی اور کتنی سزا جھیلنی پڑے گی؟ بریگیڈیئر کے بہنوئی کی رشوت قبول نا کرنا میرا نا قابل معافی جرم ٹھہرا۔ نہ جانے اپنے اصولوں کی پاسداری کی اور کتنی قیمت چکاؤں گا میں؟ مجھ سے انہوں نے میرا نام اور مان سب چھین لیا، کس کو خبر نہیں کہ ہماری جدائی کتنی طویل ہے۔

میں تو شاید نہ آ سکوں تم بچوں کی چھٹیوں پر انہیں لیکر پاکستان آ جانا مگر یاد سے واپسی کی ٹکٹوں کی کنفرم بکنگ کے ساتھ کہ یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ جانے اب کب ملنا ہو یا؟

10 اکتوبر 1970۔

ہمارے واسطے یہ رات بھی مقدر تھی

کہ حرف آئے ستاروں پہ بے چراغی کا

لباس چاک پہ تہمت قبائے زریں کی

دل شکستہ پہ الزام بد دماغی کا۔

اس کے آگے ڈائری خالی تھی اور اس کے کور میں حفاظت سے کچھ تصویریں رکھی ہوئی تھیں۔ چار پانچ تصاویر جن میں ہنستے کھیلتے خوبصورت بچے اور ان کی کامنی سی ماں تھی۔ وہ تصاویر بہت ہی خوب صورت اور خوش باش فیملی کی آئینہ دار تھیں۔ ایک اکیلی تصویر جو کسی بہت ہی خوب صورت عورت کی تھی۔ پیار لٹاتی نشیلی آنکھیں اور قاتل مسکراہٹ والی بلا شبہ قدرت کا شاہکار۔ اس تصویر کی پشت پر لکھا تھا۔

آپ کی، صرف اور صرف آپ کی۔

اسی تحریر کے نیچے انگریزی میں سرخ روشنائی سے لکھا ہوا تھا۔

۔ The Kristine Keeler of Karachi

میں ڈائری گود میں رکھے کئ لمحوں تک گم سم رہی پھر میں نے گوگل پہ سرچ کیا جہاں حیرت کا ایک جہان میرا منتظر تھا۔ اخبار کی شہ سرخی میں موصوف کی خودکشی کی خبر تھی اور یہ سارا سانحہ اسی اینکسی میں پیش آیا تھا یہ پڑھ کر میں سہی معنوں میں کپکپا کر رہ گئی۔ میرے سامنے اسکرین پر ایک ضخیم فائل کھلی پڑی تھی۔ عینی شاہدین کے بیانات، وکلاء کی جراح، وقوع کی ترتیب یا ٹائم لائن اور اخبارات کے تراشے۔ ان سب کو تفصیل سے پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ ان میں کچھ مسنگ تھا، جیسے کوئی کڑی ٹوٹی ہوئی ہے اور واقعات میں جھول ہے۔

کئی دن میرا جی اداس اور ذہن الجھا رہا پھر میں نے فیس بک پر اس بچی کو ڈھونڈنے کی سعی کی جو اب خود بھی نانی دادی بن چکی ہو گی۔ اور۔ اور۔ لو اینڈ بی ہولڈ۔ مجھے وہ مل گئی۔ میں نے اسے بتایا کہ مجھے اینکسی کے اسٹور روم سے اس کے والد کی ڈائری ملی ہے اور اب یہ بطور امانت میرے پاس ہے۔ میں نے اس سے کیس پر بات کرنے کی کوشش بھی کی کہ میرا ذہن اسی کیس کے ادھیڑ بن میں مصروف رہتا تھا۔

ڈائری کے لیے اس نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ جب بھی اس کا کراچی آنا ہوا وہ اپنی امانت لے لے گی پر کیس پر بات کرنے سے معذرت کر لی۔ اور میں کلیجہ مسوس کر رہ گئی گویا ایک پھانس تھی جو سینے میں گڑی رہ گئی۔ میں نے اس سے رابطے میں رہنے کی کوشش کی اور گاہے بگاہے اسے میسنجر پر چھوٹے موٹے میسجز بھی کئے پر دوسری جانب ایک مستقل خاموشی تھی، جو اپنے آپ میں واشگاف جواب۔

دو سال بعد۔

ابھی تین ہی دن پہلے کی بات ہے کہ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میرے ان باکس میں اس کا مختصر سا میسج جگمگا رہا تھا۔

۔ I am in Karachi and I want to see you

کل سہہ پہر وہ اینکسی کے ڈرائنگ روم میں میرے سامنے بیٹھی تھی۔ عین مین ویسی ہی پر وقار اور سہج سہج بولتی ہوئی جیسا کہ میرے ذہن نے اسے تصویر کیا تھا۔ گزرتا کٹھن وقت پیشانی کی لکیروں سے ہویدا اور چہرے پہ حزن کی گہری چھاپ کہ وہ سات سمندر پار سے اپنے باپ کی برسی میں شرکت کرنے آئی تھی۔ میں نے اسے اس کی امانت لوٹا دی۔ ڈائری کو نرمی سے سہلاتے ہوئے اس کی نیلگوں سرمئی آنکھوں سے ٹپکتا ایک آنسو بوسیدہ چرمی ڈائری کے کور میں خاموشی سے جزب ہو گیا۔ کھڑکی کے باہر زرد اداس دھوپ بھی گویا اسے پرسہ دینے کے لیے سکدم تھی اور اندر ڈرائنگ روم میں بھی فضا سخت بوجھل جیسے بھرے دل۔

اس نے چائے کی کپ سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے اس گپ چپ خاموشی کو توڑا اور کہا کہ میری اردو اتنی اچھی نہیں، کیا ہم انگریزی میں بات کر لیں؟

جی بالکل! آپ جیسے کمفرٹیبل ہوں۔ میں نے نرمی سے جواب دیا۔

اس نے لمحوں کی خاموشی میں گویا اپنی گمشدہ ہمتوں کو یکجا کیا اور دھیمی آواز میں شستہ انگریزی میں کہنا شروع کیا کہ آپ نے اس کیس کے متعلق بات کرنی چاہی تھی اور کئی سوالات بھی اٹھائے تھے۔ میں معذرت خواہ ہوں کہ چاہ کر بھی جواب نہ دے سکی۔ یقین کیجیے اپنے پیاروں کی موت کے متعلق بات کرنا بہت دشوار ہوتا ہے، خاص کر جب ان کے ساتھ controversy بھی نتھی کر دی گئی ہو۔

جب ڈیڈی اس جہاں سے گزرے تو میں کم سن تھی اور پاکستان سے بہت دور بھی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ آخر ہو کیا رہا ہے؟ ظاہر ہے ممی ہم دونوں بھائی بہن کو بہت کم باتیں بتاتی تھیں۔ جب میں شعور کو پہنچی تو اپنے چچا سے پوچھا اور ڈیڈی کے دو ایک قریبی دوستوں سے رابطہ کیا اور میونخ کی سنٹرل لائبریری جا کر پاکستانی اخبارات کھنگالے اور ان سب سے حاصل ہونے والی معلومات نے مجھے ایک حیرت آمیز دکھ سے روشناس کیا۔

اخبارات ڈیڈی کے لیے منفی خبروں سے بھرے پڑے تھے اور یہ ثابت کرتے تھے کہ ڈیڈی نے ان خاتون کے عشق میں جان دی تھی مگر میں یہ کیسے مان لوں؟ میری یادداشت میں ڈیڈی کی مما سے والہانہ محبت نقش ہے۔ ہم چاروں ایک بہت خوش باش فیملی اور آپس میں کلوز ریلیشن رکھتے تھے۔ ان تمام واقعات میں بہت کچھ ایسا تھا جس کی کھوج کی جانی چاہیے تھی، ان پر جرح ہونی چاہیے تھی۔

اس نے ڈائری سے اپنی پرانی تصویریں نکالی اور انہیں نظر بھر کر دیکھا۔

سب سے پہلا سوال تو میرے باپ کی ناجائز معطلی پر ہی اٹھتا ہے۔ ان کی پچھلی پوری سروس کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں بالکل بے داغ ہے۔ کہیں کوئی ہیرا پھیری نہیں، عہدے کا نا جائز استعمال نہیں، پھر ان پر یہ الزام کیوں اور کیسے لگا؟ ہمارے پاس اثاثے تو چھوڑئیے اپنی چھت تک نہ تھی۔ پھر وہ کیسے ناکارہ کرپٹ آفیسر تھے جو کچھ جوڑ ہی نہ سکے؟

اگر کیس کی بات کریں تو اس میں بے شمار جھول ہے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ قتل کو خودکشی سے کور کیا گیا ہے اور مقتول کو پھنسانے کی سازش کی گئی ہو۔ مثلاََ جائے وقوع پر موجود کافی کی دونوں پیالیاں پولیس والوں نے جائے واردات سے اٹھا کر دھو ڈالیں اور انہیں سنک میں رکھ دیا جبکہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موت کی وجہ زہر خورانی لکھی تھی، پھر اتنا بڑا ثبوت کیوں تلف کیا گیا؟

کمرے میں چیزیں الٹی پڑیں تھیں اور ہر طرف کاغذات بکھرے ہوئے تھے اور کمرے میں تشدد کے آثار تھے، فرنیچر الٹے پڑے تھے اور ٹیلی فون کا تار ڈیڈی کے بازو میں لپٹا ہوا تھا اور بستر پر اور ان کے جسم کے نیچے نیفتھلین کی گولیاں بکھری پڑی تھیں۔ ڈیڈی کی ناک سے بہتا ہوا خون چادر پر ایک بڑا دائرہ بناتا ہوا جم چکا تھا اور تکیہ اور بستر کی چادر پر بھی خون کے چھینٹے تھے۔

مہمان بی بی جو دوسرے کمرے میں بے ہوش پڑی تھیں ان کا ہینڈ بیگ موقع واردات سے غائب کر دیا گیا تھا۔ اس تمام کیس میں مہمان بی بی کا کردار، جو سوسائٹی میں شمع محفل کے طور پر جانی جاتی تھیں، کیا قابل تفتیش نہ تھا؟

ہاں! یہی سب پڑھ کر تو میں حیران ہوں کہ کیس کے اہم ترین شواہد تو پہلے موقعے پر ہی ضائع کر دیئے گے۔ جب یہ باتیں مجھ جیسے عام انسان کو کھٹک رہی ہیں تو تفتیش کرنے والے کیا گھاس کھود رہے تھے؟

میں اپنی حیرت نہ چھپا سکی اور بے اختار بول پڑی۔

اسمگلروں کا ایک بڑا گروہ جس کو بیوروکریسی کے کچھ افسران اور پولیس کی پشت پناہی حاصل تھی ان سے مہمان بی بی کے گہرے اور خصوصی تعلقات۔

کیا یہ تعلق پولیس کو الرٹ کرنے کو کافی نہ تھا؟

ایک اخبار نے یہ سرخی بھی لگائی تھی کہ

" کیا ڈپٹی کمشنر کو اس لیے مار دیا گیا کہ وہ ایک بین الاقوامی اسمگلروں کے گروہ کی سرگرمیوں سے آشنا تھے؟"

اس نے پرس سے پیلے پڑتے پرانے اخبار کا تراشہ نکال کر مجھے دکھایا۔

جب ان بی بی کی انتیس ستمبر انیس سو ستر کو لندن سے کراچی واپسی ہوئی، لندن جہاں وہ ملک کے ایک بہت بڑے صنعت کار جو خیر سے کھیلوں کے شعبے کے بہت اعلیٰ افسر بھی تھے کہ ساتھ ہلٹن ہوٹل میں فروکش تھیں۔ 29 ستمبر کو اس تفریحی دورے کی واپسی پہ کراچی ائیر پورٹ پر ان کا استقبال کرنے والوں میں سول سرونٹ اور پولیس کے اعلیٰ عہدیدار بھی شامل تھے، جنہوں نے پلک جھپکتے میں ان بی بی کا سامان کسٹم سے کلیر کروا دیا۔

کیا یہ باتیں یہ ثابت نہیں کرتیں کہ ڈیڈی کو فریم کیا گیا تھا؟

میں خود حیران ہوں کہ اس معاملے کی اعلیٰ سطح پر چھان بین کیوں نہ کی گئ؟

میں نے ٹشو کا ڈبہ اس کے قریب رکھتے ہوئے کہا کہ اس کی لہو رنگ آنکھیں برسنے کو تیار تھیں۔

مہمان بی بی کی تصویر پر سرخ روشنائی سے

The Kristine Keeler of Karachi

لکھنا کیا بہت گہرا اور واضح اشارہ نہ تھا؟

سب سے اہم ڈیڈی کا مما کے نام آخری خط جس میں انہوں نے واضح طور پر لکھا تھا کہ مجھے ابھی تک ناکردہ جرم کی سزا دی جا رہی ہے۔ ایک افسر اعلیٰ جو برگیڈیئر کے بہنوئی تھے، ان کی رشوت کی پیشکش کو ٹھکرانا، ان کے نا جائز کام سے انکاری ہونا اور اسمگلروں کے ایک consignment کو روکنا، ڈیڈی کا سب سے بڑا جرم ٹھہرا۔ اس کیس میں بہت سارے سوالیہ نشان ہیں۔

اس کیس کی تشہیر عشق میں ناکامی کے باعث ڈپریشن کے ہاتھوں خود کشی کی شہ سرخی کے ساتھ کی گئی۔ ایک فرض شناس آفیسر کو فریم کیا گیا، پھنسایا گیا اور انصاف نے آنکھوں پر پٹی باندھ لی۔ واقعی قانون اندھا ہے۔ اس ملک کی بدنصیبی کہ یہاں کبھی فرض شناس بیٹوں کی قدر نہیں کی گئی۔ یہاں جھوٹ پنپتا ہی نہیں بلکہ خوب پھلتا پھولتا ہے۔ میں آج بھی اپنے مظلوم باپ کے فیر ٹرائل کی منتظر ہوں، یقیناً احمقوں کی جنت ہی میں ہوں۔ ڈیڈی نے اپنے قتل کی پیشنگوئی تو پہلے ہی کر دی تھی۔

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

مگر یہ بھی تو سچ ہے کہ

جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا

میں منتظر ہوں اس منصف صبح روشن کی۔

اس نے اپنی برستی آنکھیں بےدردی سے ٹشو سے رگڑیں۔

اور میں نم دیدہ، مہر بلب اس بیٹی کا کرب محسوس کر رہی تھی جس کا باپ نہ جانے کب تک اپنی نیک نامی کی صلیب اٹھائے انصاف کا منتظر رہے گا۔

Check Also

Markhor, Vego Aur Jahaz

By Saleem Zaman