Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Three Not Three (1)

Three Not Three (1)

تھری ناٹ تھری (1)

تیس سالوں کے بعد میں اپنی سسرال لوٹ آئی تھی۔ جو سچ کہوں تو میں تو اس واپسی کہ حق میں نہیں تھی کہ میں دیار غیر میں اپنے دونوں بیٹوں کے قریب رہنے کی آرزو مند تھی۔ ماں ہونا بھی کتنا کٹھن ہے نا! حالانکہ وہ کل کے بچے جو سوتے ہوئے بھی میرا پلو نہیں چھوڑتے تھے وہ اب کئی کئی دن سیل فون کا بٹن پریس کر کے ماں کی خیر خبر بھی نہیں لیتے پر ممتا کا کیا کیا جائے کہ دل ادھر ہی ہمکتا ہے۔ بیوقوف دل نہ تو دودھ کا حساب مانگتا ہے اور نہ ہی خدمت کی جزا۔

قیصر میرے سر تاج من پاکستانی سفارت خانے میں درمیانے درجے کے ملازم تھے۔ ان سے میری ملاقات جکارتہ میں پاکستانی سفارت خانے میں عید ملن پارٹی پہ ہوئی تھی اور وہ تقریب ہمارے ملن کی نوید ٹھہری۔ ان کی پوسٹنگ کے صدقے میں نے خاصہ ایشیا و افریقہ دیکھ ڈالا، رنگ رنگ کے لوگ اور طرح طرح کے رسم و رواج مگر یقین کیجیے بنی آدم کے دکھ سکھ کل عالم میں یکساں۔ اس میں کوئی تغیر و بہتری نہ ملکی سرحدیں لا سکیں اور نہ ہی مذہب اور ذات برادری۔

قیصر کی آخری پوسٹگ فن لینڈ میں تھی، اگرچہ ہم لوگ وقفے وقفے سے پاکستان آتے رہے مگر قیصر ہمیشہ سے کسی بیرونی ملک ہی میں مستقل سکونت کے حامی تھے۔ دونوں بیٹے بھی پڑھنے باہر گئے تو وہیں کے ہو گئے اور اب وہیں کے شہری ہیں۔ ان کے ناطے ہم لوگوں کے لیے بیرونی ملک کی رہائش ممکن تھی، پر جانے آخری دنوں میں قیصر کے سر پر کیا سودا سمایا کہ انہوں نے پاکستان کی رٹ لگا لی۔

میں نے بہت زور لگایا کہ وہ اس ارادے سے بعض رہیں پر نا جی مرد اپنی ہٹ کے پکے۔ اس معاملے میں ہم عورتیں تو عبث ہی بدنام ہیں۔ خیر مجھے ہتھیار یوں بھی ڈالنا پڑا کہ دو سال پہلے میاں جی کا دل چلتے چلتے رک گیا تھا، بس وہ تو اللہ تعالیٰ کو مجھ بے بس پر رحم آ گیا اور میری اکلوتی پونجی یعنی میرے میاں کے بوڑھے شکستہ دل کو دوبارا مجھے لوٹا دیا۔ آپ کو ایک راز کی بات بتاؤں؟ ماں بچوں کے لیے بے قرار رہتی ہے مگر عورت شوہر سے وفادار۔

یہ جو میاں بیوی اور بچوں کی مثلث ہے بڑی ہی جان لیوا اور عورت کے لیے سخت کٹھن و دشوار۔ بس عورت دونوں کو خوش رکھنے کے جتن میں ساری عمر کسی ماہر نٹ کی طرح تنے ہوئے رسے پر چلتی رہتی ہے۔ خیر پیار کی یہ بازی سرتاج من جیت گئے اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے ہمراہ پاکستان آنے پر مان گئی مگر اس شرط کے ساتھ کہ اگر چھ ماہ تک یہاں میرا دل نہیں لگا اور طبیعت نے میل نہیں کھایا تو بڑے بیٹے کے پاس سڈنی واپس۔

چھوٹے کے پاس تو یوں بھی نہیں رہ سکتی کہ جہاں وہ رہتا ہے وہاں چھ ماہ سورج ڈوبتا نہیں اور اگلے چھ ماہ نکلتا نہیں۔ وہاں تو میرا پاکھنڈی فشار خون بڑا فساد مچاتا اور دل افسردگی کی دھند میں ڈوب ڈوب جاتا ہے۔ سڈنی البتہ طبیعت اور مزاج دونوں کو معتدل رکھتا۔ قیصر پردیس کی خاک چھان چھان کر اوبھ چکے تھے سو کہنے لگے کہ نہیں مجھے انجان مٹی میں دفن نہیں ہونا۔

ساری عمر پردیس میں بتانے کے بعد اب انہیں کراچی کے بپھرے سمندر، گرمیوں کی حبس بھری دوپہر اور شفق رنگی شاموں کی نمکین ہوا نے بے قرار کر دیا تھا۔ وہ شدت سے نوسٹیلجیا میں مبتلاء تھے اور کسی ٹین ایجر عاشق کی طرح اپنے معشوق کے ہجر میں رنجیدہ اور ملن کے لیے آب دیدہ۔ مجھے اپنے جکارتہ کو کہیں بہت بہت پیچھے چھوڑنا پڑا کہ جہاں پیا وہیں جیا۔

کراچی میں ہمارا کوئی ٹھور ٹھکانہ تو تھا نہیں اور کسی بھائی کے ساتھ رہنا قیصر کو گوارا نہیں۔ ابھی ہم دونوں رہائش کے سلسلے میں متفکر ہی تھے کہ قیصر کے بہت پرانے دوست محمود بھائی جو کہ اب دنیا میں نہیں رہے ان کے لائق بیٹے مسعود نے یہ مسئلہ نہایت خوش اسلوبی سے حل کر دیا۔ ان لوگوں کی کوٹھی کراچی کے ڈی اے اسکیم نمبر ون میں عرصے سے خالی پڑی تھی، جس کی دیکھ بھال محمود بھائی کے زمانے میں موجود چوکیدار کا پوتا کرتا ہے۔

مسعود نے بصد اصرار ہم لوگوں کو وہیں رہنے کا کہا اور شیر باز کو ہم لوگوں کے آنے کی خبر دے دی۔ ایئرپورٹ کے کالے شیشوں کے باہر کراچی کی نمناک رات نے اپنے بچھڑے بیٹے کا گلے لگا کر سواگت کیا اور ہم اوبر میں بیٹھ کر دھندلاتے ستاروں اور برقی قمقموں کی مصنوعی جگمگاہٹ کے درمیان سفر کرتے ہوئے، مٹتے نقوش اور رنگ اتری چاردیواری پر مشتمل اداس کوٹھی کے زنگ آلود پھاٹک پر اوبر سے باہر آئے، جہاں کمسن پٹھان چوکیدار اپنی روایتی مستعدی سے چوکس کھڑا ہمارا منتظر تھا۔

صبح میں نے کوٹھی کا تفصیلی جائزہ لیا اور قیصر کو اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا کہ کوٹھی ہماری ضرورت سے بہت زیادہ بڑی ہے سو ہم لوگ کوٹھی سے ملحق اینکسی میں منتقل ہو جائیں گے۔ مجھے کاٹیج کے طرز پر بنی اینکسی پہلی نظر میں بھا گئی تھی، اوپر دو بیڈ روم اور نیچے ایک کشادہ ڈرائینگ روم، اسٹڈی اور بڑا سا روشن ہوا دار کچن اور کچن کی مغربی دیوار میں باغ کی جانب کھلتی کھڑکی جس کے ساتھ لگی دو آدمیوں کی ڈائننگ ٹیبل، بالکل پکچر پرفیکٹ۔

یہ اینکسی ہمارے لئے آئیڈیل تھی۔ باغ فلحال اجڑا ہوا تھا، خیر دیکھا جائے گا کہ اس کا کیا کرنا ہے۔ میں شیر باز کے ساتھ مل کر اینکسی کی صفائی ستھرائی میں جت گئ اور مہینے بعد یوں لگا جیسے جنموں جنم سے یہیں رہتے آئے ہیں۔ اینکسی کا ایک مقفل دروازہ جس پر ایک کہنہ تالا جھولتا رہتا تھا پہرو مجھے متجسس رکھتا۔ آخر کار میں نے مسعود سے اجازت لیکر اس اسٹور کو کھولا جہاں کچھ بہت پرانے فرنیچر اور کتابوں کے کارٹن تھے۔

وہاں سے ایک قدرے بہتر حالوں میں روکنگ چئیر اور کتابوں کے کارٹن کی تلاشی پر کچھ کتابیں اور ایک بوسیدہ چمڑے کی بھوری پڑتی جلد والی ڈائری اٹھا لائی۔ گزشتہ کل برستی بارش کی مدھر رم جھم میں برآمدے میں روکنگ چئیر پر جھولتے ہوئے گرما گرم بھاپ اڑاتی کافی کے ساتھ میں نے کسی مقدس صحیفے جیسی عقیدت کے ساتھ بھوری بوسیدہ چرمی ڈائری کھولی، اور میرے سامنے دھندلے اور کہیں کہیں سے مٹے الفاظ میں مختلف تاریخوں میں روداد دل تحریر تھی اور نیلے لفافوں میں کچھ ذاتی خطوط اور دو آفیشل خط بھی۔

خوشنما تحریر ہجر کے سوز میں سلگتی، نا انصافی پہ نوحہ کناں تھی۔ جگر تھام کے آپ بھی میرے ساتھ ساتھ پڑھیں۔

20 مئی 1970۔

میرے خدا میری سمجھ سے یہ معمہ بالاتر ہے۔ یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ اس سے بھی بڑا اور مہیب سوال کے کیوں ہو رہا ہے؟ میں نے اپنی تمام سروس میں ایمان داری کو ترجیح دی اور راست بازی کو پہلا اصول رکھا، میری سروس کے ٹریک ریکارڈ اس بات کے گواہ ہیں کہ میں نے ہمیشہ ملکی مفاد کو مقدم رکھا۔ مری پچھلی تمام سروسز مری، سیالکوٹ، منٹگمری، ڈیرہ غازی خان اور جہلم سب میری صلاحیتوں اور شب و روز کی محنتوں اور کاوشوں کے گواہ ہیں پھر اب لاہور میں ایسا کیا کر دیا میں نے؟

پچھلے سال ہی تو مجھے تمغہ قائداعظم سے نوازا گیا تھا۔

اب اس جرنیلی دور میں جب قانون کی گرفت زیادہ مضبوط ہونی چاہیے تھی ایک ناجائز کام کو روکنے اور بریگیڈیئر کے بہنوئی کی رشوت قبول نہ کرنے کی پاداش میں اس بد ہیبت اور زندہ پھڑکتے تھرکتے گوشت کے شیدا اور ساغر و مینا کے رسیا جرنیل نے مجھے معطل کر دیا۔ معطلی بھی بد عنوانی کے الزامات کے ساتھ۔ نیا نیا مارشل لاء تھا اور تازہ تازہ کرسی کے نشے میں مدہوش اس نشئ نے بیک جنبشِ قلم 303 بیوروکریٹ کو برطرفی کا پروانہ پکڑا دیا۔

میں نے انیس سو پچاسں میں ہندوستان سے خالی ہاتھ ہجرت کی اور پاکستان میں کسی بھی قسم کی جائداد کلیم نہیں کی۔ پاکستان کی خدمت کے جذبے سے سرشار یہاں اپنی ذہانت اور محنت کے بل پر مقابلے کا امتحان پاس کیا اور اسسٹنٹ کمشنر اور پھر ڈپٹی کمشنر تعینات ہوا۔ اب میری ذات کا سارا مان اور بھرم بھاری جرنیلی بوٹ تلے کچلا گیا اور آج میں کرپٹ اور بدنام آفیسر گنا جاتا ہوں۔

21 مئ 1970۔

تو بھی نہ کہیں اجڑ کر رہ جائے

وحشت میں بدل نہ جائے دستور

اے ملک تیرے بہت سے شہری

بن باس پہ ہو نہ جائیں مجبور۔

5 جون 1970۔

میرا بھیانک سفر جاری ہے، جسے میں کسی اندھیری سرنگ میں ہوں جہاں روشنی کی کوئی کرن نہیں۔ یہ خیال مجھے رات دن ڈستا ہے کہ میں کسی کام کا نہیں اور یہ تصور ہی روح کا آزار ہے۔ مانو کہ ایک میخ ہے جو سینے میں گڑی ہے۔ مجھے اپنی زندگی کا مقصد سمجھ میں نہیں آ رہا اور میں عرصے دراز سے اپنی تنہائی کا قیدی ہوں۔

29 جولائی1970۔

جان پدر۔

تمہارے اسکول کے ساتھیوں کے تعارف اور تمہاری سائیکلنگ کی مشق کی روداد نے مزہ دیا۔ مجھے تم تینوں کی جدائی بہت شاق ہے اور تم تک پہنچنے کا شدت سے تمنائی۔ سوچو وہ کیسا خوشیوں بھرا دن ہو گا جب ہم ماضی کی طرح اکٹھے ہوں گے۔ تمہاری مما بتا رہی تھیں کہ جرمن زبان کے مضمون میں تمہاری تئیس غلطیوں کی نشاندھی کے سبب تم پہروں دھاروں روتی رہی۔ جان پدر بھلا یہ کوئی رونے کی بات ہے؟ نئی زبان سیکھنا ایک دقت طلب امر ہے اور یہ کڑا صبر اور کامل لگن مانگتا ہے۔

یہ کیا کم خوشی کی بات ہے کہ تم نئ زبان سیکھ رہی ہو اور جلدی ہی اپنے بل بوتے پر نئے افق کی اڑان بھرو گی۔ اداس مت ہو میری پیاری بلکہ پوری بہادری کے ساتھ جس کا تم تینوں نے اب تک مظاہرہ کیا ہے، اسی ہمت کو بروے کار لاتے ہوئے خوش رہو بلکہ چڑیا کی طرح مگن چہچہاؤ، خوش گوار نکھرے دن کے سورج کی طرح روشن اور اٹکھیلیاں کرتی ہواؤں کی طرح سرشار رہو۔ میری جان غلطیوں پر رویا نہیں کرتے بلکہ پوری قوت سے ان سے نبردآزما ہو کر فتح یاب ٹھہرو۔

14اگست 1970۔

کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوار وطن

کبھی کبھی تجھے تنہائیوں میں سوچا ہے

تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو

8 اکتوبر 1970۔

میری پیاری۔

حیات کے اس گھور اندھیرے میں، میں تمہیں اور صرف تمہیں ہی سوچ رہا ہوں اور حیران ہوں کہ مقدر ہمارے ساتھ کیا کھیل کھیلنے والا ہے۔ اب جبکہ میں خوش گمان تھا کہ مجھے وطن سے سفر کرنے کی اجازت مل جائے گی اور جدائی کی یہ کٹھن طویل رات ڈھل کر صبح وصال کی پر نور گھڑی ہمارا مقدر ہو گی تو مجھے سی ایم ایل ہیڈ کوارٹر سے یہ شاہی فرمان موصول ہوا کہ انہیں تمہاری بیماریوں سے متعلق وہاں کے ڈاکٹر کا تصدیق نامہ چاہئے کیونکہ میں نے اپنی درخواست میں انہیں تمہاری بیماری کے متعلق بتایا تھا۔

کیا میونخ میں کوئی پاکستانی کونسلیٹ ہے جہاں تم جلد از جلد اپنی بیماری کا تصدیق نامہ جمع کرا سکو؟ مجھے کامل یقین تھا کہ میں جلد ہی تم لوگوں کے پاس ہوں گا مگر اب سب کچھ بہت دور ہوتا محسوس ہو رہا ہے اور میرے ہاتھوں سے امید کی ڈور چھوٹتی جا رہی ہے۔ مجھے لگتا ہے میں دیوانہ ہو جاؤں گا۔ چھ ماہ سے میں تم لوگوں سے دور جدائی کی اذیت جھیل رہا ہوں، ہم دونوں کس قدر بے بس ہیں؟

Check Also

Khyber Pakhtunkhwa Ka Jahannam

By Najam Wali Khan