Sitamgar September (2)
ستمگر ستمبر (2)
1980 کی بہار میں ہماری شادی ہوئی تھی پھر اس بندھن کو مزید مضبوطی عطا کرنے کے لیے پہلے آمنہ اور اس کے بعد فاطمہ آ گئی۔ سب کچھ بہت اچھا چل رہا تھا کہ اچانک امی مختصر سی علالت کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں اور ان کی جدائی کے بعد میرا پاکستان سے دل اٹھ گیا۔
میں نے عاتکہ سے مشورہ کیا اور وہ میری رضا میں راضی رہنے والی بندی فوراً پردیس کے جوکھم کے لیے تیار ہو گئی۔
میں نے کینڈین امیگریشن کے لیے اپلائی کیا۔ اسی کی دھائی میں امیگریشن بہت آسان تھی۔ یوں 1985 کے کڑکڑاتے جاڑے میں ہم چاروں کیلگری ائرپورٹ پہ اترے۔ میرا پوزیشن ہولڈر ہونا اور پارکو کا تجربہ کام آیا اور مہینے کے اندر اندر مجھے exon mobil میں نوکری مل گئی۔ مجھے تین جنوری سے کام شروع کرنا تھا کہ بیچ میں کرسمَس اور نیو ائیر کی چھٹیاں آ گئی تھیں۔ اس دوران ہم لوگوں نے کرائے کا مکان اور تھوڑا بہت سامان جوڑ لیا۔ یہ ایک نئی شروعات تھی۔ عاتکہ نے بھی ڈے کیر میں جاب کر لی اور دونوں بچیوں کو بھی وہیں داخل کرا دیا۔
میرے گھر مزید دو کلیاں کھلیں ہانیہ اور سعدیہ۔ عاتکہ کو بیٹے کا بہت ارمان تھا مگر میں واللہ ان پانچ خواتین کے ساتھ پر بہت خوش اور مطمئن تھا۔ گزرتے وقت نے ہمیں معاشی طور پر مستحکم کر دیا تھا۔ عاتکہ اب فل ٹائم ہوم میکر تھی۔ میرا کام کمانا تھا اور کہاں اور کیسے خرچ کرنا ہے یہ عاتکہ کا محکمہ تھا۔ گھر کے بیشتر فیصلے عاتکہ کے ہوتے۔ اس نے پیسے کو بہت اچھے سے استمعال کیا، بچیوں کو پڑھایا لکھایا، خوبصورتی سے ان کی شادیاں کی اور جائیداد بھی بنائی۔ حلقہ احباب میرا ہمیشہ مختصر ہی رہا کہ میں اپنی فیملی کے ساتھ وقت بتا کر زیادہ خوشی محسوس کرتا تھا۔ ہمارا پاکستانی کمیونٹی میں اچھا ملنا جلنا تھا۔ لوگوں کا عام خیال تھا کہ میں بیوی کے عاشق ہونے کا ڈھونگ رچاتا ہوں کہ بیوی سے بھی کوئی عشق کرتا ہے بھلا؟
کمیونٹی میں ہم دونوں ایک خوبصورت اور خوش باش کپل کے طور پر جانے جاتے تھے۔
مجھے بچیوں سے بھی بہت محبت ہے شاید میرا خمیر ہی محبت سے اٹھایا گیا ہے۔ کبھی کبھی مجھے اپنا آپ بالکل ابا میاں کا پرتو لگتا ہے۔ بچیوں کے اسکول کا لنچ آلٹرنیٹ عاتکہ اور میں بنایا کرتے تھے۔ مجھے بچیوں کے لنچ باکس میں لو نوٹ (love note) رکھنا بہت اچھا لگتا تھا۔ اسکول سے واپسی پر انہیں پک کرتے ہوئے ان کا خوشی سے تمتماتا چہرہ اور پاپا پاپا کرتے ہوئے بےساختہ لپٹ جانا روح کو سرشار کر دیتا تھا۔ بچیوں کی گڑیا کی شادی ہو یا ان کی آئس ہاکی اور اسکیٹنگ کی کلاس، میں لمحہ لمحہ شریک رہتا۔ ان کا ہیر اسٹائل ہو یا لباس اور نیل کلر کا چناؤ میرا مشورہ ان کے لیے حتمی ہوتا۔
بچیوں اور میرا اٹوٹ بانڈ تھا وہ ماں کے مقابلے میں مجھ سے زیادہ بےتکلف تھیں۔ سنیچر کی صبح سب اپنی سہولت سے ناشتا کرتے پر اتوار کو ناشتے کی چھٹی ہوتی اور بجائے ناشتے کے شاندار برنچ کا اہتمام ہوتا جو سب مل کر بناتے تھے۔ وہ برنچ ہم لوگ ایک فیملی ایونٹ کے طور پر منایا کرتے تھے۔ اس سے زیادہ خوبصورت زندگی کا تصور ممکن نہیں۔ اب بچیاں بڑی ہو گئی تھیں اور انہیں شکایت تھی کہ پاپا آپ مما کو زیادہ چاہتے ہیں اور میں ہنستے ہوئے کہتا کہ میں دراصل ماں کے عشق میں مبتلا ہوں۔ شادی سے پہلے اپنی ماں کو چاہتا تھا اور اب اپنے بچوں کی ماں سے عشق کرتا ہوں۔
ہم لوگ گرمیوں کی چھٹیوں میں کرائے پر آر وی لے کر کینیڈا کی سیاحت پر نکل جاتے۔ بہت متحرک اور خوش باش زندگی تھی ہماری۔ بچیاں بڑی ہوتی گئیں اور پڑھائی مکمل کر کے اپنے پیا کا دل و گھر آباد کیا۔ آمنہ نے میڈسن، فاطمہ نے بزنس، ہانیہ نے انجینئرنگ اور سعدیہ نے ایجوکیشن میں ڈگری لی۔ فاطمہ امریکہ، آمنہ ٹورانٹو اور ہانیہ وینکور میں۔ صرف سعدیہ کیلگری میں رہتی ہے اور اب میرا گھونسلہ خالی ہو گیا ہے۔
سعدیہ کی شادی کے بعد ہم نے اپنا گھر بیچ کر ڈاؤن ٹاؤن میں بو ریور(bow river) پاس دریا کے رخ پر دو بیڈروم کا اپارٹمنٹ لے لیا تھا۔ عاتکہ کو یہ علاقہ بہت پسند تھا۔ سورج ہمارے بیڈروم میں طلوع ہوتا اور ڈوبتا ہماری بالکونی میں تھا۔
بچیاں اپنی اپنی زندگیوں میں خوش اور مگن تھیں۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں کوئی تفریحی مقام طے کر لیا جاتا اور وہاں ہم سب ہفتے دس دن کے لیے جمع ہو جاتے۔ اچھی چہل پہل رہتی اور بہت خوشگوار وقت گزرتا۔ ہم دونوں نانا نانی بن چکے تھے۔ زندگی پیار کی چاشنی سے لبریز تھی۔
مجھے ریٹائرڈ ہوئے ایک ہی سال ہوا تھا اور میں نے محسوس کیا کہ ان دنوں عاتکہ کی طبیعت کچھ گری گری سی تھی۔ وہ جلدی تھک جاتی تھی اور تھوڑا سا چل کر ہانپ جاتی تھی۔ ڈاکٹر کو دکھایا اور ڈاکٹر نے ٹیسٹ کی ایک لمبی فہرست لکھ دی۔ پھر جو نتیجہ آیا اس نے ہمارے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی۔ یہ تو کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ انسان اپنے مستقبل کی منصوبہ بندیوں میں بیماری اور موت کو بھلا کب شامل کر تا ہے؟ وہ انہونی کب سوچتا ہے؟
عاتکہ کو پھیپھڑے کا سرطان تھا اور وہ بھی لاسٹ اسٹیج پر۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ نہ اسے کبھی کھانسی ہوئی نہ سانس لینے میں تکلیف اور ایک دم سے اسٹیج فور۔ تینوں بچیاں کیلگری آ گئی۔ میری تو جان پر بن آئی تھی۔ عاتکہ کا وقت گھر میں کم اور ہسپتال میں زیادہ گزرتا۔ میں پل پل اس کے ساتھ تھا اور تل تل مرتا تھا۔ اس کو سانس لینے کے لیے ہلکان ہوتے دیکھ کر میری اپنی سانسیں رک رک جاتیں۔ اس کی تکلیف میرے لیے ناقابل برداشت تھی مگر میرے پاس اس کی تکلیف اور دکھوں کا مداوا نہیں تھا۔ اس رحمان و جلیل کو بہت پکارا، عاتکہ کی صحت اور زندگی کے لیے بہت بہت گڑگڑایا مگر مہلت ختم ہو چکی تھی۔ ڈاکٹروں نے علاج سے معذوری کا اظہار کر کے عاتکہ کو ہوسپس میں داخل کرنے کا مشورہ دیا تو میں اپنی محبت کو اپنی جنت لے آیا۔ گھر پر آمنہ نے عاتکہ کے لیے ہر ممکن آسانی اور آرام کا انتظام کر دیا تھا اور میری چاروں بچیاں اپنا اپنا گھر بار چھوڑ کر ماں کی پٹی سے لگ کر بیٹھ گئی تھیں۔ بےشک میرے داماد قابل قدر تھے جنہوں نے اس مشکل گھڑی میں اپنی بیویوں کے جزبات کو سمجھا اور اپنے اپنے گھروں اور بچوں کو احسن طریقے سے سنبھالا۔
اب کہنے سننے کو کچھ نہیں رہ گیا تھا۔ میں عاتکہ کا سرد ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیکر اکثر ماضی کے قصے دہراتا اور اسے یقین دہانی کراتا کہ وہاں وہ اکیلی نہیں ہو گی میں بھی ساتھ ہوں گا۔ ایک دفعہ سعدیہ نے میری عاتکہ سے کی گئی یہ سرگوشی سن لی اور وہ بہت روئی اور ناراض ہوئی کہ آپ کو ہم لوگوں کا کوئی خیال نہیں؟ آپ بہت خود غرض ہیں پاپا۔
میں کیا کہتا خاموش رہا کہ میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ میرے لیے عاتکہ کے بغیر جینے کا تصور ہی محال تھا کہ اس کے بغیر زندگی کا کوئی جواز بھی تو نہیں۔ پھر ایک اداس شام جھڑتے پتوں کے ساتھ ساری آس اور دعائیں دم توڑ گئی۔ عاتکہ چلی گئی۔
تدفین کے بعد سعدیہ مجھے اپنے گھر لے آئی۔ چھٹے دن باقی بچیاں اپنے گھروں کو روانہ ہوگئی کہ پچھلے دو ماہ سے سب اپنے اپنے گھروں سے لا تعلق تھیں۔ میں روز صبح اشراق کی نماز کے بعد قبرستان آجاتا ہوں اور مغرب پڑھ کر سعدیہ کے گھر جاتا ہوں مگر اب میں بےچین ہو گیا ہوں مجھے اپنے گھر واپس جانا ہے۔ میرا اپنا گھر جہاں عاتکہ کی خوشبو ہے اور جہاں میں اسے محسوس کر سکتا ہوں۔ آج میں سعدیہ سے اجازت لیکر اپنے گھر چلا جاؤں گا۔
میں نے عاتکہ کی قبر کے ساتھ والی قطعہ اراضی اپنی قبرکے لیے بک کروا لی ہے۔ دیکھیے کب تک لیز کے کاغذات آتے ہیں۔ میں نے سعدیہ کا ٹیلی فون نمبر دیا ہے کہ میں آج کل فون نہیں اٹھاتا۔ بچیوں سے بھی کہہ دیا ہے کہ میری خیر خبر سعدیہ سے پوچھ لیا کریں۔ وہ روز صبح سویرے اور رات کو پابندی سے چکر لگاتی ہے۔ میں سارا دن قبرستان میں اور رات لیونگ روم میں گزارتا ہوں۔ بےچینی ایسی ہے جیسے مچھلی کو پانی سے نکال کر تپتی ریت پر ڈال دیا گیا ہو۔ میرا سعدیہ سے روز یہی سوال ہوتا ہے کہ جواب آیا لیز کا؟ قبر کا قطعہ میرے نام الاٹ ہوا؟
آج میں قبرستان سے واپس آیا تو فون کے میسج کی لائٹ بلنکblink کر رہی تھی۔ سعدیہ کا پیغام تھا اور اس نے بتایا کہ قطعہ اراضی میرے نام الاٹ ہو گئی ہے۔ آہ! دس دنوں کے بعد ایک اچھی خبر ملی۔ مجھے یقین ہے کہ عاتکہ سے یہ دوری جلدی ختم ہو جائے گی۔
***
آج فجر سے ہی مجھے عجیب سی گھبراہٹ محسوس ہو رہی تھی۔ میں نیند میں بھی بے آرام تھی سو میں نے سہیل سے کہا کہ میں آج پاپا کی طرف زرا سویرے ہی چلی جاتی ہوں۔ جانے کیوں دل بہت بےچین ہے۔
ارے! آج پاپا لاؤنج کے بجائے بیڈروم میں سو رہے ہیں؟
میں نے بیڈروم کی دہلیز پر کھڑے ہو کر ان کو دیکھا مگر آواز نہیں دی کہ کہیں ان کی نیند نہ خراب ہوجائے۔ ان کے چہرے پر بہت سکون تھا اور سینے پر ان کی شادی کی تصویر کا فریم اوندھا پڑا ہوا تھا۔ ان کو غور سے دیکھنے پر مجھے خوف محسوس ہوا کیونکہ دور سے مجھے ان کی سانسوں کا زیر و بم محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ میرے پیر میرا بوجھ سہارنے سے انکاری تھے۔ میں نے بہت ہمت کی اور اپنےآپ کو گھسیٹتے ہوئے بستر کے قریب جا کر پاپا کو دیکھا اور میرے بدترین خدشہ صحیح ثابت ہو گیا۔
ان کا انتظار تمام ہوا تھا اور وہ اپنی محبت کے پاس جا چکے تھے۔
دیکھا! پاپا نے پھر ہم لوگوں پر امی کو فوقیت دے دی۔