Sirf Tu
صرف تو
کیسا ہے میرا طیب؟ میں نے ہاٹ پاٹ ڈائنگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے، اس کے گھنگھریالے ریشم کے لچھوں پہ بوسہ دیا۔ وہ بے ساختہ میری کمر میں اپنی بانہیں ڈال کر مجھ سے لپٹ گیا، یہ اس کی بچپن کی عادت تھی، جب بھی دوستوں سے روٹھتا یا کسی سبب دکھی ہوتا، مجھ سے لپٹ جایا کرتا تھا۔ وہ اکثر اپنے مریضوں کے درد مجھے سناتا رہتا تھا، پر پچھلے دو ہفتوں سے، جو اس کی کیفیت تھی وہ حیران کن تھی۔
وہ اپنے مریضوں کو لے کر دکھی اور فکرمند ضرور رہتا تھا۔ مگر اسے اس قدر الجھا اور سہما ہوا میں نے پہلی بار دیکھا تھا۔ اس کے لب کھولنے سے پہلے ہی میں جان گئی تھی کہ ہو نہ ہو یہ قصہ بیڈ نمبر 47 ہی کا ہے۔ یہ مریض کوئی ڈھائی ہفتہ پیشتر طیب کے وارڈ میں داخل ہوا تھا۔ شکستہ پچھتر سالہ وجود جو بہت ناتواں تھا مگر اس کے چہرے کا عزم اور آنکھوں کی ذہین چمک اس کی مضبوط قوت ارادی کی مظہر تھی۔
میڈیکلی بوڑھے کو کوئی ایسا شدید یا موذی مرض لاحق نہ تھا۔ مگر وہ نڈھال اس قدر جیسے اس کی رگوں سے کسی نے ساری زندگی کشید کر لی ہو۔ طیب میرا اکلوتا بیٹا، میری زندگی کا کل سرمایہ۔ جو بڑی محنتوں اور کوششوں سے پروان چڑھایا گیا تھا اور اب وہ ایک گھنا شجر ثمر بار و سایہ دار ہے۔ طیب جس کی سانسوں کے ساتھ میری سانسیں مشروط ہیں۔
بیڈ نمبر 47 کے بابا کی کہانی بڑی عجیب و دردناک تھی، وہ اپنوں کے اعتبار کا ڈسا ہوا ایک نیلو نیل وجود تھا۔ صدیوں سے اکٹھے رستے بستے دو بھائی جو عقیدے کی بنیاد پر الگ ہوئے۔ اس علحدگی پر بڑے بھائی نے غضب ناک ہو کر نہ صرف چھوٹے کا کافی سارا حصہ غصب کیا۔ بلکہ اسے کسمپرسی کے عالم میں بے یارو مددگار و تنہا چھوڑ دیا۔ بھائی پنڈت کو یہی گمان تھا کہ چھوٹا۔
سختئ حالات سے بد دل ہو کر جلد ہی شرمندہ و پژمردہ لوٹ آئے گا اور پھر اسے اس کیے کا مزہ چکھایا جائے گا پر ہوا اس کی خواہشوں کے بر عکس۔ چھوٹا توکل اللہ اپنے پانچوں بیٹوں کو ساتھ لے کر پنڈت سے الگ ہو گیا۔ کٹھن حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرتا رہا گو اسے رتی بھر آسانی میسر نہیں تھی پر متوقع توقعات کے بر خلاف وہ اپنی جگہ ڈٹا رہا، کھڑا رہا۔
وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ہمسایہ بھائیوں کے تنازعات بڑھتے گئے، یہاں تک بڑے اور چہیتے بیٹے شنار نے بھی پنڈت کے بہکاوے میں آ کر اپنے باپ سے علحدگی اختیار کر لی۔ گو کہ فرمابردار و لاڈلے بڑے بیٹے شنار کی شکایت ایسی نارواں بھی نہ تھی کہ اس پر اس کی اسطاعت سے کہیں زیادہ بوجھ لاد دیا گیا تھا اور شنار جس مان اور عزت کا حق دار تھا، اسے اس سے بھی محروم رکھا گیا۔
جب آپس کے رشتوں میں احساس نہ ہو، عزت نفس کا پاس نہ ہو تو دلوں میں گرہ پڑ ہی جاتی ہے۔ اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے باہر والوں نے بے اعتباری کی وہ دھول اڑائی کہ بینا آنکھیں بھی دیکھنے سے انکاری ہو گئی اور سازشوں کا طوفان اپنے پیچھے جدائی کا گرد باد چھوڑ گیا۔ بابے کے لیے بڑے اور جاں نثار بیٹے شنار کی جدائی ایسا گہرا گھاؤ تھا، جیسے بیتا سمے بھی کبھی مندمل نہیں کر سکا۔
گذرتے وقت کے ساتھ ساتھ موجود چاروں بیٹوں کے شکوے شکایت اور آپس کی نا چاقی و دوریاں بڑھتی گئیں۔ جب اندرون یکجائی نہ ہو تو باہر والوں کے لیے آگ لگا کر ہاتھ تاپنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ اس بوڑھے باپ کے ساتھ بھی یہی ستم ہوا اور معاملہ گھر کے اندر ہی افہام و تفہیم سے حل ہونے کے بجائے باہر والوں کی مداخلت اور گھر والوں طمع نے مزید خراب کر دیا۔
دونوں چھوٹے بیٹوں کو شکایت تھی کہ ساری سہولیات بڑے دو کو میسر ہیں اور وہ ہمارے حق کے غاصب ہیں۔ آمدنی قلیل اور خرچ بے پناہ لہذا آمدن کے اس عدم توازن نے حالت دگر گوں کر دی اور کم زور حکمت عملی اور قرضے کے بوجھ تلے دبا ضعیف معاملہ سنبھال نہ سکا۔ اب بڑے بیٹے کے پشت پر جو باہر کے طاقتور اور بوٹ والے تھے انہوں نے بابے کی ہر تدبیر کو الہا کر دیا۔
یہاں تک کہ ضعیف بابے کو برے حالوں میں ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا اور اب ان بد نیت بیٹوں کا تقاضا تھا کہ بابے کو وینٹی لیٹر پر ڈال دو تا کے بابے کے پاس جو کچھ بچے کچھے اثاثے قسمت سے بچ گئے ہیں، یہ نا خلف انہیں طاقتور بوٹ والوں کی خوشنودی کی خاطر کوڑیوں کے مول بیچ کر ان کے اور اپنے لیے راہ ہموار کریں۔ اس پچھتر سالہ بابے کی زندگی میں اس سے کڑا اور کٹھن وقت شاید پہلے کبھی نہ آیا تھا۔
گو بار اور بوجھ سے اس بابے کا دم پھول رہا تھا، مگر وہ دیوانہ وار زندگی کی جدوجہد میں برسرپیکار تھا۔ بابے کو وینٹی لیٹر پہ ڈالے جانے کے لیے طیب پر شدید دباؤ تھا، مگر طبیب شدت سے انکاری کہ اسے یقین تھا کہ بابے میں ابھی اتنی طاقت ہے کہ وہ بنا وینٹی لیٹر زندگی کی طرف پلٹ آئے۔ طیب نے اپنے جیسے ہم خیال جوانوں کو اکٹھا کیا اور بابے کے معاملات سنوارنے کی ٹھانی کہ جینا ہے، سنبھلنا ہے تو اٹھنا ہی ہو گا اور ہم سب بابے کے ساتھ ہیں۔
وہ بوٹ ہوں، کالے کوٹ ہوں یا گدھ جاتی کے غلیظ سیاست دان، جو بھی اس ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ ہے یا اس کی حرمت کے درپے آزار اور دشمنوں کا آلہ کار ان سب کے خلاف عوام کو متحد ہو کر آہنی دیوار بننا ہو گا۔ یہ ملک قائم رہنے ہی کے لیے وجود میں لایا گیا ہے اور پاکستان کی پر عزم و غیور عوام ہی کی اس کی اصلی وارث ہے۔
مملکت تو سبھی کی ہے، خواب سب کا ہے
یہاں پہ قافلہء رنگ و بو اگر ٹھہرے
تو حسن خیمہء برگ و گلاب سب کا ہے
یہاں خزاں کے بگولے اٹھیں تو ہم نفسوں !
چراغ سب کے بجھیں گے عذاب سب کا ہے
تمہیں خبر ہے جنگاہ جب پکارتی ہے
تو غازیاں وطن ہی فقط نہیں جاتے
تمام قوم ہی لشکر کا روپ دھارتی ہے
محاذ جنگ پہ مردان حر، تو شہروں میں
تمام خلق بدن پر زرہ سنوارتی ہے
ملوں میں چہرہ مزدور تمتماتا ہے
تو کھیتوں میں کسان اور خوں بھرتے ہیں
وطن پہ جب بھی کوئی سخت وقت آتا ہے
تو شاعران دل افگار کا غیور قلم
مجاہدان جری کے رجز سناتا ہے
جلیں گے ساتھ سبھی کیمیا سبھی ہوں گے
اور اب جو آگ لگی ہے میرے دیاروں میں
تو اس بلا سے نبرد آزما سبھی ہوں گے
سپاھیوں کے علم ہوں کہ شاعروں کے قلم
مرے وطن ترے درد آشنا سبھی ہوں گے
احمد فراز