Rudad e Dil Kharash e Barzakh (3)
رودادِ دل خراشِ برزخ (3)
خلاف معمول مم کا رویہ ماں کے ساتھ جلا کٹا نہیں تھا اور میرے اور سحر کے ساتھ بھی طنزیہ گفتگو نہیں تھی۔ سحر کو تو سیلفی لینے کا جنون تھا۔ اس نے ہم لوگوں کی اور اطراف کی بہت ساری تصاویر اتاریں۔ اپنی ڈھیروں تصاویر ریکارڈ کو بھیجیں۔ واپسی کا سفر ستائیس کی شام کو شروع ہوا۔ ہم لوگ منٹریال سے بہت دور نہیں تھے جب انتیس جون کو کنگسٹن (Kingston) کے علاقے میں رات کوئی ایک ڈیرھ بجے کے قریب ڈیڈ نے کار روک دی۔
میں غنودگی میں تھی لہٰذا گاڑی کے ساکن ہونے سے میری آنکھ کھل گئ، پوچھنے پر ڈیڈ نے بتایا کہ مم بہت تھک گئ ہیں سو ہم لوگ رات کسی ہوٹل میں گزار کر کل دن میں سفر شروع کریں گے۔ پھر مم اس کار میں آ گئ اور بتایا کہ ڈیڈ اور بھائی ہوٹل کی تلاش میں گئے ہیں۔ وہ عجیب ویران سی جگہ تھی۔ چونکہ انجن اون تھا اس لیے اے سی بھی اون تھا سو میں دوبارہ سو گئ۔
نیند سے ماتی آنکھوں نے جو آخری منظر دیکھا وہ سحر، گیتی اور ماں کی بے سدھ نیند اور مم کا چوکس ہو کے ڈراوینگ سیٹ پر بیٹھنا تھا۔ میں بھی جلد ہی خوابوں میں کھو گئی۔ ڈیڈ اور حمید نے ڈیز ان(Days inn) میں دو کمرے بک کیے اور دونوں چھوٹی بہنوں اور بھائی کو کمرے میں پہنچا کر دوبارہ واپس وہاں آیے جہاں سینٹرا کھڑی تھی۔ پھر دونوں گاڑیاں جھیل کنگسٹن (kingston) کی طرف روانہ ہوئیں۔
رات کی گھور تاریکی میں انہوں نے سینٹرا کو دھکا دیتے ہوئے اس کے اگلے ٹائر پانی میں اتار دئے مگر زرا اندازے کی غلطی ہو گئی گاڑی ایک پتھر کے آڑے آنے سے بجائے پانی میں جانے کے، کنارے پر اٹک گئی۔ ان تینوں نے خاصی کوشش کی کہ گاڑی کو دھکے سے پانی میں اتار دیں مگر جب گاڑی اٹکی ہی رہی تو ان کے پاس اس کے سوا اب کوئی اور چارہ نہ تھا کہ لیکسس سے سینٹرا کو دھکا لگائیں، اس کوشش میں لیکسس کی بائیں ہیڈ لائٹ ٹوٹ گئ۔
ٹوٹے ہوئے ہیڈ لائٹ کے ٹکڑے مم نے چن لیے مگر کچھ نہ کچھ پھر بھی وہاں پڑے رہ گئے تھے۔ ایک تیز چھپاکے کے ساتھ گاڑی آہستہ آہستہ پانی میں ڈوبنے لگی۔ رات ڈیڑھ بجے سحر نے ریکارڈو کے آخری ٹیکسٹ میسج کا جواب دیا تھا۔ کافی بعد تک بھی فون بجتا رہا پھر موت کی طرح وہ بھی ساکن ہو گیا۔ اگلے دن تقریباً بارہ بجے تینوں بچوں کو ٹم ہورٹن چھوڑ کر ڈیڈ، مم اور حمید پولیس اسٹیشن پہنچے اور ہم چاروں کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی۔
مم نے اپنے بیان میں لکھوایا کہ وہ لوگ نائیگرا فال کی تفریحی ٹرپ سے واپس آ رہے تھے اور مم بہت تھک گئ تھیں ان کو نیند کے جھونکے آ رہے تھے اس لئے ان لوگوں نے سفر موقوف کر کے آرام کرنے کا ارادہ کیا اور ہوٹل چلے گئے۔ ہوٹل میں دو کمرے بک کیے۔ رات تقریباً دو بجے جب وہ سونے لیٹ چکی تھیں تب زینب ان کے کمرے میں آئی اور ان سے سینٹرا کی چابی مانگی کہ گاڑی کی ڈکی سے اس کو کچھ نکالنا تھا۔ وہ اس کو چابی دیکر بے سدھ سو گئی اور صبح دس بجے آنکھ کھلی۔
انہوں نے لڑکیوں کا کمرہ چیک کیا تو وہ خالی تھا، پارکنگ میں گاڑی بھی نہیں تھی۔ پہلے تو وہ یہی سمجھتی رہی کہ زینب کہیں قریب ہی گاڑی لیکر نکل گئی ہے ابھی آتی ہو گی۔ مگر اب تک ان چاروں کی نا وآپسی نے متفکر کر دیا ہے کیونکہ زینب کو بھی پتہ تھا کہ بارہ بجے سے پہلے ہم لوگوں کو منٹریال کے لئے نکلنا تھا۔ اس کے پاس لائسنس نہیں ہے مگر وہ اکثر یہ غیر زمہ دارانہ حرکت کرتی ہے اور بغیر بتائے گاڑی لیکر نکل جاتی ہے۔
اس عرصے میں تقریباً دس بجے صبح کنگسٹن لیک پارک کے متولی نے جھیل میں ڈوبی کار دیکھ کر پولیس کو اطلاع کر دی تھی اور وہاں گاڑی کو نکالنے کی کاروائی شروع ہو چکی تھی۔ ابتدائی پوچھ گچھ سے پتہ چل گیا کہ ڈوبنے والی کار اور تھانے میں بیٹھی اس فیملی کا آپس میں تعلق ہے۔ پولیس نے ہمدردی کا اظہار کیا، ٹی۔ وی پر بریکنگ نیوز چلنے لگی۔ پورے صوبے بلکہ ملک کی ہمدردیاں ان کے ساتھ تھیں۔ صوبے کی افغان کمیونٹی ان کے پہلو بہ پہلو کھڑی تھی۔
پولیس حیران تھی کہ آخر گھور اندھیری رات میں مین سڑک سے ہٹ کر ساڑھے تین کلو میٹر اندر جانے کی کیا تک تھی؟
لڑکیوں نے یہ کیوں کیا؟
بہت سے سوالات جواب طلب تھے۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ میں میرے، ماں اور گیتی کے سر کے پچھلے حصے میں شدید ضرب کے ایک جیسے نشان تھے۔ بہرحال ہم چاروں کی تدفین ہو گئ۔ پولیس گاہے گاہے گھر آتی رہی اور ان تینوں کو پولیس اسٹیشن بلاتی رہی۔ پولیس نے حمید کا فون اور لیپ ٹاپ اپنی تحویل میں لے لیا تھا، اس میں انہوں نے دیکھا کہ حمید نے قتل کے آسان طریقے سرچ کئے ہوئے ہیں اور کنگسٹن لیک کا سروے بھی ہے۔ سحر کے فون نے پولیس کی کافی مدد کی۔
پولیس کے پاس ایک گمنام ای میل بھی آئی جس میں وثوق کے ساتھ ڈیڈ کو قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ ایک عینی شاہد بھی تھا جس نے لیک کے پاس اس رات دو گاڑیاں دیکھی تھیں۔ پولیس نے پڑوسیوں، رشتہ داروں، اسکول کی پرنسپل، ٹیچرز اور چلڈرن ویلفیئر والوں سے بہت کچھ اگلوا لیا تھا۔ واحد اور ریکارڈو نے بھی ڈیڈ پر شک کا اظہارِ کیا تھا۔ پولیس نے ڈیڈ کی گاڑی کو بھی وائر کر دیا تھا۔
ایک دن جب یہ تینوں تھانے سے واپس آ رہے تھے اور پولیس نے ان پر قتل کے شک کا اظہار کیا تھا تو واپسی پر ڈیڈ اس قدر غصے میں تھے کہ حد نہیں، پولیس والوں کو گالی دیتے ہوئے کہنے لگے کہ اگر ان کتیوں کو مارنے کے جرم میں مجھے سو بار بھی سولی چڑھنی پڑے تو منظور ہے مگر میں نے ان بدچلنوں کو زندہ نہیں چھوڑنا تھا۔ حمید کہتا بھی رہا کہ کچھ مت بولئے ممکن ہے گاڑی وائر ہو مگر انہوں نے نہیں سنا، تیر خطا ہو چکا تھا، گاڑی واقعی وائر تھی اور پولیس نے ایک ایک لفظ سن لیا تھا۔
پولیس کے پاس بے شمار شواہد تھے۔ ان بنیادوں پر آخر تین ہفتے کے بعد یعنی تئیس جولائی 2009 کو پولیس نے ان تینوں کو اقدامِ قتل کے جرم میں گرفتار کر لیا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس تھا۔ چھ مرد اور چھ عورتیں جیوری کے ممبر تھے۔ اس کیس کی سماعت فرنچ، داری اور انگریزی تینوں زبان میں ہوئی، ڈھائی سال کیس کی سماعت چلتی رہی اور بالآخر 29 جنوری۔ 2012 کو اس کیس کا فیصلہ ہوا۔
ڈیڈ، مم اور حمید تینوں کو عمر قید کی سزا ہوئی اور تینوں آخری وقت تک اپنے جرم سے انکار کرتے رہے۔ رہائی کے بعد ان تینوں کو ڈیپورٹ کر دیا جائے گا۔ جتنا بھی جرم تھا میرا اور سحر کا تھا، گیتی اور ماں بلا جواز ماری گئیں۔ گیتی چوں کہ سحر سے بہت ایٹیچڈ تھی اس لئے ڈیڈ کو یقین تھا کہ اس معاملے میں گیتی خاموش نہیں رہے گی، وہ پولیس کو ضرور شامل کرے گی۔
ماں کا طلاق کا مطالبہ بڑھ گیا تھا، جو ڈیڈ کی انا کے لئے ناقابل برداشت تھا کچھ مم کی بھی دلی خواہش تھی اپنی سوت سے جان چھڑوانے کی سو سب مل ملا کے گیتی اور ماں بےگناہ ہوتے ہوئے بھی ماری گئیں۔ جرم ہمارا بھی اتنا بڑا نہیں تھا۔ محبت ہی تو کی تھی۔ کوئی بیچ کی راہ تو نکالی جا سکتی تھی مگر جب انا کی پگ کا شملہ بہت اونچا ہو جائے تو پھر ایسے ہی بھیانک فیصلے جنم لیتے ہیں۔
زمینی فیصلہ تو ہو چکا اب آفاقی فیصلہ باقی ہے، شاید وہاں مجھے بھی سزا ہو، مجھے باپ کی نافرمانی کی اور ڈیڈ کو اللہ کی نافرمانی کی۔ میرا بڑا دل چاہتا ہے کہ مم سے پوچھوں کہ مم جن کو لاڈ سے نو مہینہ اپنی کوکھ میں رکھا، اپنے خون سے جن کی آبیاری کی۔ اس خون کا خون کیسے کر دیا؟
آپ کا دل نہ کانپا؟
آپ کو راتوں کو نیند کیسے آ جاتی ہے مم؟
ہم لوگ آپکے خوابوں میں نہیں آتے؟
ہماری اکھڑتی سانسوں کی خرخراہٹ اور دم گھٹنے کی بےکسی آپ کو سانس کیسے لینے دیتی ہے؟ حمید میرے بھائی ہم تو ایک ساتھ گلیوں میں پٹھو گرام اور پہل دوج کھیلا کرتے تھے۔ جب لنچ بریک میں تم اپنا لنچ ختم کر دیتے تھے تو تمہاری آنکھوں میں بھوک باقی دیکھ کر میں اپنا لنچ بھی تم کو یہ کہ کر دے دیتی کہ حمید تم کھا لو مجھے بھوک نہیں۔ کیا کسی یاد نے تمہارا دامن نہیں پکڑا؟
کسی ادا نے تمہارے دل کو نہیں نرمایا؟
چلو اب میں برزخ میں منتظِر ہوں اس آخری ملاقات کے لیے۔ اس حشر کے دن کے لیے جہاں سب کا کیا ان کے سامنے ہو گا۔
جہاں نا انصافی کا امکان ہی نہیں۔
وہ ایک ملاقات جو بہت ضروری اور حتمی ہے۔
الوداع اے دنیا الوداع!