Rudad e Dil Kharash e Barzakh (2)
رودادِ دل خراشِ برزخ (2)
مم ان معاملات میں بالکل غیر جانبدار رہتی۔ رونا بے بس تھی وہ صرف ہمارے زخموں کی سکائی کر سکتی تھی جو وہ دل جمعی سے کرتی تھی۔ اسکول میں ویلنٹائن کے دن ایک پاکستانی لڑکے واحد نے مجھے وش کیا۔ وہ مجھے بہت اچھا لگتا تھا لہٰذا میں نے جواب پوری گرم جوشی سے دیا اور اسے کہا کے میرے بھائی حمید سے ہوشیار رہنا۔ اس کو ہماری دوستی کی بھنک بھی نہیں پڑنی چاہیے۔
ہم دونوں کے تعلقات گہرے ہوتے چلے گئے وابستگی بڑھتی چلی گئی اس دوران میں نے سحر کو ریکارڈو سے متعارف کروایا اور وہ دونوں بھی فوراً دوست بن گئے، ریکارڈو میرے ساتھ فرنچ کلاس لیتا تھا۔ کہتے ہیں کہ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے سو میرا اور واحد کا سلسلہ جلدی ہی حمید کی نظروں میں آ گیا نتیجتاً مجھے گھر بٹھا لیا گیا اور میرے اکیلے نکلنے پر پابندی لگ گئی۔
مگر اس پابندی نے محبت کی آگ کو اور ہوا دی اور "تم چلو ڈالے ڈال ہم چلیں پات پات" کے مصداق چور راستے کھلتے چلے گئے۔ ماں، سحر اور میری چھوٹی بہن گیتی میری ہمنوا تھیں۔ ماں نے مجھے یقین دلایا کہ وہ میری شادی واحد سے کروا دے گی گویا ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔ واحد کے گھر والے بھی اس رشتے پر راضی نہیں تھے مگر واحد کی ضد سے مجبور ہو کر رشتہ لے آئے۔
گھر میں بہت ہنگامہ ہوا، حمید نے بیلٹ سے میری کھال اڈھیر دی مگر میں اپنے مؤقف سے پیچھے نہ ہٹی، ڈیڈ دوبئی میں تھے، ان تک سارا معاملہ پہنچا اور وہ اس قدر ناراض ہوئے کہ میرے رشتے کے ماموں کو فون کیا اور کہا کہ اس خود سر کا جہاں یہ چاہتی ہے اس کا منہ کالا کر دو۔ مجھے ایسی ناخلف اولاد نہیں چاہئے۔ حمید نے شادی کے کسی بھی انتظام میں ہاتھ بٹانے سے انکار کر دیا۔ مجھے کب کسی کی پروا تھی میں تو خوشیوں کے رتھ پر سوار محبت کی قوس قزح پہ گامزن تھی۔
جس شام میرا نکاح تھا میں نے اپنے بال ڈائی کیے، کہنی تک مہندی لگوائی۔ خیر سے نکاح ہو گیا، دوسرے دن رخصتی تھی پر میرے سسرال سے مجھے لینے کوئی آیا ہی نہیں، صرف اکیلا دولھا آیا۔ ہال میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔ پرائے گھر کی آگ میں تماشائی ہاتھ ہی تو سیکھتے ہیں۔ سب عزیز رشتے دار اپنی اپنی بولیاں بول رہے تھے، ان کے بے رحم تبصرے جاری تھے۔
مم اس ہزیمت کے باعث بے ہوش ہو گئیں اور حمید نے اس کو اپنی غیرت کا سوال بنا لیا اور واحد کی کنپٹی پر بندوق رکھ دی کہ تم ابھی زینب کو طلاق دو ورنہ میں سب کو شوٹ کر دونگا۔ میں واحد کے پیروں پر گر گئی کہ جیسا حمید کہتا ہے ویسے کرو، یوں چوبیس گھنٹے سے پہلے ہی میں بیاہتا سے طلاق یافتہ بن گئی۔ میں پھر گھر میں نظر بند کر دی گئی۔
مگر ایک دن مجھے موقع ملا اور میں نے واحد کو ای میل کی اور بتایا کہ میں بہت خوش ہوں کہ لمحاتی ہی سہی پر میں اس کی بیوی بنی اور اب روز قیامت میرا اس پر دعویٰ ہو گا۔ میرے دل میں واحد کی محبت روز بروز گہری ہوتی جا رہی تھی اور میں دل کے آگے قطعی بے بس تھی۔ چھوٹے بھائی نے سحر کو ریکارڈو کے ساتھ دیکھ لیا تھا۔ حسبِ معمول گھر میں خوب ہنگامہ ہوا۔ یہاں تک کے سحر نے سیلیکا جیل پانی میں گھول کر پینے کی کوشش کی۔
بڑی مشکل سے ماں نے اس سے گلاس چھینا اور اس دوران ماں مم کو آوازیں دیتی رہی مگر مم نے کچن سے جواب دیا کہ منحوس مرتی ہے تو مر جائے، ایسی آوارہ اور بدکار بیٹیوں سے وہ بے اولاد ہی بھلی۔ سحر نے اپنی خود کشی کی کوشش کا اسکول میں ذکر کر دیا تو چائلڈ سروسز والے آ گئے، مم کا اسکول سے بلاوا آ گیا نتیجتاً سحر کو بھی گھر بیٹھا لیا گیا۔ سحر بہت باغی تھی، اس کا رابطہ ریکارڈ سے برقرار رہا۔
ادھر چائلڈ سروسز والوں نے جب مم کا پیچھا پکڑ لیا تو مم کو ناچار ہم دونوں کو دوبارہ اسکول بھیجنا پڑا مگر اب ہم تینوں (حمید، میں اور سحر) کا اسکول تبدیل کر دیا گیا، حمید کا ہم پر پہرا اور سخت ہو گیا تھا۔ میرا فون حمید پہلے ہی لے چکا تھا مگر سحر کا فون ابھی سحر ہی کے پاس تھا۔ سحر کسی نہ کسی طرح ریکارڈو سے مل ہی لیتی تھی چاہے تین منٹ کو ہی سہی۔ میں گھر سے بہت بےزار ہو چکی تھی۔
گھر میں ہم دونوں کے ساتھ اچھوتوں والا سلوک ہوتا۔ باقی بھائی، بہنوں کو اجازت نہیں تھی ہم دونوں سے بات چیت کی۔ گیتی، میری چھٹے نمبر کی بہن اور سحر کی بہت دوستی تھی۔ ایک طرح سے گیتی، سحر کو اپنا گرو مانتی تھی اور سحر کی دیکھا دیکھی اس نے بھی بیلی رنگ پہنی شروع کر دی تھی۔ گیتی، سحر کی کاپی کیٹ تھی۔ دونوں کا پہننا، اوڑھنا بالکل مغرب زدہ تھا۔ ویسے بھی ہم لوگ بس نام کے ہی مسلمان تھے، ہمارے گھر میں دین کہیں دور دور تک نہیں تھا۔
حمید اور ڈیڈ نے کبھی مسجد کی چوکھٹ بھی نہیں الانگی تھی۔ اس دوران میں گھر کے حبس بے جا سے اتنا بے زار ہو چکی تھی کہ سترہ اپریل 2009 کو کلینک جانے کے بہانے ماں کے ساتھ گھر سے نکلی اور پھر ماں کو انتظار گاہ میں چھوڑ کر باتھ روم کا بہانہ کر کے کلینک کے فائر ایکزسٹ سے بھاگ نکلی اور شیلٹر ھوم میں جا کر پناہ لی۔ حمید کو سحر پر شک تھا، کسی طرح اس نے سحر کے فون سے سحر اور ریکارڈو کی تصویریں نکالی اور ان کا پرنٹ آوٹ لیکر دوبئی روانہ ہو گیا۔
ڈیڈ تک جب میرے گھر سے بھاگنے اور سحر اور ریکارڈو کی تصویریں پہنچیں تو ان کا غصہ آسمان سے باتیں کرنے لگا، ادھر ہمارے کمیونٹی کے لوگ بھی مم اور ڈیڈ کو ہم لوگوں کی بے راہ روی پر طعنے دیتے اور ان کو بے غیرت گردانتے تھے۔ ان باتوں نے ڈیڈ کو اتنا بھڑکایا، اس قدر مشتعل کیا کہ ڈیڈ نے آسٹریلیا میں مقیم میرے سگے ماموں کو کہا کہ میں ان دونوں کو قتل کرنا چاہتا ہوں۔
تم کوئی پانی کے قریب کی جگہ ڈھونڈو میں فیملی کو چھٹی کے بہانے آسٹریلیا لیکر آتا ہوں وہی ان دونوں کا قصہ پاک کر دینگے اور اس قتل کو حادثے کا روپ دے دینگے۔ مجھے اپنے نام کو پاک کرنا ہے میں بے غیرت بن کر نہیں جی سکتا۔ میں یہ بے عزتی اور نہیں سہار سکتا۔ جب ڈیڈ یہ پلان مم کو فون پر بتا رہے تھے تو اتفاق سے ماں نے یہ ساری گفتگو سن لی تھی۔ پر ماموں نے اپنی جان بچا لی اور کہا کہ آسٹریلیا میں خطرہ زیادہ ہے، آپ ان کو کابل لے جا کر ماریں۔
اس اثنا میں حمید نے کمپیوٹر پر قتل کے آسان اور جامع طریقے سرچ کرنا شروع کر دیئے اور ڈیڈ، مم اور حمید نے ایک پلان تشکیل دے دیا۔ مم مجھ سے شیلٹر میں آ کر ملیں اور مجھے یقین دلایا کہ میری تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا جائے گا سو اب میں گھر چلوں۔ ہم لوگوں کا بہت تماشا بن گیا ہے اور ہماری بہت بدنامی ہو رہی ہے زینب، یہ اسی طرح دھل سکتی ہے کہ تم گھر آ جاؤ اور ہم لوگ دوبارہ ایک نارمل زندگی جینا شروع کر دیں۔
میں نے پوچھا کہ ڈیڈ مجھے معاف کر دینگے؟ مم نے مجھے یقین دلایا کہ ڈیڈ نے مجھے معاف کر دیا ہے اور یہ بھی بتایا کے تین دن بعد ڈیڈ اور حمید دوبئی سے واپس آنے والے ہیں۔ میں نے اعتبار کیا اور ان کے ساتھ گھر واپس آ گئ۔ ڈیڈ بھی آ گئے۔ میں نے ان سے معافی مانگی اور انہوں نے مجھے گلے لگا کر میری پیشانی پر بوسہ دیا اور مجھے معاف کر دیا بلکہ مجھے پیسے بھی دئیے کہ میں اپنی مرضی سے شاپنگ کر لوں۔
پھر ڈیڈ نے کہا کہ ہم سب بہت زیادہ ذہنی اور جزباتی پریشانیوں سے گزرے ہیں اس لئے ہم سب ایک بریک ڈیزور کرتے ہیں سو سب نئاگرا فال (Naigra fall) دیکھنے چلتے ہیں۔ ہمارے گھر دو وین تھی مگر ڈیڈ نے جانے کیوں سفر سے ایک دن پہلے پرانی 2004 کی سینٹرا خریدی۔ تئیس جون کو دن کے تین بجے ہم سب سینٹرا اور Lexus میں روانہ ہوئے۔ ایک خوش باش خاندان کی مانند، ڈیڈ، ماں، میں، سحر اور گیتی سینٹرا میں تھے اور مم، حمید اور تینوں چھوٹے بھائی بہن لیکسس میں۔
راستے بھر سحر اور ریکارڈو کی ٹیکسٹ میسجنگ چلتی رہی۔ موسم بھی بہت خوشگوار تھا۔ میں بہت خوش تھی کہ بالآخر ہم لوگ ایک خاندان کی طرح برتاؤ کر رہے تھے۔ راستے میں رکتے رکاتے پچیس کی صبح نائگرا پہنچے اور خدا کا شاندار شاہکار دیکھا۔ اسٹیمر کی سیر کی اور پارک دیکھا۔ دو دن وہیں رہے۔ قرب و جوار کو ایکسپلور کیا۔ بہت مزے کا ٹرپ تھا۔