Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Mohabbat Aisa Dariya Hai

Mohabbat Aisa Dariya Hai

محبت ایسا دریا ہے

محبت ایسا دریا ہے

کہ بارش روٹھ بھی جائے

تو پانی کم نہیں ہوتا

محبت ایسی ہی بے ریا و بے غرض ہوتی ہے، پھر والدین کی محبت کا کیا ہی کہنا کہ وہ تو عدیم المثال ہے۔ پانی ہی طرح شفاف و نرم، قلب و جان میں جذب ہوتی ہوئی۔ وسعت اتنی کہ آسمان و زمین کی بلندی و گہرائی کم پڑ جائے ساتھ ہی اس قدر لطیف کہ دل کی دھڑکن و آنکھ کے تل میں سما جائے۔ گویا

سمٹے تو دلِ عاشق پھیلے تو زمانہ ہے

یوں تو محبت کی تفسیر کے مظہر کئی اشعار ہیں مگر میری پسندیدہ تفسیر مفتی تقی عثمانی صاحب کا یہ شعر ہے

محبت کیا ہے دل کا درد سے معمور ہو جانا

متاع جاں کسی کو سونپ کر مجبور ہو جانا

واقعی محبت آپ کو ایسا ہی بےدام غلام بناتی ہے اور اگر بات والد کی محبت کی ہو تو مزید دل گیر بھی کہ اس محبت کو معاشرے میں نہ تو وہ پزیرائی ملی ہے اور نہ ہی اس کا اتنا چرچا جس کی یہ مستحق ہے۔

تاریخ کے ورق گردانی کی جائے تو میرے لیے تین والد بڑے معتبر و محبوب۔

حضور اکرم ﷺ جنہیں اپنی چاروں بیٹیوں خصوصاً حضرت فاطمہؓ سے بے پناہ انس و محبت تھی۔ ایسی دلربا محبت جو شفقت و عزت کی ردا سے آرستہ و پیراستہ۔ وہ عظیم محبت جس نے دنیا کو لڑکیوں کی حرمت و مقام سے آگاہی دی۔ ایسے شفیق باپ جنہیں اپنی بھوک سے پہلے فاطمہ کی بھوک بےکل کرتی تھی کہ فاطمہ جگر کا ٹکرا ٹھہریں۔ وہ معاشرہ جہاں عورت محض جنس تھی وہاں دو جہانوں کے سردار کا بیٹی کے احترام و اکرام اور دلداری کا یہ عالم کہ بیٹی کا استقبال ہمیشہ کھڑے ہوکر کیا۔

آپ ﷺ ہمیشہ بچوں پہ مشفق و مہربان رہے اور یتیم و یسیر کے لیے سایہء عافیت۔

حضرت یعقوب علیہ السلام جن کی اپنے بیٹے یوسف سے بے پناہ محبت کا گواہ خود قرآن ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کو راحیل سے محبت ہوئی جو کنعان کے گورنر لابان کی چھوٹی بیٹی تھیں، جن کا رشتہ اس شرط پر منظور ہوا کہ پہلے بڑی بیٹی لیاہ سے شادی رچاؤ۔ اکیس سال حضرت یعقوب نے اپنے سسر کی خدمت کی اور بلا معاوضہ ان کی بھیڑ بکریاں چراتے رہے پھر کہیں جا کر راحیل ان کی زندگی میں شامل ہوئیں۔ لیاہ سے ان کے دس بیٹے تھے اور راحیل سے دو۔

راحیل سے ہونے والے پہلے بیٹے، تکمیل محبت کی نشانی "یوسف" گوہر مقصود و تسکین دل و نظر ٹھہرے۔ باپ کی یوسف سے بےپناہ محبت نے دس بیٹوں کے دلوں میں آتش حسد کا الاؤ روشن کر دیا اور یہ نفرت اتنی بڑھی کہ انتقاماً یعقوب و یوسف کی جدائی پر منتج ہوئی۔ جب حضرت یعقوب کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سرور یوسف جدا ہوئے تو حضرت یعقوب علیہ السلام دنیا سے کنارہ کش ہو کر ہجرہ نشین ہو گئے اور یوسف کے غم میں آنکھیں رو رو کر سفید ہو گئیں۔ طویل ابتلا و امتحان کے بعد بالآخر جدائی کی گھڑی ملن کی بخت آوری میں ڈھلی اور حضرت یعقوب علیہ السلام پورے تزک و احتشام کے ساتھ راحیل اور اپنے خاندان کے ہمراہ اپنے جگر گوشے، تسکین روح و جاں سے ملنے مصر پہنچے اور جی کو شاد کیا۔

محبت کی تاثیر ایسی کہ سمیٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانہ ہے۔ بات پدری محبت کی ہو تو حضرت لقمان کے ذکر با تدبیر کے بغیر ادھوری ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان کی پند و نصیحت جو کہ انہوں نے اپنے عزیز بیٹے کو کیں تھیں، ان کا ذکر کر کے انہیں قیامت تک کے لیے امر کر دیا ہے۔

1۔ اے میرے بیٹے اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا۔ یقین جانو شرک ظلم عظیم ہے۔

2۔ اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز کو محیط ہے کہ وہ علیم و خبیر ہے۔

3۔ نماز قائم کرو۔

4۔ اپنی ذات سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کے ساتھ اصلاح معاشرہ کی کوشش بہت ضروری۔

5۔ مصائب پر صبر، یعنی دین پر عمل اور اس کی ترویج کے لیے جو مشکلات درپیش ہوں انہیں خندہ پیشانی سے برداشت کرنا۔

6۔ لوگوں سے تکبیر سے پیش مت آنا کہ عاجزی و انکساری میں عظمت ہے۔

7۔ زمین پر اتراتے ہوئے اکڑ کر مت چلنا بلکہ تواضع اور حلم اختیار کرنا۔

8۔ اپنی آواز پست رکھنا۔

یہ تمام نصیحتیں بہترین معاشرے کی تشکیل میں راہ نما و درخشاں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ باپ جنت کے دروازوں میں سے بیچ کا دروازہ ہے اگر تو چاہے تو اس دروازے کی حفاظت کر یا اسے ضائع کر دے۔

حدیث پاک میں ارشاد رسول ﷺ ہے کہ بندے سے اللہ کا راضی ہونا یا بندے سے اللہ کا ناراض ہونا، والدین کی رضامندی اور ناراضگی کے ساتھ معلق ہے۔ الجامع الصغیر 5820

بد قسمتی سے فی زمانہ باپ کی محبت پس پردہ چلی گئی ہے حالانکہ باپ وہ شخصیت جو اولاد کی خاطر اپنا آپ مٹا دیتا ہے اور روٹی روزی کی مشقت میں جت کر صبح شام کی تفریق بھول جاتا ہے۔ باپ بننے کے بعد اس کی ذاتی پسند نا پسند، خواہش اور خواب کہیں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں کہ باپ وہ واحد انسان جو اولاد کو اپنے سے آگے اور کامران دیکھنے کا متمنی و آرزومند۔ ماں باپ وہ ہستی جنہیں اولاد کے لیے اٹھایا گیا خسارہ بھی نفع لگتا ہے۔ یہ وہ محبت بھرا شاداب رشتہ جو اس عارضی دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کا پرتو اور مظہر ہے۔

بات طاہر شہیر کی بہترین نظم کے بغیر نامکمل سی سو آپ کی بصارتوں کے نذر باپ کے لیے ایک بیٹے کا محبت نامہ۔

عزیز تر مجھے رکھتا ہے وہ رگ و جان سے

یہ بات سچ ہے کہ میرا باپ کم نہیں ہے میری ماں سے

وہ ماں کے کہنے پہ کچھ رعب مجھ پر رکھتاہے

یہی وجہ ہے کہ وہ مجھے چومتے ہوئے جھجکتا ہے

وہ آشنا میرے ہر کرب سے رہا ہر دم

جو کھل کے رو نہیں پایا مگر سسکتا ہے

جڑی ہے اس کی ہر اک ہاں میری ہاں سے

یہ بات سچ ہے کہ میرا باپ کم نہیں ہے میری ماں سے

ہر اک درد وہ چپ چاپ خود پہ سہتا ہے

تمام عمر سوائے میرے وہ اپنوں سے کٹ کے رہتا ہے

وہ لوٹتا ہے کہیں رات کو دیر گئے، دن بھر

وجود اس کا پسینہ سے ڈھل کر بہتا ہے

گلے رہتے ہیں پھر بھی مجھے ایسے چاک گریبان سے

یہ بات سچ ہے کہ میرا باپ کم نہیں ہے میری ماں سے

پرانا سوٹ پہنتا ہے، کم وہ کھاتا ہے

مگر کھلونے میرے سب وہ خرید کر لاتا ہے

وہ مجھے سوئے ہوئے دیکھتا رہتا ہے جی بھر کے

نجانے کیا کیا سوچ کر وہ مسکراتا رہتا ہے

میرے بغیر تھے سب خواب اس کے ویران سے

یہ بات سچ ہے کہ میرا باپ کم نہیں ہے میری ماں سے

رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا

اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا۔

Check Also

Khyber Pakhtunkhwa Ka Jahannam

By Najam Wali Khan