Mere Yousuf e Kenan
میرے یوسف کنعاں
امی کے گھر سے یہ دستور رہا ہے کہ جس دن جس بچے کی سالگرہ ہوتی، اس دن اس بچے کا پسندیدہ کھانا پکتا اور امی اس کا صدقہ نکالا کرتی تھیں۔ اپنے گھر میں جاری اس رسم میں، میں نے نئے جوڑے کا اضافہ بھی کر دیا تھا۔ طارق روڈ میں واقع ای ٹی بوتیک سے خریدا گیا اس کا من پسند کاہی رنگ کا جوڑا استری کر کے غسل خانے میں لٹکا دیا ہے۔ پورے گھر میں اس کے پسندیدہ مٹر پلاؤ، رہو مچھلی کے سالن اور ہرے مصالحے بھرے شامی کباب اور سل بٹے پر پسی تازہ دھنیا پودینے کی چٹنی کی خوشبو تیرتی پھر رہی ہے۔
آج میرے لعل یوسف کی بتیسویں سالگرہ ہے۔ اللہ میرے لخت جگر، یوسف ثانی و بدر کامل کو عمر خضر عطاء فرمائے اور ہماری آنکھوں کی جوت اور دل کی ٹھنڈک سلامت رہے آمین۔ گھر میں ایک گونجتی جامد چپ ہے اور میری آنکھیں چوکھٹ پہ استادہ اپنے لعل کی منتظر۔ سب کے چہروں پر آس و یاس کے ساتھ ساتھ ایک دہشت ناک سوال بھی رقم "کیا اس سال بھی انتظار، انتظار ہی رہے گا؟" اس سوال دل فگار کا جواب ہم میں سے کسی کے پاس بھی نہیں۔
دس سال پہلے جامعہ کراچی کے شعبہ صحافت سے میرے یوسف کو سادے کپڑوں میں ملبوس کچھ اہلکاروں نے اٹھایا تھا۔ اس دن سے پھر نہ اس کا کوئی پتہ ملا اور نہ ہی نشان۔ پچھلے دس سالوں ابو یوسف تھانے در تھانے، ملٹری ہیڈ کوارٹرز اور عدالتوں میں دھکے کھاتے ہوئے آبلہ پا و خوار اور ہم سب گھر والوں کا نہ زندوں اور نہ ہی مردوں میں شمار۔ نا اُمیدی ہمیں جینے نہیں دیتی اور امید موت کی راہیں مسدود کرتی ہے، ہم سب پر ایک مستقل جان کنی کا آزار مسلط ہے۔
اکلوتے بڑے بیٹے کی جدائی نے جہاں باپ کی کمر جھکائی وہیں ماں کی بینائی سفید کر ڈالی۔ پرسوں دونوں چھوٹی بہنیں کراچی پریس کلب کے سامنے "جبری اغوا کنندگان" کے مظاہرے میں شرکت کرنے گئی تھیں۔ پولیس نے بے قصور مظاہرین پر بے دریغ لاٹھیاں برسائی اور انہیں اسیر بھی کیا۔ آج بعد عصر دونوں بہنوں کی جیل سے واپسی ہوئی اور اب دونوں بہنیں پچھلے کمرے میں نمک کی ڈلی سے ایک دوسرے کے زخموں کی سیکائی کر رہی ہیں۔
پچھلے دس سالوں سے ہم لوگ ایک ایسے جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں جس کا اندراج ہمارے نامہ اعمال میں سرے سے ہے ہی نہیں۔ شاید مرے ہوؤں کا صبر آ جاتا ہو! اس مٹی کی ڈھیری سے لپٹ کر انسان کچھ کہ سن اور رو کر شاید دل کا بوجھ ہلکا کر لیتا ہو! مگر میں کیا کروں؟ میں جو بد شگونی کے ڈر سے بظاہر روتی بھی نہیں مگر یہ اندر گرتے آنسو، آنسو نہیں تیزاب ہیں اور میرا نا صبور دل آبلہ آبلہ۔ نوالہ میرے حلق میں اٹکتا اور پانی گلے میں ریت بن کر چبھتا ہے۔
میری نیند رات بھر برہنہ پا خار زار میں بھٹکتی اور سانس سانس گھٹتی ہے۔ میرے گھر پر بارہ ماہ خزاں کا تسلط ہے اور یوسف کے وچھوڑ نے میری عیدیں بھی محرم کر دی ہیں۔ ہم چاروں اذیت کی سولی پر برسوں سے مصلوب ہیں۔ اس جبری جدائی نے ہمیں کسی جوگے نہیں چھوڑا اور ہم سب حنوط شدہ لاشیں ہیں۔ حکومتیں آتی جاتی رہیں اور ان کا وعدہ، وعدہ فردا ہی رہا۔ جانے بے بس ماؤں کے نور نظر کن گھاٹیوں میں قید کاٹ رہے ہیں؟
کن حالوں میں ہیں؟ زندگی کی قید میں ہیں یا موت کی گھور تاریکی میں اتار دیے گئے؟ فضاؤں میں گردش کرتی جبر و تشدد کی داستانیں رگوں میں خون جما دیتی ہیں۔ ہمارے جسم بظاہر مضروب نہیں مگر ہماری روحیں نیلو نیل ہیں۔ ہم سب پل پل جینے اور مرنے پر مجبور کہ آزاد مملکت کے پابند شہری جو ٹھہرے۔ بلوچستان ہو یا غریب پرور کراچی سب لہولہان و فریاد کناں مگر داد رسی کہیں نہیں، کہیں بھی تو نہیں۔
ہماری آہ و بکا محض گنبد بے در کی صدا۔
باد بہاری اتنا بتا دے سادہ دلان موسم کو۔
صرف چمن جو خون ہوا ہے رنگ وہ کب تک لائے گا
ماؤں کی آنکھوں سے رستا لہو اور باپوں کے فگار دل۔
شاید اب قیامت دور نہیں!