Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Khutbah e Hajjatul Wada

Khutbah e Hajjatul Wada

خطبہ حجتہ الوداع

9 ذوالحج 10 ہجری کو آپ ﷺ نے عرفات کے میدان میں ایک لاکھ چوبیس ہزار یا ایک لاکھ چوالیس ہزار مسلمانوں کے سامنے خطاب فرمایا۔ یہ خطبہ بلاشبہ انسانی حقوق کا اولین اور مثالی منشور اعظم ہے۔ یہ خطہ اسلامی تعلیمات کا نچوڑ اور اسلام کے سماجی، سیاسی اور تمدنی اصولوں کا جامع مرقع ہے۔ سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے اور ہم اسی کی حمد کرتے ہیں۔ اسی سے مدد چاہتے ہیں، اس سے ہی معافی مانگتے ہیں۔

اسی کی بارگاہ میں توبہ کرتے ہیں اور ہم اللہ رب العزت سے اپنے نفسوں کی برائیوں اور اپنے اعمال کی خرابیوں سے پناہ کے خواستگار ہیں۔ جیسے اللہ ہدایت دے تو پھر کوئی اسے بھٹکا نہیں سکتا اور جیسے اللہ گمراہ کر دے اسے کوئی راہ ہدایت نہیں دکھا سکتا۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد اس کا بندہ اور رسول ہے۔

اللہ کے بندو، میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی تاکید اور اس کی اطاعت پر آمادہ کرتا ہوں اور میں اسی سے ابتدا کرتا ہوں جو بھلائی ہے۔ لوگو، میری باتیں سن لو، مجھے کچھ خبر نہیں کہ میں تم سے اس قیام گاہ میں اس سال کے بعد پھر کبھی ملاقات کر سکوں۔ جاہلیت کے تمام دستور آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں۔ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقوی کے سبب۔

خدا سے ڈرنے والا انسان مومن ہوتا ہے اور اس کا نافرمان شقی۔ تم سب کے سب آدم کی اولاد میں سے ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔ مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ لوگوں تمہارا خون، تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر ایسی ہی حرام ہیں۔ جیسا کہ تم آج کے دن کی، اس شہر کی اور اس مہینے کی حرمت کرتے ہو، عنقریب تمہیں خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی بابت سوال کرے گا۔

خبردار میرے بعد گمراہ مت ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگو۔ جاہلیت کے قتلوں کے تمام جھگڑے میں ملیامیٹ کرتا ہوں۔ پہلا خون جو باطل کیا جاتا ہے وہ ربیعہ بن حارث کے شیر خوار بیٹے کا ہے۔ اگر کسی کے پاس امانت ہے۔ تو وہ اسے اس کے مالک کو ادا کر دے اور اگر سود ہو تو وہ موقوف کر دیا گیا ہے۔ ہاں تمہارا سرمایہ مل جائے گا۔ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔

اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا کہ سود ختم کر دیا گیا ہے اور سب سے پہلے میں عباس بن عبد المطلب کا سود باطل کرتا ہوں۔ لوگوں تمہاری اس سر زمین میں شیطان اپنے پوجے جانے سے مایوس ہو گیا ہے۔ لیکن دیگر چھوٹے گناہوں میں اپنی اطاعت کئے جانے پر خوش ہے۔ اس لیے اپنا دین اس سے محفوظ رکھو۔ اللہ کی کتاب میں مہینوں کی تعداد اسی دن سے بارہ ہے، جب اللہ تعالٰی نے زمین و آسمان پیدا کیے تھے۔

ان میں سے چار حرمت والے ہیں، تین، ذیقعدہ، ذوالحج اور محرم الحرام لگاتار اور رجب تنہا۔ لوگوں اپنی بیویوں کے متعلق خدا سے ڈرتے رہو۔ خدا کے نام کی ذمہ داری سے تم نے ان کو بیوی بنایا ہے اور خدا کے کلام سے تم نے ان کا جسم اپنے لیے حلال بنایا ہے۔ تمہارا حق عورتوں پر اتنا ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی غیر کو نہ آنے دیں، لیکن اگر وہ ایسا کریں تو انہیں معمولی جسمانی سزا دو اور وہ باز آ جائیں تو ان پر سزا روا نہ رکھو۔

عورتوں کا حق تم پر یہ ہے کہ تم انہیں اچھی طرح کھلاؤ، اچھی طرح پہناؤ۔ اپنے غلاموں کا خیال رکھو۔ جو خود کھاؤ وہی اپنے غلاموں کو کھلاؤ اور جو خود پہنو وہی انہیں بھی پہناؤ۔ خدا نے وراثت میں ہر حق دار کو اس کا حق دیا ہے۔ اب کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں۔ لڑکا اس کا وارث جس کے بستر پر پیدا ہو۔ زنا کار کے لیے پتھر اور ان کا حساب کتاب خدا کے ذمہ ہے۔

عورت کو اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیر لینا جائز نہیں۔ قرض ادا کیا جائے۔ عاریت وآپس کی جائے۔ عطیہ لوٹایا یعنی اس کا بدلہ دیا جائے۔ ضامن تاوان کا ذمہ دار ہے۔ مجرم اپنے جرم کا آپ ذمہ دار ہے۔ باپ کے جرم کا بیٹا ذمہ دار نہیں اور نہ ہی بیٹے کے جرم کا باپ ذمہ دار ہے۔ اگر کٹی ہوئی ناک کا کوئی حبشی بھی تمہارا امیر ہو اور وہ تمہیں خدا کی کتاب کے مطابق لے چلے تو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو۔

لوگو، نہ تو میرے بعد کوئی نبی ہے اور نہ کوئی جدید امت پیدا ہونے والی ہے۔ خوب سن لو کہ اپنے پروردگار کی عبادت کرو اور پنجگانہ نماز ادا کرو۔ سال بھر میں ایک مہینہ رمضان کے روزے رکھو۔ اپنے مالوں کی زکوۃ خوش دلی سے ادا کرو اور خانہ خدا کا حج بجا لاؤ۔ میں تم میں ایک چیز چھوڑتا ہوں اگر تم نے اس کو مضبوط پکڑ لیا تو گمراہ نہ ہو گے۔ وہ ہے، اللہ کی کتاب۔

دیکھو دینی معاملات میں غلو سے بچنا کہ تم سے پہلے کے لوگ انہی باتوں کے سبب ہلاک کر دیئے گئے۔ اس جامع خطبہ کے بعد حضور اکرم ﷺ نے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے پوچھا لوگو، قیامت کے دن خدا میری نسبت پوچھے گا تو کیا جواب دو گے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ، ہم کہیں گے کہ آپ ﷺ نے خدا کا پیغام پہنچا دیا اور آپنا فرض اور رسالت کا حق ادا کر دیا۔

آپ ﷺ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور فرمایا۔

اے اللہ! تو گواہ رہنا

اے اللہ! تو گواہ رہنا

اے اللہ! تو گواہ رہنا

اس کے بعد آپ نے ہدایت فرمائی کہ جو حاضر ہیں۔ وہ ان لوگوں کو یہ باتیں پہنچا دیں جو حاضر نہیں۔

Check Also

Baray Maidan Ka Khilari

By Muhammad Saqib