Hum Rahe Na Hum (1)
ہم رہے نہ ہم (1)
بلال بلال جلدی اٹھو!
میں نے پریشانی میں، بخار میں بے سدھ سوتے بلال کو بے اختیار جھنجوڑ دیا۔ بلال ہڑبڑا کر اٹھ تو گیا مگر کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھا۔ میں نے اپنے آپ پر قابو رکھتے ہوئے اسے پانی کا گلاس دیا، جیسے اس نے کسی پیاسے صحرائی کی طرح ایک ہی سانس میں غٹاغٹ چڑھا لیا۔
کیا ہوا امی؟
بیٹا بڑے ابا گھر میں نہیں ہیں۔ ابھی مچھلی والے نے گھنٹی بجائی تو دروازہ چوپٹ کھلا ہوا تھا۔ میں لہجے کو متوازن رکھنے کی کوشش میں ہلکان ہو گئی۔ یہ سنتے ہی جیسے بلال کو بجلی کا جھٹکا لگا اور وہ اچھل کر بستر سے اٹھا اور بیڈ سائڈ سے اپنی بائیک کی چابی اور فون اٹھاتے ہوئے مجھے دروازہ بند رکھنے کی تاکید کرتے ہوئے تیزی سے آنگن کی طرف لپکا۔ میں شدید گھبراہٹ کا شکار، گھر کا دروازہ بند کر کے کٹی پتنگ کی طرح آنگن میں ڈولنے لگی۔ دل میں سو سو طرح کے وسوسے تھے۔ ناظم آباد گیارہ نمبر کے اس مختصر سے گھر میں تین نسلیں اکٹھی رہ رہی تھیں۔
بڑے ابا صرف میرے سسر ہی نہیں بلکہ ماموں بھی ہیں۔ صابر، شاکر اور کم گفتاری ان کا وصف۔ ان سے، کیا اپنے کیا پرائے سب کو ہمیشہ خیر ہی ملی تھی۔ پیشہ کے لحاظ سے تو وہ اکاؤنٹنٹ تھے پر اپنی لگن کے بل بوتے پر ہومیو پیتھی بھی پڑھی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے زبان کی شیرینی کے ساتھ ساتھ ان کے ہاتھوں میں شفا بھی خوب رکھی تھی اور پورا محلہ انہی سے علاج کراتا تھا۔ اپنی زندگی میں بڑے ابا نے بڑے دکھ دیکھے، وہ عمر بھر ہر ہر پہلو سے آزمائے گئے مگر یہ بھی انہی کا حوصلہ تھا کہ انہوں نے اپنے مزاج میں کبھی کڑواہٹ نہیں آنے دی۔
نصف صدی پہلے جب دشمنوں کی سازشوں اور اپنوں کی بے غیرتی و ضمیر فروشی کے سبب میرا ملک لخت لخت کر دیا گیا تھا تب بڑے ابا کا سنہرا سلونا لڑکپن تھا۔ مست الست بنگال کے سحر انگیز حسن میں کھلکھلاتا بچپن۔ پاربتی پور کے ریلوے کواٹر نمبر 49 میں ٹی ٹی اکرام الحق اپنے خاندان کے ساتھ سکھ چین کے دن گزار رہے تھے مگر پر امن دن تمام ہوئے کہ اب دلوں میں کدورت آ چکی تھی اور حکومتی نا انصافی و خود پرستی نے مروت کے پلڑے کو فضا میں معلق اور نفرت کو ثباتی اور مضبوطی دے دی تھی۔
گھروں کی دیواریں اب بھی ملی ہوئی تھیں مگر دلوں میں فاصلوں کی بلند و بالا فصیل کھنچ چکی تھی۔ دو عشرے سے زائد عرصے سے بنگال کی ہریالی زمین پر مقیم غیر بنگالی جنہیں عرف عام میں بہاری کہا جاتا تھا، یکایک قابلِ دشنام اور واجب قتل ٹھہرے۔ وجہ ایمان کے بجائے زبان ٹھہری۔ وہ وجہ امتیاز جو تقسیم برصغیر کی بنیاد تھی، اسی کی پاسداری ان غیر بنگالیوں کا جرم گردن زدنی گردانا گیا۔
اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے اس نوزائیدہ ملک کے لیے پہلے انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کیا اور بمشکل خالی ہاتھ اس سر زمین پر سبز پرچم تلے آباد ہوئے اور چوبیس سال بعد اپنے جزبہ ایمانی اور ملک سے وفاداری کے پاداش میں گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالے گئے۔ وحشت اور بربریت نے وہ قیامت صغریٰ بپا کی کہ انسانیت بلکتی ہوئی کہیں سندر بن میں روپوش ہو گئ۔ پڑوسی اور دوست جن کی نہ صرف دیواریں ملی تھیں بلکہ دھڑکنیں بھی ہم آہنگ تھی وہ ہی جان اور عزت آبرو کے بیری و درپے ہوئے۔
بڑے ابا بتاتے ہیں کہ بیس اپریل 1971، منگل کا دن تھا۔ شہر میں قتل عام کی افواہوں کا زور تھا اور فضا میں اتنا سہم کہ اس روز گھر سے کوئی باہر نکلا ہی نہیں، ابا بھی ریلوے اسٹیشن نہیں گئے تھے۔ ٹرین ویسے ہی بڑی مشکلوں سے چل رہی تھی کہ باغیوں نے جگہ جگہ سے پٹڑی اکھاڑ دی تھی۔ اسکول کالج بھی غیر اعلانیہ طور پر بند تھے۔ ہم سب نے باورچی خانے ہی میں چولہے کے گردا گرد بیٹھ کر سادی روٹی اور چائے کا ناشتا کیا تھا۔
اماں سرگوشیوں میں ابا کو بتا رہی تھیں کہ بھنڈار میں اناج بہت کم ہے۔ گھر میں اگی سبزیوں اور مرغیوں کے انڈوں کا ہی آسرا تھا کہ بازار ہاٹ عرصے سے بند پڑے تھے۔ چائے تو ایک ہفتے سے ہم لوگ کالی ہی پی رہے تھے۔ بڑی آپا اور چھوٹی آپا نے ناشتے کے بعد اپنے آپ کو معمول کی صفائی دھلائی میں مصروف کر لیا۔ کچے آنگن میں اکبر بھیا، اماں اور ابا سر جوڑے چنبیلی کے جھاڑ تلے بچھی چوکی پر اسی بحث میں الجھ گئے کہ ان حالات میں ہجرت کی جائے یا حالات میں بہتری کا انتظار کیا جائے؟
اکبر بھیا کا خیال تھا کہ پاکستان آرمی جلدی ہی ایکشن لے گی مگر ابا نامساعد حالات کے سبب مغربی پاکستان ہجرت کرنے کے حق میں تھے پر کنبہ بڑا اور ہاتھ تنگ۔ ابا میاں بڑی کوششوں کے بعد قرضہ بئینا کر کے پانی کے جہاز کی ٹکٹوں کا بندوبست کر پائے تھے مگر اب اماں نے ضد پکڑ لی اور وہ ابا کو مشرقی پاکستان میں تنہا چھوڑ کر کراچی جانے پر کسی صورت رضا مند نہ تھیں۔ گھر میں پچھلے تین دنوں سے یہ ہی لا حاصل بحث برابر جاری تھی۔
میری چھوٹی بہن سیما مجھے سب سے زیادہ پیاری تھی، وہ اسی نیم کے درخت جس پر میں چڑھ کر"اشتیاق پر کیا بیتی؟" پڑھ رہا تھا، کے نیچے ٹاٹ کا بورا بچھائے اپنی گڑیوں سے کھیل رہی تھی۔ میں لڑکپن میں قدم رکھ چکا تھا اور سیما نو برس کی تھی۔ یکایک دور سے شور کی آوازیں سنائی دینے لگیں اور جئے بنگلہ کے نعروں سے فضا تھرا اٹھی۔ میرے درخت سے اترنے سے بھی پہلے ہمارے کواٹر کا بھورا دروازہ کلہاڑی سے توڑ کر ایک بپھرا ہوا ہتھیار بردار جتھا گھر میں گھس آیا۔
اماں نے بڑھ کر چیختی ہوئی سیما کو گلے لگا لیا مگر دیر ہو چکی تھی، میں نے اماں کے کٹے ہوئے بازوؤں کو اڑتے ہوئے کنواں کی منڈیر کے پاس گرتے دیکھا اور مضبوطی سے اپنے ہاتھوں سےکانوں کو ڈھانپتے ہوئے آنکھیں میچ لیں۔ نیچے گھر میں قیامت برپا تھی۔ میں نے بڑی آپا کی چیخ اور کنواں میں چھپاکے کی آواز سنی اور دیر تک چھوٹی آپا کی وحشت زدہ چیخیں بھی سنائی دیتی رہیں۔ ان کی وہ ہذیانی چیخیں ہمیشہ میری سماعت پہ تیزاب انڈیلتی اور میری نیندیں مجھ پر حرام کیے رہیں۔
لمبے عرصے تک میں اپنی بزدلی کے سبب اپنے آپ سے شاکی و شرمندہ رہا، مجھے اپنے آپ سے نفرت سی ہو گئ تھی۔ میں اور تو کچھ نہیں کر سکتا تھا پر کم از کم اپنے گھر والوں کے ہمراہ مر تو سکتا تھا میں کیوں حفاظت سے درخت میں چھپا رہا؟ کیسی عجیب بات کہ کلہاڑی کے وار سے دروازہ توڑنے میں پیش پیش اعظم دا تھے، ہمارے پڑوسی جلیل چچا کے بڑے بیٹے اور اکبر بھیا کے بچپن کے دوست و ہم جماعت۔ جانے یہ کاروائی کتنی دیر جاری رہی مگر میرے لیے وقت اسی پہر میں ٹھہر گیا۔
مجھ میں ہمت ہی نہیں تھی کے درخت سے نیچے اتروں۔ گھر کے بکھرے ہوئے صحن میں اماں کی کٹی پھٹی لاش پڑی تھی، جس کے نیچے سیما دبی تھی۔ ابا، اکبر بھیا، بڑی آپا اور چھوٹی آپا جانے کہاں تھیں؟ مغرب کے بعد دو سائے دبے قدموں سے گھر کے اندر داخل ہوئے اور میں جو بڑی مشکل سے درخت سے نیچے اترنے کی ہمت جٹا پایا تھا پھر سے نیم کی شاخ سے لپٹ گیا۔ آنے والے کوئی اور نہیں بلکہ جلیل چچا اور چچی تھے۔ اندر کمرے سے انہوں نے ابا اور اکبر بھیا کی لاشیں نکالی اور برآمدے میں رکھ کر ان پر چادر ڈال دی۔