1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Dost Kon Hota Hai?

Dost Kon Hota Hai?

دوست کون ہوتا ہے؟

مخلص اور درد مند، جو کڑے لمحات میں آپ کے شانہ بہ شانہ کھڑا رہے اور جب آپ جزباتی طور پر غیر متوازن ہوں تب بھی آپ کے سامنے صحیح اور غلط کو واضح کر سکے اور آپ کے جزبات کی شدت کی طغیانیوں کے آگے پوری قوت سے بند باندھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ایسا شخص جو آپ کو کبھی پیٹھ نہ دکھائے۔ وہ جو آپ کا مان و اعتبار ہو اور آپ کی پیٹھ پیچھے بھی آپ کا دفاع کرے۔

دوست ایسی شخصیت جو آپ کے کمزور اور کٹھن وقت میں آپ کے پاس ہو، وہ جس کے شانے پر سر رکھ کر آپ رو سکیں، جس کے سامنے آپ اپنی ساری بھڑاس اور فرسٹیشن نکال سکیں۔ جو بے تکی اور احمقانہ باتوں اور بلند آہنگ قہقہے میں آپ کا شریک ہو۔ جسے بے دھڑک ہو کر سارے گمان اور وسوسے گوش گزار کیے جائیں اور وہ بنا فتویٰ لگائے تحمل سے سن لے۔ ججمنٹل نہ ہو بلکہ آپ کا زاویہ نگاہ سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

مخلصی کے اس قحط میں اچھے دوست ملنا بہت کم یاب کیونکہ

دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا۔

حقیقی دنیا ہو یا ورچوئل، اب مخلص، بے لوث و بے ریا اور آپ کو سمجھنے والا انسان ملنا تقریباً نا ممکن ہے۔ اس لیے کہ دوستی کے معیار پر پورا اترنا بڑا جوکھم کا کام ہے۔ جو سچ پوچھیں تو دوستی کا دوام لوہے کے چنے چبانے کے مترادف۔ آپ دوست کے مشکل وقت اور دکھ کی گھڑی میں اس کے ساتھ کھڑے ہیں، اس کے دکھ پر دل سے دکھی بھی پر اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ دوست کی کامیابی یا خوشی پہلے آپ کو رشک میں مبتلا کرتی ہے، پھر آہستہ آہستہ حسد کا شکار کر دیتی ہے۔

آپ بہی خواہ سے بالکل انجانے طور پر اپنے ہی دوست کے بد خواہ ہو جاتے ہیں۔ مزاح کی آڑ میں نہ صرف اس کا مذاق اڑانے لگتے ہیں بلکہ اسے طنز کے ہدف پر رکھ لیتے ہیں۔ بیشتر افراد کی کمزوری یہ کہ وہ دکھ کی گھڑی میں ہمت ہار جاتے ہیں اور اپنے دوست کا ہر گھڑی کا رونا دھونا سن کر وہ پریشان ہو جاتے ہیں کہ پریشانیوں سے بھلا کیسے مفر؟

سو وہ اس اضافی غمگین کیفیت کا بوجھ نہیں سہار پاتے اور اس منفی توانائی سے رہائی پانے کے لیے وہ اپنے دوست ہی سے دوری و کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں اور یوں دوستی کا بھرم و اعتبار جاتا رہتا ہے۔ بد قسمتی سے کبھی کبھی نادان دوست بھی پلے پڑ جاتا ہے جو زندگی کے دھارے کو طوفان بلا خیز سے ہم کنار کرنے کا مرتکب و موجب بن جاتا ہے۔

قصہ مختصر فی زمانہ اچھا دوست بننا یا اچھے دوست کی دستیابی دونوں ہی مشکل امر۔ افتخار عارف نے دوست کی کیا بہترین عکاسی کی ہے۔

دیار نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو

کوئی تو ہو جو میری وحشتوں کا ساتھی ہو

میں اس سے جھوٹ بھی بولوں تو مجھ سے سچ بولے

مرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو

وہ میرے نام کی نسبت سے معتبر ٹھہرے

گلی گلی مری رسوائیوں کا ساتھی ہو

کرے کلام جو مجھ سے میرے لہجے میں

میں چپ رہوں تو میرے تیوروں کا ساتھی ہو۔

اب بھلا اس قدر مکمل اور پکچر پرفیکٹ دوست کہاں مل سکتا ہے؟

ذاتی طور پر ہمیں اس ایک سال کے طویل المیہ لمحوں نے گزرتے ہوئے اتنا کچھ دکھایا، سکھایا اور سمجھایا کہ عقل حیران اور دل پریشان ہے۔ بہت سے عزیزوں اور دوستوں کے نقاب سرکے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ میرے پاس محض چھنگلی کی پور بھر ہی دوست بچے۔ کبھی کبھی ایسا بھی محسوس ہوا کہ بتول اور بچوں کے بچھڑنے کی اذیت جہاں سانس سانس آزار ہے وہیں عزیزوں اور دوستوں کی زود فراموشی نے بھی دل فگار کیا۔

میرے وہ تمام عزیز اور دوست جو بتول اور بچوں کی برسی اور عیدین پر میرے پاس پرسے کے لیے نہ آئے اور نہ ہی فون یا ٹکسٹ میسج کیا، ہم نے ان سب کو دل بدر کر دیا ہے۔ اب بس، ہم ہیں اور ہم ہی ہم ہیں دوستوں۔ اس گزرے ایک سال نے یہ یقین دلایا کہ آپ خود ہی اپنے بہترین دوست ہیں۔ جب آپ اپنے بہتے آنسو خود پونچھتے ہیں اور اپنے ہی شانے پہ سر رکھ کر روتے ہیں تو یقین کیجیے آپ بہت بہادر ہو جاتے ہیں۔

پھر آپ عارضی دوستوں کے سہارے کے منتظر نہیں رہتے کہ آپ اس رفیق اعلیٰ سے اپنے درد کی شراکت کر لیتے ہیں۔ یہ مقام تو خیر بلند بختوں کے لیے مخصوص ہے مگر ہم، کہ حقیر سے آدمی ہیں سو کوشش کر کہ اپنے آپ سے دوستانہ استوار کر لیا ہے اور با خدا اس دوستی سے اب بڑے سکون میں ہیں۔ روز صبح دانتوں کو مانجھتے ہوئے شیشے میں خود ہی اپنی خیریت پوچھتے اور گزری رات کا احوال لینے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو ایک اچھے دن کی نوید بھی دیتے ہیں اور نئی ہمت اور حوصلے کے ساتھ دن تمام کرتے ہیں۔

یہ ہنر مجھ کو بڑی دیر کے بعد آیا ہے

رنج کے ساتھ جو رنجیدہ نہیں لگتا میں۔

ہم خوش ہیں کہ دیر سے ہی سہی مگر ہم نے بہتر انتخاب کیا۔ اب نہ کسی سے توقع و امید اور نہ ہی گلہ و شکوہ کہ دکھ ویسے بھی بڑے قابل احترام ہوتے ہیں اور انہیں کوئی سرسری لے، دکھ کی اس سے بڑی توہین اور کیا ہو گی؟ سو دوستوں کی تلاش و جستجو عبث۔ اس جستجو کو چھوڑیے اور خود کے دوست بنیے کہ اس رشتے میں نہ جدائی کا دھڑکہ اور نہ ہی بے وفائی کا کھٹکا۔ اپنے دکھ سکھ خود سے کیجیے اور پر سکون اور مطمئن رہیے۔

شکوہ اول تو بے حساب کیا

اور پھر بند ہی یہ باب کیا

تھی کسی شخص کی تلاش مجھے

میں نے خود کو ہی انتخاب کیا۔

Check Also

Masoom Zehan, Nasal Parast Ban Gaye

By Zaigham Qadeer