Adhoori Kahani Muhabbat Ki (1)
ادھوری کہانی محبت کی (1)
یہ کہانی کراچی یعنی میرے شہر دلبرا کے ایک گنجان محلے کی ہے جہاں نہ صرف گھر سے گھر ملے ہوئے تھے بلکہ دلوں میں بھی دوریاں نہ تھیں۔ سکون کا زمانہ تھا، رات کے آخری پہر بھی اگر گھر کا دروازہ کھلا رہ جائے تو کسی کو تشویش نہیں ستاتی تھی۔
گھروں میں پچھلی گلیوں کا رواج تھا اور پچھلی گلیاں زنان خانہ تصور کی جاتی تھیں۔ گلی سے خاکروب اور مختلف پھیری والے رنگیلی تانوں میں صدا لگا کر گزرا کرتے تھے۔ پچھواڑے کا دروازہ تو شاید ہی کوئی بند کرتا تھا، بس دروازے بھڑے رہتے تھے جو ہلکی سی دستک پر
عاشق کے دل کی طرح وا ہو جایا کرتے تھے
پیاز یا ایک کپ شکر مانگنا عار تھا نہ ادھار
اس زمانے میں نہ دیوبندی تھے، نہ بریلوی اور نہ ہی شیعہ نہ سنی کا ٹنٹا۔
سب گھروں میں صبح ریڈیو پر تلاوت گونجا کرتی پھر دن چڑھتے ہی گھر گھر سے رنگ رنگ کے ریڈیو اسٹیشن گونجا کرتے۔ کہیں ریڈیو سیلون تو کہیں کراچی اسٹیشن سے ارشاد حسین کاظمی کی گمبھیر آواز اور ناہید اختر کی تانیں۔
"دل توڑ کے مت جئیو برسات کا موسم ہے۔ "
یا مہدی حسن کی ہوش گم کرتی آواز
"زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں
میں تو مر کر بھی میری جان تجھے چاہوں گا۔ "
اور بندہ اس آواز کے سحر کے دوش پر زمانوں کی سیر کر آتا۔
زندگی اتنی تیز رفتار نہیں تھی۔ موسم نہ صرف محسوس کئے جاتے تھے بلکہ جوش و خروش سے منائے بھی جاتے تھے۔ کم تھا پر سب سانجھا تھا۔ ایک کا درد سب کے دل پر دستک دیتا اور خوشیاں اور مہمان بھی اجتماعی ہوتے تھے۔ شادی بیاہ یا مہمان داری کے موقعوں پر عاریتاً گدا لحاف لینا معیوب نہ تھا۔
یہ اسی دور مخلصی کی پریم کتھا ہے۔
گلی میں ہم دونوں کے دروازے آمنے سامنے کھلتے تھے۔ وہ بوٹے قد کی، ڈمپل والی حسین لڑکی، جس کی چمپئی رنگت اور گہرے سیاہ بالوں کی گھٹنوں کو چھوتی ہوئی موٹی ریشمی چوٹی تھی۔ وہ چندر مکھی ہنستی پہلے اور بولتی بعد میں تھی زندگی کی امنگوں سے سرشار۔ جہاں بیٹھ جاتی محفل کشت زعفران بن جاتی۔ سچ تو یہ ہے کہ پہلے پہل میں افسانہ باجی کی چوٹی پر ہی فدا ہوئی تھی۔
ہم دونوں تقریباً ایک ہی وقت میں کالج کے لیے نکلا کرتے تھے میں فرسٹ ائیر کی الہڑ احمق تھی اور وہ فورتھ یر کی نازنین۔ افسانہ باجی آٹھ بھائی بہن تھیں اور ترتیب میں تیسرے نمبر پر۔ پانچویں نمبر پر جو بہن تھی دردانہ وہ میری ہم جماعت تھی پر میری اس سے بس علیک سلیک تھی دوستی نہیں۔
ہنسوڑ اور زندہ دل تو وہ سارا گھرانہ ہی تھا۔ صبح فجر کی نماز کے بعد آنٹی کی پرسوز آواز میں تلاوت کے بعد باورچی خانے میں برتنوں کے کھڑکنے کے ساتھ ہی اس گھر میں زندگی کی لہر چہر شروع ہو جاتی اور ایک ہڑبونگ مچ جاتی۔ تین کمروں کا مختصر سا گھر جسکے مکینوں کا بیشتر کام اور وقت صحن میں ہی بسر ہوتا۔ ہوا کے دوش پر تلتے پراٹھے اور آملیٹ کی خوشبو کے ساتھ ساتھ قہقہے اور خوش نوائی بھی اڑوس پڑوس میں سفر کرتی پھرتی۔
مجھے وہ گھرانہ اپنی زندہ دلی کے سبب بہت پسند تھا اور کچھ آنٹی کی محبت بھی دامن دل کھینچتی تھی۔ جانے اللہ تعالیٰ نے ان کے منحنی سے وجود میں کس قدر وسیع دل رکھ دیا تھا کہ اپنے آٹھ عدد جگر گوشوں کے باوجود وہ مجھ سے بھی بہت محبت کرتی اور دن کے کھانے پر تقریباً روز ہی میرے لیے کچھ نہ کچھ سوغات ان کے گھر سے ضرور آتی، بھلے وہ تل کی چٹنی ہی کیوں نہ ہو۔ میری پہلی دوست اس گھر میں محبت سے لبریز دل رکھنے والی شفیق سی آنٹی ہی تھیں۔ اتنا بڑا کنبہ تھا اور آنٹی ماتھے پر شکن ڈالے بغیر مشین کی طرح مستقل کام میں لگی رہتیں۔ چاروں بیٹیوں کو میں نے بہت کم ہی باورچی خانے میں دیکھا تھا۔ آٹھوں بھائی بہنوں کا مشغلہ گپ مارنا، بیت بازی، لوڈو، کارڈز اور شترنج کی بساط تھا۔
افسانہ باجی سے دوستی کا سبب کتابوں کا شوق تھا۔ وہ کتابوں کی رسیا تھیں اور ادھر میری بھی کچھ ایسی ہی جنوں خیزی تھی۔ بس اس سبب ہم دونوں باوجود عمروں کے فرق کے ہم پیالہ و ہم نوالہ ہو گئے تھے۔ گلی میں میرے گھر کی دیوار کے ساتھ آم کا کٹا ہوا تنا پڑا رہتا تھا جو میرے ہی گھر میں تیسرے کمرے کی تعمیر کی خاطر کٹا تھا اور جس کے کٹنے کا مجھے شدید قلق تھا مگر تعمیر بھی ضروری تھی۔ شام میں عصر کی نماز کے بعد جب دھوپ کی حدت ماند پڑ جاتی تھی اور کراچی کی مشہور و معروف سمندری ہوا دست مہرباں کی طرح گلے لگتی تو میں دو مگ چائے (ان دنوں مگ میں چائے پینے کا نیا نیا رواج چل پڑا تھا اور ابا جان پشاور کے باڑے سے بہت خوب صورت مگ لائے تھے) کے بنا کر افسانہ باجی کو آواز دیتی اور اسی تنے پر بیٹھے بیٹھے ہم دونوں کتابوں کو ڈسکس کرتے رہتے یہاں تک کہ شام سرمئی آنچل اوڑھ لیتی اور پھر امی یا آنٹی کی صدا آتی کہ
"نماز قضا کرنی ہے کیا"
اور ہم دونوں ہڑبڑا کر اگلی شام کے وعدے پر اپنے اپنے گھر کی راہ لیتے۔
اکثر افسانہ باجی کے گھر ان کا ایک گنگریالے بالوں والا ہینڈسم سا کزن آرمی کی جیپ پر آیا کرتا تھا۔ اس کی آمد پر افسانہ باجی کی چھب نرالی اور آواز کا سر اور چال کی لہر متوالی ہو جاتی تھی۔ اس دن عصر کے بعد کی نشت بھی معطل ہو جاتی۔ میں نے جب یہ بات تواتر سے نوٹ کی تو ایک دن ہمت کر کے ان سے پوچھ ہی لیا؟
گو کہ ہم دونوں دنیا جہاں کے موضوع پر گفتگو کرتے تھے مگر ہمارے بیچ ایک رکھ رکھاؤ اور حد ادب کی پردہ داری بہرحال حائل تھی۔ کچھ دن تو افسانہ باجی نے ٹال مٹول سے کام لیا مگر ایک دن خود ہی اپنی محبت کا شریک راز کر لیا۔ شاید وہ اس کومل بوجھ کو اٹھائے اٹھائے بھرے بادل کی مانند ہو گئی تھیں جس کا برسنا ضروری ہو گیا تھا۔ افسانہ باجی کے ساتھ میں نے بھی اس وادی اسرار کی خوب سیر کی۔
محبت انسان کو کتنی خوبصورتی، گداز اور فراخی عطا کرتی ہے اس کا مشاہدہ بھی کیا۔ ایک دفعہ افسانہ باجی نے مجھے ایک کتاب پڑھنے دی اور اس کتاب کا ہر رومینٹک جملہ انڈر لائن تھا۔ یہ بات ذرا خلاف معمول تھی کیونکہ اچھے جلمے یا پیراگراف ہم دونوں ہی اندر لائن کیا کرتے تھے مگر یہ سارے کے سارے جملے اس قدر واشگاف تھے کہ حد نہیں۔ میں نے پلٹ کر سرورق دیکھا اور بےاختیار مجھے ہنسی آ گئی کہ وہاں"مرسلین احمد" لکھا تھا۔
او ہو! یہ تو خوش جمال صاحب کی کتاب تھی۔ میں نے جب افسانہ باجی کو کتاب واپس کی تو کہا کہ پچھلے زمانوں میں جو کام کبوتروں سے لیا جاتا تھا وہ اب کتابیں کرنے لگیں ہیں۔ افسانہ باجی میرا اشارہ سمجھ کر خوب ہنسی۔ محبت تو ان دونوں کی تھی مگر اس کی کوملتا میں نے بھی محسوس کی تھی۔
دن سبک سری سے گزرتے گئے ان دنوں میرے لیے دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ سالانہ امتحان ہوا کرتا تھا۔ افسانہ باجی یونیورسٹی پہنچ چکی تھیں اور میں بھی اپنی بھانویں کچھ عقل مند ہو گئی تھی۔
کہتے ہیں عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے کہ
آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔