Sunday, 29 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Adaab e Taziyat

Adaab e Taziyat

آداب تعزیت

کہتے ہیں کہ انسان معاشرتی جانور ہے۔ اس جملے میں انسانوں کے برا ماننے کے لیے تو اب کچھ بھی نہیں کہ انسانیت کی ناگفتہ بہ صورت حال الم نشرح، البتہ جانوروں کے برا ماننے کا اندیشہ ضرور۔

معاشرہ چوں کہ انسانوں سے تشکیل پاتا ہے سو زندگی کرنے کے رنگ ڈھنگ اور ادب و آداب بھی ضروری ہیں۔ یوں بھی سیکھنے سکھانے کا عمل چلتے رہنا چاہیے کہ یہ ارتقاء کی نشانی۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ قدریں، طور طریقے اور معاشرتی رویے بدلتے جا رہے ہیں۔ ہماری ورچوئل ورلڈ نہ صرف فعال بلکہ ہماری حقیقی دنیا پر غالب بھی ہے۔ ادب آداب کے پرانے مظاہرے متروک اور نئے اشارے اور ایموجیز داخل زندگی۔

آپ چاہیں مشرق میں بسرام کرتے ہوں یا مغرب میں فروکش ہوں۔ کسی بھی مذہب اور طبقے سے بھی تعلق رکھتے ہوں انسانی معاشرے میں رہنے کے مروجہ اصول و اصلاحات پر کاربند رہنا از بس ضروری ہے۔ اخلاقیات کو بہر حال اول ترجیح کہ خواہ یہ خانگی زندگی ہو یا معاشرتی، اخلاقیات ہر پہلو سے اہم ترین۔

یوں تو ہمیں اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے کے آداب، میل ملاقات کے دوران رسمی جملے اور بوڈی لینگویج پر بھی کام کرنے کی اشد ضرورت ہے مگر میرا آج کا موضوع "آداب تعزیت" ہے۔

ہمارے معاشرے میں عموماً موت پہ بات کرنا غیر پسندیدہ ہے، لہذا اس اندوہ ناک صورت حال کو کیسے سنبھالنا ہے؟

اس گمبھیر سچویشن کو کیسے ہینڈل کرنا ہے؟ سیکھایا ہی نہیں جاتا۔ تعزیتی جملے کس طرح کے ہونے چاہیے اور سوگ والے گھر کے دو اینڈ ڈونٹ (do and don't) سے اکثریت لا علم ہے۔

کسی سوگ والے گھر میں جا رہے ہیں تو خدارا متجسس مت رہیے۔ اگر آپ قریبی عزیز نہیں ہیں اور آپ کے علم میں پورا واقعہ نہیں ہے تو اس کی کھوج میں گھر والوں یا شریک محفل پہ سوالات کی بوچھاڑ مت کر دیجیے۔ آپ کا رول بس اتنا ہونا چاہیے کہ مناسب حلیے میں تعزیت کے لیے سوگ والے گھر میں جائیں اگر گھر والے سنبھلے ہوئے ہیں، صبر کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو انہیں صبر کی تلقین اور مرحوم / مرحومہ کی بخشش کے لیے دعا کر دیجیے۔ اگر متعلقین ناگہانی صدمے سے شدید نڈھال ہیں تو خدارا ان کے گلے لٹکنے اور ان کی دنیا کے اجڑ جانے کی پیشنگوئی کرنے سے گریز کیجیے۔ اگر صدمے سے متاثرہ شخص کو کسی الگ کمرے میں لٹا دیا گیا ہے تو پورے گھر

میں اس کی تلاش میں کمرے کمرے بھٹکتے نہ پھریں۔ میزبانوں میں جو سامنے ہیں ان سے تعزیت کیجیے۔ دل کی لگن کے ساتھ قرآن شریف پڑھنا چاہتے/ چاہتی ہیں تو ضرور پڑھیں ورنہ قرآن مجید کے ورقوں میں انگلیاں پھنسا کر دنیا کی باتیں نہ شروع کر دیجیے۔ سوگ والے گھر میں قیام مختصر ترین رکھنا مناسب۔ استطاعت و صلاحیت ہے تو اگلی دفعہ وہاں جاتے ہوئے ڈسپوزیبل ڈبے میں کچھ پکا کر لے جائیں۔

تعلقات قریبی ہیں تو سوگ والے گھر کا بکھراوا سمیٹے کی کوشش بہت صائب۔ کچن سنک اگر گندے برتن سے بھری ہوئی ہے تو دھو کر صاف کر دیجیے۔ اس گھر کے بچے ابتر حالت میں ہیں تو ان کے کپڑے بدلوا دیجیے اور گندے کپڑے سمیٹ کر اپنے گھر لے آئیں تاکہ دھو کر اگلی وزٹ پر وآپس کر دیے جائیں۔ جس حد تک ممکن ہو سہولت اور آسانی پہچانے کی کوشش کیجیے۔ غیر ضروری سوالات سے مکمل اجتناب۔ گھر والوں کو اگر کسی فوری فیصلہ لینے کی ضرورت ہے تو انہیں یکسوئی اور تنہائی فراہم کیجیے۔

اب کیا ہو گا؟ کیسے ہو گا؟ مرحوم/ مرحومہ کی وصیت کیا ہے؟

یہ صرف اور صرف متعلقین کا ذاتی معاملہ ہے، ان سوالات کی کھوج میں ہلکان نہ ہوں۔

غم کو سہنے اور برداشت کرنے کا سب کا اپنا اپنا طریقہء کار ہوتا ہے۔ ہر شخص غم کو مختلف طریقے سے پراسس کرتا ہے کہ یہ برداشت و صبر کسی کلیہ پر کار بند نہیں۔ خدارا معاون بنیں، محتسب بننے سے گریز کیجیے۔

آپ اگر کسی دوسرے شہر میں ہیں تو فوتگی والے گھر میں بار بار فون مت کیجیے کہ اس سوگ والے گھر میں زندگی اپنی نارمل روٹین نہیں چل رہی ہوتی۔ متعلقین کے دلوں کے ساتھ ساتھ ان کا گھر بھی تلپٹ ہو جاتا ہے۔

بعض افراد کے دل اتنے مضبوط نہیں ہوتے کہ وہ بار بار اس دل خراش جملے کو سن سکیں سو بہتر یہی ہے کہ تعزیتی پیغام کا وائس نوٹ یا میسج چھوڑ دیا جائے۔ وہ اپنی سہولت سے دیکھ لیں گے اور اگر مناسب ذہنی حالت ہوئی تو جواب بھی دے دینگے۔ غم سے نبرد آزما ہونا آسان نہیں کہ گزرتے وقت کے ساتھ زخم پر کھرنڈ ضرور آتی ہے مگر وہ زخم اندر سے کچا ہی ہوتا ہے۔ ان الم نصیبوں کو زندگی کے دھارے میں دوبارہ شامل ہونے کے لیے بہت زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے، مسکرانے کے لیے کشٹ اٹھانے پڑتے ہیں۔

رنج کتنا بھی کریں ان کا زمانے والے

جانے والے تو نہیں لوٹ کے آنے والے

کیسی بے فیض سی رہ جاتی ہے دل کی بستی

کیسے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے

دوست ان غم کے ماروں سے بے پروا نہ ہو جائیں کہ وہ اب پہلے جیسے دلچسپ اور زندگی سے بھر پور نہیں رہے، بلکہ برابر ان کی غم خواری و خبر گیری کرتے رہیں۔ تہوار اور خوشی کے لمحات، چاہے وہ سالگراہ ہو یا گریجویشن متعلقین کے لیے دشوار ترین وقت ہوتا ہے۔ درد کے اس پل صراط کو پار کرنے کے لیے وہ اپنے عزیزوں اور دوستوں کے ہمدرد سہارے کے منتظر رہتے ہیں۔

ایک یہ احتیاط بھی ضرور ملحوظ خاطر رہے کہ اگر کچھ عرصے کے بعد آپ کی متعلقین سے کسی خوشی کی محفل، تفریحی مقام یا شاپنگ سینٹر پر ملاقات ہو تو وہاں تعزیت سے گریز کیجیے۔ مرحوم/ مرحومہ کی کوئی خوشگوار یاد چاہیں تو ضرور دہرا لیں مگر دھیان رہے کہ کہیں انجانے میں آپ متعلقین کی اس وقتی یا لمحاتی خوشی کو تاراج نہ کر دیں کہ وہ بڑی مشکل سے گھر سے نکلنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔

سوگ میں مبتلا متعلقین کا لوگوں سے گریز، اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ بار بار فراق کے اس دکھ سے بچنا چاہتے ہیں کیوں کہ تعزیتی جملے اس دل گیر گھڑی کو دوبارہ مجسم کر دیتے ہیں۔ وہ تکلیف دہ ساعت ریوائنڈ ہو کر پھر اسی اذیت میں مبتلا کر دیتی ہے۔

جانے والے جا چکے، ان سے محبت کے اظہار کے لیے اب صرف دعا اور صدقے کا در کھلا ہے پر جو دل فگار متعلقین ہیں ان کے لیے زبانوں کا مرہم اکسیر۔ انہیں فقط ایک ہمدرد کاندھے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک ایسے حساس دل کی جو ان کی تکلیف اور جدائی کے غم کو سمجھ سکے۔ جب بھی کسی سوگوار سے ملیں اپنے الفاظ کا چناؤ پوری حساسیت کے ساتھ کریں۔

موو آن ہونا یا آگے بڑھ جانا اتنا آسان نہیں کہ کبھی کبھی وہ جانے والا ایک شخص یا اشخاص ہی پیچھے رہ جانے والوں کی کل کائنات ہوتے ہیں۔ زندگی کے شانہ بہ شانہ رواں رہنے کے لیے بہت محنت اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ راستے میں کئی بار پیر لڑکھڑاتے اور دم اکھڑتا ہے۔ دنیا بے رنگ و نور ہو جاتی ہے اور حیات کا لطف جاتا رہتا ہے۔ جینے کی امنگ اور زندگی کی جوت لمحہ لمحہ بجھتی جاتی ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ کی ذاتِ بے مثال ہی ہے جو صبر دے سکتی ہے اور دیتی بھی ہے مگر اس سارے عمل کے لیے طویل وقت درکار ہوتا ہے کہ زخم پر کھرنڈ آ بھی جائے تب بھی

اب شغل ہے یہی دل ایذا پسند کا

جو زخم بھر گیا ہے نشاں اس کا دیکھنا

Check Also

Adh Adhoore Log

By Muhammad Ali Ahmar