Mazoor Afrad 3 December Ko Youm e Siyah Kyun Manate Hain?
معذور افراد 3 دسمبر کو یوم سیاہ کیوں مناتے ہیں؟
3 دسمبر معذور افراد کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ لیکن وطن عزیز میں گزشتہ چند سالوں سے اس دن کو سیاہ دن کے طور پر منایا جاتا ہے جس کی وجہ حکومت اور معذور افراد کیلئے کام کرنے والی تنظیموں کے ناکافی کام کو قرار دیا جاتا ہے۔ 2017ء کی مردم شماری سے معذور افراد کو باہر نکال کر حکومت نے ثابت کر دیا کہ معذور افراد کی بہبود حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔
دوسری طرف غیر سرکاری تنظمیں اس دن کو عید کی طرح مناتی ہیں۔ اقوام متحدہ اور انٹرنیشنل این جی اوز کے علاوہ مختلف ممالک کے ایمبیسڈرز کو تقاریب میں مدعو کیا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ سے لے کر چاروں صوبوں کے وزیر اعلیٰ ہاؤس کے باہر علامتی احتجاج کیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے ہوٹلوں میں لمبی لمبی تقریریں کی جاتی ہیں اور اقوام متحدہ کے گولز پڑھائے جاتے ہیں۔ ٹی وی پر پروگرام نشر کیئے جاتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پوری کارروائی کے بعد این جی اوز کو تو فارن ڈونرز سے کروڑوں کے پراجیکٹ مل جاتے ہیں۔ لیکن معذور افراد کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔
تعلیم، خواتین، بچوں، منشیات وغیرہ پر کام کرنے والی چند تنظیموں کے سربراہان لنکڈان پر میرے ساتھ ایڈ ہیں۔ انکے پیجز پر بھی اسی قسم کے ڈرامے چل رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ ہمیں معاشرے میں کسی بھی حوالے سے کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ ہمارے ملک میں سوشل ورک ایک غیر قانونی دھندے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ چمک دھمک، دکھاوا، جھوٹ، فرضی کہانیاں اس دھندے کا حصہ بن چکے ہیں۔ انٹرنیشنل این جی اوز سے پراجیکٹ لینے کیلئے ان کے لوگوں کو رشوتوں سے لے کر انکی ہر جائز ناجائز خواہش کو پورا کیا جاتا ہے۔ پیسہ مل جائے تو اس سے خوب عیاشی کی جاتی ہے۔
میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جنھوں نے ساری زندگی کوئی کام نہیں کیا۔ لیکن سوشل ورک میں قدم رکھتے ہی دو تین سالوں میں گھر اور گاڑیاں بنا لیں۔ ایسے ہی ایک مشہور شخص کو میں نے مشورہ دیا کہ اگر کبھی ایف بی آر یا ایف آئی آئے کی نظروں میں آگئے تو کیا جواب دو گے۔ تمھارے پاس نہ تو کوئی نوکری ہے نہ کاروبار۔ کہنے لگا آپ فکر نہ کریں میرے بھی بڑے تعلقات ہیں میں سنبھال لونگا۔
جس طرح سیاسی جماعتوں نے جلسوں کو بھرنے کیلئے ہر علاقے میں لوگ رکھے ہوتے ہیں۔ جنھیں جلسوں میں لوگ لانے کیلئے پیسے دیئے جاتے ہیں۔ وہ شخص بریانی کی پلیٹ، سیر و تفریح کا لالچ یا پھر پیسے دے کر لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
این جی اوز کے فنکشنز میں نظر آنے والے معذور افراد کو بھی اسی طرح فنکشنز میں لایا جاتا ہے۔ کسی ایسے بندے کو گھیرا جاتا ہے جس کے رابطے میں کافی معذور لوگ ہوں۔ فنکشن میں دس سے بیس معذور افراد کو لانے کا کہا جاتا ہے۔ وہ شخص معذور افراد کو ٹیکسی کے کرائے اور بڑے ہوٹل میں کھانے کا لالچ دے کر فنکشنز میں بلا لیتا ہے۔ پھر انکی تصویریں دنیا کو دکھا کر پیسے بٹورے جاتے ہیں۔
چند روز قبل راولپنڈی سے ایک لڑکی کی کال آئی جس کا نام فرضی نام صائمہ ہے۔ معذور افراد کیلئے کام کرنے والی مختلف این جی اوز کے فنکشنز کو لڑکیوں سے بھرنے کیلئے اکثر صائمہ سے رابطہ کرتی ہیں۔ معذور افراد کے حقوق کے نام پر این جی اوز جہاں کہیں بھی فنکشنز یا سیمینارز کا انعقاد کرتی ہیں۔ لوگوں کو لانے کا طریقہ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ بعض جگہوں پر اس مسئلے پر لڑائیاں بھی ہوتی ہیں۔ ایک این۔ جی۔ او دوسری این۔ جی۔ او کا ایونٹ ناکام کرنے کیلئے اپنے معذوروں کو کہتی ہے کہ تم نے دوسری این جی او کے ایونٹ میں نہیں جانا۔
ہمارے ملک کے سوشل سیکٹر میں اقوام متحدہ کی ایجنسیز، امریکی، برطانیہ اور جاپان کے قونصلیٹ اور این جی اوز سب سے زیادہ سرگرم نظر آتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ اتنے سرگرم کیوں رہتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں لگنے والی آگ کے ذمہ داروں میں برطانیہ کی خفیہ ایجنسی کا نام زبان زد عام رہا۔
2014ء کے دھرنوں میں یو این ڈی پی، ڈبلیو ایچ او اور امریکہ کی این جی او سیو دا چلڈرن کے نام منظر عام پر آئے۔ جس کے بعد سیو دا چلڈرن پر پابندی لگا دی گئی۔ چند روز قبل جاپان کی گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں سوزوکی، ہنڈا اور ٹویوٹا کو بلیک لسٹ کیا گیا۔ ان کمپنیوں کی لوٹ مار کو ہمیشہ جاپانی حکومت کی سپورٹ حاصل رہی ہے۔ سوزوکی، ٹویوٹا اور ہونڈا گاڑیوں کی صنعت کو جتنا نقصان پہنچا چکے ہیں اسکا ازالہ کرنے میں شاید دہائیاں لگیں۔
سکینڈل سے چند روز قبل جاپان کی این جی او جائیکا مختلف شہروں کے 14 معذور افراد کو جاپان کی سیر کرانے لے کر گئی ہے۔ جنوری میں مزید لوگوں کو لے کر جائے گئی۔
این جی اوز کو ملنے والی فارن فنڈنگ نہ تو نیک مقصد کیلئے آتی ہے اور نہ ہی نیک لوگوں کے ہاتھوں میں دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ این جی اوز ایک فیصد تبدیلی لانے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکیں۔ ایک اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے سوشل سیکٹر میں میرٹ نام کی کوئی چیز نہیں۔ میں نے این جی او بنا لی۔ اپنے بھائی، بہنوں، بیوی، بچوں یا پھر دوستوں کو اہم عہدے دے دیئے۔ کسی دوسرے کام میں پیسہ نظر آیا تو اپنے ہی کسی بندے سے ایک اور این جی او بنوا لی اور یہاں سے بھی پیسہ بنانا شروع کر دیا۔
معذور افراد کی چند این جی اوز کے کچھ لیڈرز اتنے مشہور ہوچکے ہیں کہ مہینے میں دوچار چکر باہر کے لگا آتے ہیں۔ ان کے دفاتر کے باہر ہر وقت اقوام متحدہ کی کسی ایجنسی کی گاڑی کھڑی رہتی ہے۔ اقوام متحدہ اور دنیا کی بڑی بڑی این جی اوز کے پیجز پر انھیں گلوبل لیڈر کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ میں انکے اقوال زریں اکثر کسی عالمی ایجنسی کے پیج پر پڑھتا ہوں۔
معذور افراد ان لیڈرز اور انکے نام سے بھی واقف نہیں۔ انکی ساری گیم اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے بڑے ہوٹلوں اور ایمبیسیوں تک محدور ہے۔ اگر یہ لوگوں کے سامنے آئے تو لوگ سوال کریں گے۔ جن کا جواب یہ نہیں دے سکیں گے۔
عالمی ایجنسیوں کی آنکھوں کا تارا ہونے کی وجہ سے یہی لوگ حکومت کے بھی قریب ہوتے ہیں۔ حکومت کی ہر پالیسی پر لبیک کہنا۔ کاغذی کام اور عملی اقدامات سے عاری منصوبوں کے مشورے انہی لوگوں کی طرف سے حکومت کو دیئے جاتے ہیں۔
چند برس قبل حکومت نے 3 دسمبر کو معذور افراد کے حقوق پر کام کرنے والوں کو پارلیمنٹ میں بلا کر ایوارڈ دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ ملک بھر سے کام کرنے والے لوگوں کا ڈیٹا جمع کرنے کا کام ایک این جی او کو سونپ دیا گیا۔ ایوارڈ حاصل کرنے والے لوگوں کے نام حکومت اور عالمی ایجنسیوں کے سامنے آنے کے ڈر سے ہر سال یہ ایوارڈ اپنے جاننے والوں کو تھما دیئے جاتے ہیں۔ جنھوں نے معذور افراد کی فلاح کیلئے کوئی کام نہیں کیا ہوتا۔