Khusoosi Larkiyan Tawajah Ka Markaz Kyun Na Ban Sakeen?
خصوصی لڑکیاں توجہ کا مرکز کیوں نہ بن سکیں؟
چند برس قبل میں نے پی ٹی وی کی رمضان ٹرانسمیشن میں ویل چیئر پر بیٹھی لڑکی کو دیکھا تو دل خوشی سے جھوم اُٹھا۔ میں امید کر رہا تھا کہ پی ٹی وی کی دیکھا دیکھی شاید دوسرے چینلز بھی خصوصی لڑکیوں کو موقع فراہم کریں گے۔ آگہی عام ہوگی جو معذور افراد کے مسائل حل کرنے میں مدد فراہم کرنے کا سبب بنے گی۔
منیبہ مزاری کی بات کریں تو وہ خوبصورت ہے، پڑھی لکھی ہے، آرٹسٹ ہے، بڑے سے بڑے فورم پر بات کرنا جانتی ہے۔ میں نے یوٹیوب پر منیبہ کی بہت سی موٹیویشنل ویڈیوز دیکھیں ہیں۔ انٹرنیشنل پلیٹ فارمز پر منیبہ نے جس خود اعتمادی کے ساتھ لیکچرز دیئے ہیں اسکی مثال نہیں ملتی۔
معاشرے کی توجہ حاصل کرنے اور یہ باور کروانے کیلئے کہ ہم ہر کام کرسکتی ہیں۔ تین خصوصی لڑکیوں نے دو سال قبل ویل چیئر پر مصر کا سفر کیا۔ ویل چیئر پر احرامِ مصر تک گئیں۔ سفر سے واپسی پر چند اخبارت اور ٹی وی چینلز نے انھیں مدعو کیا لیکن بات نہ بنی۔
ان تین لڑکیوں میں سے ایک کا نام زرغونہ ودود ہے۔ 2019 میں، مَیں نے خصوصی لڑکیوں کے انٹرویوز کا آغاز زرغونہ سے ہی کیا تھا۔ زرغونہ کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔ انگریزی ادب میں ایم اے کے ساتھ وکالت کی ڈگری بھی کی ہے۔ انسیپشن کے نام سے ایک این جی او چلا رہی ہیں۔ زرغونہ خصوصی افراد کے مسائل پر گہری نظر رکھتی ہیں اس لیے ہم مسائل پرہونے والی ہر ڈیبیٹ میں زرغونہ کو ضرور مدعو کرتے ہیں۔
گروپ کی دوسری لڑکی کا نام افشاں آفریدی ہے۔ افشاں کا انٹرویو بھی میں نے 2019 میں ہی کیا تھا۔ افشاں نے مائیکروبیالوجی میں ڈگری کی ہے۔ عمران خان کی حکومت کے دوران خیبرپختون خوا میں ایمپیکٹ چیلنج کا انعقاد کیا گیا جس میں افشاں نے اپنا بزنس آئیڈیا پیش کیا جسے "میرا درزی" کا نام دیا گیا۔ اس آئیڈیے کو کے پی حکومت نے خوب سراہا اور اسکے لیے فنڈز کا اجراء بھی کیا۔ میرا درزی عام موبائل ایپلیکیشنز کی طرح کی ایک ایپ ہے۔ جس کا مقصد لوگوں کو گھر تک سلائی کی سروس مہیا کرنا ہے۔
خیبرپختون خوا میں خواتین کے گھر سے باہر نکلنے کی زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ میرا درزی ایپ کا مقصد ایک طرف خواتین کو گھر میں ناپ دینے کی سہولت فراہم کرنا تھی۔ ایپ میں ایک اور خاص بات یہ تھی کہ اس ایپ میں معذور اور حادثات میں زخمی ہونے والے لوگوں کے مخصوص کپڑوں کی سلائی کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ جس میں ان کی پسند نا پسند سے لے کر جسمانی خدوخال کے مطابق کپڑوں کو ڈیزائن کرنا تھا۔ تاکہ افشان کے مخصوص کپڑے خصوصی افراد اور انکے اٹینڈنٹ دونوں کو آسانیاں فراہم کرنے کا باعث بنیں۔
تیسری لڑکی کا نام تنزیلہ خان ہے جو اسلام آباد سے ہے۔ تنزیلہ بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بہت سے ایوارڈز اپنے نام کرچکی ہیں۔ آجکل ڈگری کرنے بیرون ملک مقیم ہیں۔
افشاں اور زرغونہ کی طرح میں نے بہت سی لڑکیوں کے انٹرویوز کیے۔ مقصد یہی تھا کسی طرح ان لڑکیوں کے مسائل پر بات ہوسکے۔ 2018ء سے ملک میں ایک نئی تحریک کا آغاز ہوا۔ جسے عورت مارچ کا نام دیا گیا۔ عورت مارچ میں خصوصی لڑکیوں کو بھی موعو کیا گیا۔ کچھ لڑکیوں نے جب مجھ سے مشورہ کیا تو میں نے جواب دیا کہ آج سے سوا سو سال قبل بھی خصوصی خواتین مختلف عورت مارچ کا حصہ بنیں۔ لیکن انھوں نے کبھی خصوصی خواتین کے حقوق پر زیادہ توجہ نہیں دی۔
خصوصی لڑکیوں کے مسائل کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے میں نے پہلا کام یہ کیا کہ خصوصی افراد کو سوشل میڈیا پر متحرک کرنا شروع کیا۔ پھر لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک دوسرے کا دوست بنانے کا مشورہ دیا۔ پھر ان کی آپس میں شادیاں کرنے کی تحریک کا آغاز کیا۔ 2019ء میں بلاگز اور انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیا تو پوری کوشش کی کہ ملک کے کونے کونے سے نئی لڑکیوں کو سامنے لانے کا موقع فراہم کیا جائے۔
میرے انٹریوز سے پہلے لوگ صرف منیبہ مزاری، ابیہ، تنزیلہ جیسی چند لڑکیوں کے ناموں سے واقف تھے۔ میرے انٹریوز نئے چہرے معارف کروانے کا سبب بنے۔ میرا کوئی پراجیکٹ بھی ناکام نہیں گیا۔ میری وجہ سے ہزاروں لوگ سوشل میڈیا پر متحرک ہوئے۔ بہت سے سوشل میڈیا گروپ بنے جہاں لوگ دن بھر اپنے مسائل پر بات کرتے ہیں۔ سینکڑوں معذور لڑکیوں نے معذور لڑکوں سے شادیاں کیں۔
آگہی کیا ہوتی ہے اسے کیسے عام کیا جاتا ہے ہماری کمیونٹی ان چیزوں سے واقف نہیں۔ اسلیئے میں آجکل معذور افراد کے سب سے بڑے گروپ میں روزانہ ایک سوال چھوڑ دیتا ہوں جہاں دن بھر بحث چلتی رہتی ہے۔
میں جب بھی اپنے کام کا جائزہ لیتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میرا کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ خصوصی خواتین ملک کی آبادی کا دس فیصد حصہ ہیں۔ انکے مسائل عام خواتین سے کہیں ذیادہ ہیں۔ عام لڑکی کی جگہ کسی نابینا، سماعت سے محروم، ذہنی یا جسمانی معذور لڑکی کو رکھ کر دیکھیں اور پھر سوچیں کہ ان کے مسائل کس قدر گھمبیر ہونگے۔ میں ایسی لڑکیوں کو بھی جانتا ہوں جو خود سے کروٹ تک نہیں لے سکتیں، کپڑے تبدیل نہیں کرسکتیں، روٹی کا نوالہ تک نہیں توڑ کر کھا سکتیں۔
کیا کوئی حکومت کبھی انکے مسائل میں بھی سنجیدگی سے دلچسپی لے گی؟ کیا انکے مسائل پر کبھی کوئی ڈرامہ لکھے جائےگا؟ انکے حقوق کیلئے بھی کوئی عورت مارچ نکلےگا؟ خواتین کے مسائل پر بلاگز کے انبار لگانے والے کبھی انکے مسائل پر بھی بات کریں گے؟ اسلام آباد کا این جی او مافیا خصوصی لڑکیوں کے حقوق کے نام پر ہر سال کروڑوں کی فنڈنگ ہڑپ کر جاتا ہے۔ ان پر ہاتھ کون ڈالے گا؟
میں خصوصی لڑکیوں کی تصویریں بڑے غور سے دیکھتا ہوں۔ انکے چہروں پر عجیب سی اداسی اور مایوسی کے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔ جیسے وہ ہم سے سوال کر رہی ہوں کہ انکا قصور کیا ہے؟ کیا انکے حقوق کو بھی کبھی انسانی حقوق تسلیم کیا جائے گا؟ کیا انھیں بھی عام لڑکیوں کی طرح بھر پور زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیا جائے گا؟
میں خصوصی لڑکیوں کے حقوق کے مشن سے گزشتہ آٹھ سالوں سے جڑا ہوں۔ کچھ نہ بھی کرسکا تو کوشش ضرور کرتا رہونگا۔