Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saqib Luqman Qureshi
  4. Kam Umar Drivers Ke Khilaf Police Ka Crackdown

Kam Umar Drivers Ke Khilaf Police Ka Crackdown

کم عمر ڈرائیورز کیخلاف پولیس کا کریک ڈاؤن

چند روز قبل لاہور کے علاقے ڈیفنس میں ٹریفک حادثے میں ایک ہی خاندان کے چھ افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔ ایکسیڈنٹ کے ایک روز بعد افنان نامی کم عمر ڈرائیور کا انٹرویو چلا۔ جس میں وہ کہ رہا تھا کہ وہ عسکری 11 کا رہائشی ہے۔ وہ تیز رفتار میں جا رہا تھا کہ سامنے سے ایک گاڑی اچانک نمودار ہوئی۔ کیونکہ اسکے دونوں اطراف میں بیرئیر تھے اس لیے وہ اسپیڈ نہ کم کر سکا۔ جس کی وجہ سے حادثہ ہوگیا۔

پولیس نے کیس کو کمر عمر بچے کی غلطی قرار دینے کی بھر پور کوشش کی۔ افنان کو جیل بھیجنے کی تیاری تھی جس کے بعد اسکی ضمانت ہو جانی تھی۔ لیکن بات پھر میڈیا تک پہنچ ہی گئی۔ جس کے بعد پتہ چلا کہ پولیس کے سی پی او لاہور تک ملزم کو بچانے میں سرگرم ہیں۔ مقتولین کو پیسوں کی آفر اور دھمکیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ کیس کا فیصلہ کیا ہوگا ہم سب جانتے ہیں۔

چند روز قبل میں ٹیکسی پر دفتر جا رہا تھا۔ راستے میں پولیس کے کردار پر بات ہوئی تو ڈرائیور نے بتایا کہ چند روز قبل وہ سواری کے انتظار میں پیرودہائی سٹاپ پر کھڑا تھا، رات ہوگئی۔ دس بجے کے ٹائم سٹاپ پر بس آکر رکی۔ ایک نوجوان لڑکا ٹیکسی والے کے پاس آیا کہنے لگا میں کسی کام سے چند دنوں کیلئے پنڈی آیا ہوں۔ ہوٹل میں کمرہ دلوا دو۔ ٹیکسی والا اسے صدر لے کر جانے لگا۔ جہاں اسے کچھ کمیشن مل جانی تھی۔۔ لڑکا کسی سے فون پر بات کرنے لگا۔ قاسم مارکیٹ کے قریب اس نے گاڑی رکوا دی۔ تھوڑی دیر بعد ایک آدمی موٹر سائیکل پر ایک لڑکی لے کر آیا۔ ریٹ طے ہوئے۔ لڑکی کو گاڑی میں بٹھایا اور صدر کی طرف چل دیئے۔

ٹیکسی والے نے لڑکے کے ساتھ مل کر کمرے کے ریٹ طے کیے۔ باہر آئے تو ٹیکسی کے پاس ایک نامعلوم شخص کھڑا تھا۔ سادہ لباس میں ملبوس اس شخص نے اپنے آپ کو پولیس والا ظاہر کیا۔ گاڑی کو تھانہ صدر سے تھانہ آر اے بازار لے گیا۔ ڈرائیور کہتا ہے کہ وہ شخص آر اے بازار کے اندر داخل نہیں ہوا۔ بلکہ ہمیں باہر ہی پولیس کے حوالے کرکے چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک آدمی آیا اور لڑکی کو لے کر چلا گیا جبکہ پولیس والوں نے مسافر لڑکے کا موبائل چھین لیا۔ اس کی ویڈیو بناتے ہوئے۔ 25 ہزار روپے کی ڈیمانڈ کرنے لگے۔ رات گئے ٹیکسی والے کے بھائی آئے اور چھ ہزار روپے رشوت دے کر اسے چھڑا لے گئے۔ مطلب فحاشی اور بلیک میلنگ کا یہ پورا دھندہ پولیس ہی چلا رہی تھی۔

میڈم ریحانہ ہماری کولیگ تھیں۔ انکے شوہر ناصر صاحب سٹیٹ لائف میں ملازم تھے۔ ریٹائرمنٹ سے سال قبل انھوں نے ڈی ایچ اے ٹو کی ایکسٹینشن میں گھر بنایا۔ چند ماہ بعد میڈم کے چھوٹے بیٹے کی کسی افسر کے بیٹے سے معمولی سے بات پر لڑائی ہوگئی۔ جس نے میڈم کے بچے کو گولی مار دی۔ میڈم ایک لمبے عرصے ڈپریشن کا شکار رہیں۔ کچھ عرصے بعد ہم نے میڈم سے مجرم کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگیں پولیس اور عدالتوں نے ملکر ہمیں اتنا تنگ کیا کہ ہمیں پیچھے ہٹنا پڑا۔ میڈم نے روتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اپنا کیس اللہ کے سپرد کر دیا ہے۔ اب وہ ہی ظالموں سے بدلہ لے گا۔

شادیوں میں فائرنگ اور شباب کباب کی محفلیں سجتی ہیں۔ سب سے پہلے تھانے والوں کو پیسے کھلائے جاتے ہیں، کھانا بھی بھیجا جاتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگلا پھیرا ڈولفن پولیس والوں کا ہوتا ہے جو اپنے بندوں کیلئے پیسہ اور کھانا لینے آتے ہیں۔ بہت سی شادیوں میں یہ مناظر ہم دیکھ چکے ہیں۔

رہی بات ٹریفک پولیس کی تو ٹریفک جام اور حادثات کی بڑی وجہ ٹریفک پولیس ہے۔ موٹر سائیکل کی ویلنگ اور ریس حادثات کی بڑی وجہ ہیں۔ ہمیں پتہ ہے کہ راولپنڈی کی کن سڑکوں پر کس دن لڑکوں کی موٹر سائیکل ریس ہوتی ہے۔ یہ بات ٹریفک پولیس کو کیوں نہیں پتا۔ ٹریفک جام اس وقت ہوتا ہے جب وارڈن ڈیوٹی کے بجائے کسی اور کام میں مصروف ہوتا ہے۔

ڈی ایچ اے لاہور کے افسوس ناک واقعے میں پولیس اور میڈیا مالکان نے مجرموں کو بچانے کی بھر پور کوشش کی اور پورے ملک میں کم عمر ڈرائیورز کو پکڑنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔

آجکل سینکڑوں صحافی اور یوٹیوبرز ٹریفک وراڈنز کے ساتھ کیمرہ لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پھر سکول کالج جاتے لڑکے لڑکیوں، مزدوری پر جاتے لڑکوں سے عجیب و غریب سوال کرکے ان کے موٹر سائیکل بند کرتے نظر آ رہے ہیں دوسری طرف والدین دہائیاں دیتے نظر آ رہے ہیں۔ امتحانی مراکز تک نہ پہنچنے کی وجہ سے بہت سے بچوں کے مستقبل تباہ ہوگئے۔ دہاڑی دار مزدور، نوکریوں پر جانے والا غریب ذلیل و خوار ہوگیا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔

ملک اس وقت حالت جنگ میں ہے۔ ستمبر تک ساڑھے چھ لاکھ لوگ ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ جن میں سے 35 ہزار سے زائد پروفیشنلز بھی شامل ہیں۔ نو ماہ کے دوران ڈھائی ہزار ڈاکٹرز اور چھ ہزار انجینئرز بیرون ملک شفٹ ہوچکے ہیں۔ فیس کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں والدین نے بچوں کے سکول چھڑوا دیئے ہیں۔ ڈاکٹروں کی فیس نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں نے علاج کروانا چھوڑ دیا ہے۔ مایوسی کے مارے نوجوان چوریاں اور خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔

موٹر سائیکل غریب کی سواری ہے۔ والدین وینوں کے کرائے برداشت نہیں کرسکتے اس لیے بچوں کو موٹر سائیکل دلا دیئے ہیں۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار ہماری بیٹیوں نے گھر سے باہر نکلنا شروع کیا ہے اور آپ انکے موٹر سائکل بند کر رہے ہیں۔ مزدوری پر جانے والے کو مزدوری سے روک رہے ہیں۔

موٹر سائیکل ہر گھر کی ضرورت ہے۔ موٹر سائیکل جیسی آسان سواری کیلئے ڈرائیونگ لائسنس کی عمر کو پندرہ سال کر دینا چاہیئے۔ ڈرائیور کی سیفٹی کیلئے ہیلمٹ اور موٹر سائیکل کا بہترین حالت میں ہونا لازم قرار دیا جائے۔ ٹریفک کے قوانین پر سختی سے عمل درآمد کروا کر اس مسئلے کا حل نکالا جاسکتا ہے۔

Check Also

Final Call

By Umar Khan Jozvi