Friday, 18 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saleem Zaman
  4. Titliyan, Khabees Aur Khabeesniyan

Titliyan, Khabees Aur Khabeesniyan

تتلیاں، خبیث اور خبیثنیاں

سن 1982 میں امریکی ریاضی دان اور ماہر ماحولیات ایڈورڈ لورینٹز نے ایک نظریہ پیش کیا۔ اس نظریے کے مطابق ایک تتلی اگر برازیل میں، اپنے پنکھ پھڑپھڑائے تو اس سے ٹیکساس میں ایک بھیانک طوفان آ سکتا ہے۔ اس نظریے کو انہوں نے بٹر فلائی ایفیکٹ (Butterfly Effect) کا نام دیا تھا۔

ایڈورڈ کا اپنے نظریے میں کہنا ہے، کہ ہر جاندار چیز سے کوئی بھی کام اتفاقاً نہیں ہوتا بلکہ یہ "بٹر فلائی ایفیکٹ" ہوتا ہے جس سے شروع ہونے والا عمل ایک کڑی سے جڑ کر، دوسری کڑی اور اسی طرح جڑتے جڑتے کہیں دور اپنے اختتام کو پنہچتا ہے۔

یہ Butterfly Effect طبیعیات میں "نظریۂ انتشار" نظریہ شواش (chaos تھیوری) کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس کا سادہ سا مطلب ہے کہ ابتدائی کیفیت میں چھوٹی چھوٹی سی تبدیلیاں بعد میں آنے والی بہت بڑی تبدیلیوں کو جنم دی سکتی ہیں۔

یہ نظریہ یعنی Butterfly Effect ہماری توجہ ان عوامل کی جانب مبذول کراتا ہے جو بظاہر ایک معمولی دکھائی دینے والی تبدیلی کے نتیجے میں حیران کن نتائج دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

آئیے اس بات کو دو مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بٹر فلائی افیکٹ کیا ہے؟

ہنگری کا ایک شہزادہ 1914 میں اپنی بیگم کے ساتھ بوسنیا کی سڑکوں پر گھومنے نکلا۔ گھومتے گھومتے وہ غلط طرف میں نکل گئے۔ اُسی وقت ایک انقلابی شخص جو وہاں پر کھانا خریدنے آیا تھا، دونوں میاں بیوی کو دیکھ کر رکا اور انہیں گولی مار دی۔ اِس واقعہ کے بعد ہنگری نے سَربیا پر حملہ کر دیا۔ روس نے ہنگری کا ساتھ دیا جس کے ساتھ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے 32 ممالک اِس جنگ کا حصہ بن گئے۔ اِس جنگ کو لوگ پہلی جنگِ عظیم یا ورلڈ وار 1 کے نام سے جانتے ہیں۔ اِس جنگ میں تقریباََ 2کروڑ لوگ مارے گئے۔

اسی طرح کہا جاتا ہے کہ گاندھی ایک بار ٹرین کے اپر کلاس ڈبےمیں بیٹھا۔ ٹکٹ چیکرنے اسے اس کی ظاہری حالت دیکھتے ہوئےدھکے مار کر ادھر سےنکال باہر کیا۔ اس واقعے کے بعد گاندھی نے ٹھان لی کہ وہ ہندوستان سے انگریزوں کو نکال کر رہے گا۔

بظاہر گاندی کا تحریک آزادی شروع کرنا ہو یا شہزادے کا قتل معمولی واقعات ہیں لیکن ان کا اختتام معمولی نہیں تھا بلکہ دنیا کے جغرافیہ میں تبدیلی ثابت ہوا۔۔

بلا سوچے سمجھے اور بغیر کسی دور اندیشی کے کیے جانے والے فیصلے آغاز میں بظاہر ویسے ہی بے ضرر دکھائی دیتے ہیں، جیسا کسی تتلی کے پروں کی پھر پھراہٹ، مگر وہی فیصلے بعد میں کئی نسلوں کے لیے روگ بن جاتے ہیں اور ایسے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں، جو اپنے ساتھ خس و خاشاک کی طرح سب کچھ بہا لے جاتا ہے۔

ابتدا میں تو اس تھیوری کو صرف ماحولیات کے لئے پیش کیا گیا لیکن آہستہ آہستہ اس کا اطلاق دیگر علوم پر بھی ہوتا گیا اور اس کے حیرت انگیز نتائج مرتب ہوتے گئے بلکہ ہو رہے ہیں۔۔ اس تھیوری پر اسی نام سے یعنی Butterfly Effect نامی ایک بہت خوبصورت فلم بھی بنائی گئی جس میں اس تھیوری کو بہت عمدہ طریقے سے سمجھایا گیا ہے۔۔

اس فلم میں تو جو ابتدائی غلطی یا بگاڑ پیدا ہوتا ہے جو بعد میں ایک بڑے سانحہ کی شکل اختیار کرتا جاتا ہے کو درست کرنے کے لئے ہیرو کو ماضی میں جا کر شروع ہی سے اس معمولی غلطی کو درست کرنا پڑتا ہے۔۔ جبکہ حقیقی زندگی میں ایسا کوئی آپشن ہمارے پاس موجود نہیں۔۔ سوائے مذہب یا اخلاقیات کے جس میں اپنی غلطی کو سدھارنے کا موقع معافی اور توبہ سے نئے سرے سے شروع کیا جا سکتا ہے۔۔

اسلام کی اصطلاح میں ایسی غلطی یا گناہ کے سدھارنے کو "توبہ النصوح" یعنی ایسی خالص توبہ جس کے بعد دوبارہ گناہ کا خیال بھی نہ آئے کہا جاتا ہے۔۔ جبکہ انگریزی میں اصل معافی اسے کہا جاتا ہے جس کے بعد رویہ بھی تبدیل ہو۔۔

"A real apology is changed behavior"

کیا ہم یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ اس کائنات میں ہماری قریبی ترین ہستی میں سب سے زیادہ اصلاح اور تربیت کی ضرورت کسے ہے؟

یقینا اسے ہوگی جس کا ہمارے ساتھ سب سے زیادہ اور گہرا تعلق ہوگا۔ جسے ہمارے ساتھ تاقیامت رہنا ہوگا۔۔ آپ اولاد یا والدین یا بیوی کو سوچ رہے ہوں گے جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔۔

جسے سب سے زیادہ تربیت اور اصلاح کی ضرورت ہے وہ آپ کی اپنی ذات ہے۔ جس کے اللہ کریم نے دو حصے بنائے ہیں ایک نفس جو بدن کے افعال کا ذمہدار ہے اور دوسرا روح جو نفس کے محاسبہ اور آخرت میں کامیابی کی ذمہدار ہے۔۔ اسی لئے حدیث پاک ہے کہ "اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے" اعمال جسم سے ہوتے ہیں جبکہ نیت شائد لاشعور میں کہیں سے پیدا ہونے والی ایک تحریک ہے۔۔ جس کی زمہدار ایک طاقتور روح یا ایک طاقتور نفس ہے۔

رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے کہ: "انسانی جسم کے اندر گوشت کا ایسا لوتھڑا ہے کہ اگر وہ صحیح ہو تو پورا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر اس میں خرابی پیدا ہوجائے تو پورا جسم خراب ہوجاتا ہے۔ جسم کا یہ حصہ دل ہے"۔

یعنی اگر نفس کوئی شرارت کرے گا اور روح اسے روکنے میں ناکام رہی تو قبر میں آخرت میں جسم کی شرارت کا خمیازہ روح بھی بھگتے گی اور اگر روح نے ہمارے جسم کو شرارتوں سے روکے رکھا تو قبر میں آسانیاں روح کے ساتھ جسم کو بھی ملیں گے۔۔ یعنی تاقیامت اگر کسی کا آپ کے ساتھ تعلق ہے تو وہ آپ کی روح اور نفس کا جو ایک دوسرے کے ذمہ دار ہیں اسی لئے جہنم میں جلیں گے بھی تو دونوں کیونکہ ایک دوسرے کے ہاتھوں اس مقام تک پہنچے ہوں گے اور اگر جنت کی نعمتوں کا لطف اٹھائیں گے بھی تو دنوں کیونکہ دنیا میں دونوں نے مشکلات میں ایک دوسرے کی مدد کی ہوگی۔۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے میں آپ کی خدمت میں چند مثالیں پیش کرتا ہوں جو دراصل آج کی اس تحریر کا اصل موضوع بھی ہے۔

بخاری شریف کی حدیث پاک میں حضرت ابن عباسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ مدینہ یا مکے کے ایک باغ میں تشریف لے گئے۔ (وہاں) آپ ﷺ نے دو شخصوں کی آواز سنی جنھیں ان کی قبروں میں عذاب کیا جا رہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان پر عذاب ہو رہا ہے اور کسی بہت بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں پھر آپ ﷺ نے فرمایا بات یہ ہے کہ ایک شخص ان میں سے "پیشاب کے چھینٹوں سے بچنے کا اہتمام نہیں کرتا تھا" اور دوسرا شخص چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے (کھجور کی) ایک ڈالی منگوائی اور اس کو توڑ کر دو ٹکڑے کیا اور ان میں سے (ایک ایک ٹکڑا) ہر ایک کی قبر پر رکھ دیا۔ لوگوں نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! یہ آپ ﷺ نے کیوں کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس لیے کہ جب تک یہ ڈالیاں خشک ہوں شاید اس وقت تک ان پر عذاب کم ہو جائے۔

یہ Butterfly Effect کی ایک بہترین مثال ہے۔۔ اس حدیث پاک میں لفظ "پیشاب کی چھینٹوں سے بچنے کا اہتمام" جس کا مطلب جو بھی شخص تھا وہ جان بوجھ کر اس عمل کو اختیار کئے ہوئے تھا۔ ناکہ غلطی سے تو اس کا نتیجہ اس کے بدن کی ساتھ اس کی روح کو بھی بھگتنا پڑھ رہا تھا۔۔ اب پیشاب کی چھینٹوں سے آج کے دور میں یا تو جوتے گندے ہوں گے یا کپڑے جسم تو پھر بھی بچا رہے گا۔۔ مگر اگر آپ یہ کام deliberately کر رہے ہیں تو آپ اس چھوٹی سی حرکت کا خمیازہ ایک نہ ختم ہونے والی زندگی میں بھگتے رہیں گے۔۔

اسی طرح ایک عام غلطی جسے ہم کبھی سوچتے بھی نہیں اور ہماری خواتین خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی اس سے منع نہیں کرتیں وہ ہے۔ نہانے والی جگہ پر پیشاب کرنا۔۔ اس کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ بچوں کو اور خصوصا لڑکیوں کو یہ سمجھایا ہی نہیں جاتا اور وہ نہاتے ہوئے اس عمل کے مرتکب ہوتے ہیں اور دوسرا خواتین اپنے بچوں کو آج کل کے واش روم میں لے جا کر کموڈ پر بٹھانے کی بجائے کہیں بھی بٹھا کر رفع حاجت کرا دیتی ہیں۔۔ حدیث شریف میں نہانے کے دوران یا نہانے کی جگہ پر رفع حاجت (پیشاب) کرنے کے کئی نقصانات وارد ہوئے ہیں۔۔ مثلاََ

عبداللہ بن مغفلؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "تم میں سے کوئی شخص ہرگز ایسا نہ کرے کہ اپنے غسل خانے (حمام) میں پیشاب کرے پھر اسی میں نہائے"۔ احمد کی روایت میں ہے: پھر اسی میں وضو کرے، کیونکہ اکثر وسوسے اسی سے پیدا ہوتے ہیں۔

صحابہ کرام، صوفیاء کرام اور علماء دین اس بات پر متفق ہیں کہ حمام یعنی نہانے کی جگہ پر پیساب کرنے سے "وسوسوں" کی بیماری پیدا ہوتی ہے۔

اِتباعِ شیطان کا سب سےبڑا اور بنیادی سبب وسوسوں کی پیروی ہے کیوں کہ گناہ کروانے اور نیکیاں چھڑوانے میں وسوسے پیدا کرنا شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالٰی ہے

الَّذِي يُوَسُوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ

ترجمہ: میں اس سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں جو انسانوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا رہتا ہے۔

اور ان وسوسوں کا علاج قران نے یوں ارشاد فرمایا کہ

وَإِمَّا يَنُزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيُطَانِ نَزُغٌ فَاسُتَعِذُ بِاللَّهِ

ترجمہ: جب بھی شیطان تمہیں کوئی وسوسہ ڈالے تو اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔

مندرجہ بالا آیات سے ثابت ہوا کہ صرف واش روم میں نہاتے ہوئے پیشاب کرنا یا نہانے کی جگہ پر پیشاب کرنا سے وسوسوں کی بیماری لگتی ہے اور وسوسہ ڈالنا شیطان کا کام ہے۔ یعنی ایک غیر زمہداری کے کام سے ہم شیطان کے استعمال میں چلے جاتے ہیں۔۔ یہ وسوسے جو شروع میں تو صرف روح پر وار کرتے ہیں۔ لیکن آگے چل کر یہ جسمانی امراض جنہیں ڈپریشن، anxiety، اعصابی مسائل اور ان اعصابی مسائل سے ایک قدم آگے بلڈ پریشر اور دل کے امراض جسم کو ناکارہ کر دیتے ہیں اور یوں کہنے کو تو موت ہارٹ اٹیک یا گردوں کے ناکارہ ہونے سے ہوتی ہے جبکہ اس کو شروع ہم ایک معمولی بد احتیاطی سے کرتے ہیں۔ آج ہمارے معاشرے کے سب سے بڑے المیہ میں بے توکلی، ذہنی انتشار کے امراض ہیں۔ جن کو اس خبیث نے وسوسوں کی صورت میں ہمارے خواتین اور ہمارے بچوں میں ڈالا تھا۔

اگر آپ روز مرہ کی وہ دعائیں دیکھیں جو حضور نبی کریم ﷺ مانگا کرتے تھے تو اس میں بیت الخلا، یا واش روم کیونکہ آجکل تو یہ اٹیچ ہے۔۔ کی دعا میں عجیب الفاظ ہیں۔۔

حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو کہتے:

اَللّٰهُمَّ إِنِّيُ أَعُوُذُ بِکَ مِنَ الُخُبُثِ وَالُخَبَائِثِ۔ بخاری، الصحيح، کتاب الوضو، باب ما يقول عند الخلاء، 1: 66,142

"اے اللہ بے شک میں خبیث جنّوں اور خبیث جنّنیوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں"۔

نبی کریمﷺ کے زبان اطہر سے نکلی ہوئی ہر بات حق ہے اور سچ ہے اگر آپ کریمﷺ نے بیت الخلا یا واش روم کی دعا میں خبیث جنوں اور جننیوں سے پناہ طلب کی ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری روح اور جسم پر وار کرنے کے لئے جنات کی سب سے پسندیدہ جگہ ہمارے واش روم ہیں اور ہماری ایک چھوٹی سی نادانی ان خبیثوں کو ہم پر ہماری اولاد پر اور ہماری خواتین پر اختیار دے دیتی ہے۔۔

آج جو بچہ یا خاتون نہاتے ہوئے طہارت کا خیال نہی رکھ رہی تو اس کا مطلب ہے وہ مستقبل کے نفسیاتی مریض پیدا کر رہی ہیں۔ جو قاتل بھی ہو سکتے ہیں، چور ڈاکو بھی اور آج ایک خاتون مرد یا بچہ بے احتیاطی برتے گا آنے والے سو سالوں میں پورا ایک قبیلہ نفسیاتی مریضوں کا موجود ہوگا۔۔

جس طرح نبی کریمﷺ نے ایک سبز ٹہنی رکھ کر ان قبروں کا عذاب کم کیا۔۔

ہمیں بھی آج اپنے نبی کریمﷺ کی پناہ میں آنا ہوگا اور ان کی ماننی ہوگی اور صرف اپنے آپ اور اپنی اولاد پر کام کرکے ہم اپنے معاشرے کی بڑی اذیتوں نفسیاتی المیہ کو ختم کرنے کا باعث ہو سکتے ہیں۔۔

نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا
ساتھ ہی منشیء رحمت کا قلمدان گیا

دل ہے وہ دل جو تِری یاد سے معمور رہا
سر ہے وہ سر جو ترے قدموں پہ قربان گیا

اُنہیں جانا، اُنہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
للہِ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا

Check Also

Akhri Hichki

By Badar Habib Sipra