Pakistan Ke Civil Awards
پاکستان کے سول ایوارڈز

پاکستان کے سول ایوارڈز کی بے توقیری کا سلسلہ کہیں تھمتا نظر نہیں آتا۔ اس کا سبب سیاست ہے جس نے سارے گھر دیکھ لیے ہیں۔ بدقسمتی سے لکس سٹائل ایوارڈز اور حکومت پاکستان کے سول ایوارڈز میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔ مجھے یہ ایوارڈز بھی اب اس گیم شو کی طرح لگتے ہیں جس میں میزبان چیخ چیخ کر کہہ رہا ہوتا ہے "کونسا ڈبہ کھولوں؟" اور مہمانان فرط جذبات سے مغلوب ہو کر کہتے ہیں "مجھے بس بائیک چاہئیے"۔ بسا اوقات ڈبے میں سے بائیک نہیں نکلتی مگر میزبان کو جس کی صورت پسند آ جائے وہ اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے گاہے گاہے پکار اٹھتا ہے "چلو کیا یاد کرو گے۔ میں تم کو دیتا ہوں میٹرو کی موٹرسائیکل"۔
چند سال پہلے تک یہ ایوارڈز جیسے بھی نوازے جاتے تھے مگر ان پر کوئی شور نہیں مچتا تھا۔ وہ مارشل لاء ہو یا نیم مارشل لائی جمہوریت، کچھ نہ کچھ ان ایوارڈز کا احترام اور اہمیت باقی تھی۔ سنہ 2019 میں جب ون اینڈ اونلی اہل ترین صدر پاکستان عارف علوی صاحب کے ہاتھوں مہوش حیات کو تمغہ امتیاز ملا تو میری حالت اس سوچ میں بھونچکا رہ گئی کہ کیا اب ایسا بھی ہوگا؟ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے۔ جیسی حکومتیں ویسے ایوارڈز۔ بندر بانٹ کے سلسلے میں کوئی کمی واقع نہیں ہو سکی۔ اگلے سال پشاور زلمی کے فرنچائز مالک جاوید آفریدی کو ایوارڈ سے نواز دیا گیا اور پھر خان صاحب کے لیے پشاوری چپل بنانے والے چاچا نور الدین کو دے دیا گیا۔
ان ایوارڈز کے دینے والوں کو اگر شرم نہیں آتی تو پانے والوں کو کیوں آئے۔ اب صورتحال یوں ہے کہ حکومتی شخصیات اپنے من پسند چہروں میں تمغے بانٹ دیتی ہیں۔ کیا صحافی اور کیا فنکار۔ جو جتنا زیادہ حکومتوں کا من پسند اس کا اتنا ہی "میرٹ" میں بالائی نمبر۔ یہ اب برداشت کرنا ہوگا۔ ریاستِ مدینہ سے شروع ہونے والا سفر تیزی سے امپورٹڈ حکومت تک پہنچ گیا ہے۔
دِل کے افسانے نِگاہوں کی زباں تک پہنچے
بات چل نِکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے
جان کی امان پاؤں تو صاحبانِ اختیار سے گزارش ہے کہ مریم اورنگزیب صاحبہ اور عطا تارڑ کو اگلے سال اگنور نہ کیا جائے۔ ان کی خدمات لازوال ہیں۔ دوم، یہ کہ اس زمن میں ناانصافی کا سلسلہ کچھ تو کم کیا جائے۔ اگر گھڑی خریدنے والے عمر فاروق ظہور کو تمغہ دیا ہے تو انصاف کا تقاضہ تھا گھڑی بیچنے والے کو بھی دے دیا جاتا۔ اگر اومنی گروپ سکینڈل کے مرکزی کردار انور مجید کو دیا گیا تو اسی سکینڈل کے دوسرے کردار کو بھی دیا جاتا۔ صدر پاکستان آپ اپنے گلے میں ڈال لیتے۔
تھامس پکیٹی ایک فرانسیسی ماہر معیشت ہے۔ اس نے ایک کتاب لکھی جس نے معیشت کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ نام تھا Capital in the 21st Century.
اسے حکومت فرانس نے ریاست کا سب سے بڑا اعزاز Legion of Honour دینے کا اعلان کیا تو اس نے یہ کہہ کر وصول کرنے سے انکار کر دیا کہ میں نہیں سمجھتا کہ حکومت کا کام یہ طے کرنا ہے کہ کون عزت دار ہے۔ بہتر ہوگا اگر حکومتیں فرانس اور یورپ میں معاشی ترقی کی بحالی کے لیے کچھ کام کریں۔
میں تھامس پکیٹی کی بات سے اتفاق کرتا ہوں۔ حکومتوں کا کام اعزاز بانٹنا نہیں، البتہ کل کلاں کو حکومت نے مجھے کوئی اعزاز دیا تو بخوشی قبول کر لوں گا۔ میں تھامس پکیٹی نہیں ہوں۔ یہاں کوئی ایک تھامس پکیٹی جنم نہیں لے سکا۔ یہی منافق معاشروں کا اصل روپ ہے۔

