Andalus Ki Danishwar Khatoon
اندلس کی دانشور خاتون

لبنٰی قرطبیہ دسویں صدی اندلس کی ایک ایسی عالمہ کی تھیں، جو علم، تدبر اور کردار کا روشن مینار تھیں۔
اندلس، وہ سرزمین جس نے صدیوں تک علم و حکمت، تہذیب و ثقافت اور رواداری کا پرچم بلند رکھا۔ اسی سنہرے دور میں، دسویں صدی کے قرطبہ میں، ایک عورت ابھری جس نے علم، ادب، ریاضی اور فلسفہ کے میدان میں اپنی گہری چھاپ چھوڑی۔ اس کا نام تھا، لبنٰی القرطُبِیَّة۔
یہ خلفیہ الحکم کا دور تھا۔ اس خلیفہ کے محل میں کوئی بھی اتنا عالی مرتبت نہ تھا جتنی لبنیٰ اور یہ سب کچھ لبنٰی کی علمی حیثیت کی وجہ سے تھا۔
خلیفہ الحکم الثانی (961–976ء) کے زمانے میں قرطبہ کا کتب خانہ دنیا کے سب سے بڑے کتب خانوں میں شمار ہوتا تھا۔ اندازہ ہے کہ اس میں چار لاکھ سے زائد کتابیں موجود تھیں۔ لبنٰی کو خلیفہ نے اس کتب خانے کی منتظم اعلیٰ مقرر کیا۔ وہ نہ صرف کتابوں کی تدوین کرتی تھیں، بلکہ نایاب نسخے نقل کرتی، ترجمے کرتی اور علمی مباحث میں شریک ہوتیں۔ الحکم ثانی کے دور کی لوگ کتابوں کو جواہرات اور کنیزوں سے زیادہ قیمتی سمجھتے تھے۔
مورخ ابن سعید المغربی ایک عالم کی کہانی بیان کرتے ہیں جو ایک نایاب کتاب کی تلاش میں سرگرداں رہا مگر آخر کار ایک امیر شخص نے زیادہ بولی لگا کر وہ کتاب خرید لی۔ مایوس عالم نے اس امیر شخص سے جا کر بات کی تو جواب ملا: ادب کا تقاضا ہے کہ میری ذاتی لائبریری ہو اور اس کتاب کے لیے میری شیلف میں بالکل صحیح جگہ موجود ہے۔
اس پر عالم بے بسی سے بس یہی کہہ سکا: یہ کہاوت واقعی سچ ہے کہ خدا گری والے میوے انھیں ہی دیتا ہے جن کے پاس کھانے کو دانت نہ ہوں۔
یہ کہانی ظاہر کرتی ہے کہ ہر کتاب جمع کرنے والا علم کا قدردان نہیں ہوتا۔ لیکن یہ بھی بتاتی ہے کہ کیوں لُبنیٰ اور فاطمہ جیسی خواتین، جو شاہی کتب خانے میں کام کرتی تھیں، اتنی اعلیٰ حیثیت رکھتی تھیں۔ انھیں خلافت کے سب سے قیمتی سرمائے کتابوں، کی دیکھ بھال کا ذمہ سونپا گیا تھا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کتابیں صرف امیروں کے لیے تھیں۔
شاعرہ، ریاضی دان، ماہر کاتبہ۔ وہ یقیناً یہ سب کام کرتی ہوں گی اور اس سے بڑھ کر بھی قابل ہوں گی کیونکہ وہ ایک ایسے دور میں جی رہی تھیں جس میں علم مخصوص دائروں میں قید نہیں تھا بلکہ ہمہ گیر تھا۔
ایک روایت کے مطابق لبنیٰ جب باہر نکلتیں اور قرطبہ کی گلیوں میں گھومتیں تو ان کے پیچھے چلتے بچے ریاضی کے پہاڑے دہرا رہے ہوتے تھے۔ جو لبنیٰ نے ہی انھیں سکھائے ہیں۔ وہ ان بچوں کو ریاضی پڑھایا کرتی تھی۔ چلتے چلتے وہ محل کے اس حصے تک پہنچ جاتی ہیں جہاں صرف اہلِ علم اور اہلِ مرتبہ کو داخلے کی اجازت ہے۔
لبنیٰ کو ہاتھی دانت اور آبنوس سے مزین محل کے دروازے متاثر نہیں کرتے بلکہ وہ اسلامی باغات کے خوبصورت جیومیٹری والے ڈیزائنز میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔ لیکن ان کی منزل باغ نہیں کتب خانہ ہے اور وہ بے جھجک، اعتماد کے ساتھ وہاں قدم رکھتی ہیں۔
آج فاطمہ واپس آنے والی ہے۔ جی ہاں وہی فاطمہ جو دنیا کے بڑے بڑے علمی مراکز۔۔ قاہرہ، دمشق، بغداد سے نادر کتابیں خرید کر لاتی ہے۔ آج دار العلم، یعنی شاہی کتب خانہ اس خواب کی تعبیر کے قریب تر ہو جائے گا جس کے مطابق یہاں انسانی فکر کا ہر اہم خزانہ محفوظ ہو۔ لیکن کچھ خیالات ابھی کتابوں میں لکھے نہیں گئے اور وہ لبنیٰ کے ذہن میں موجود ہیں جو کسی نئے تصور، کسی نئی فکرکے سامنے آتے ہی ابھرنے لگتے ہیں۔
یہ خیالات بعض اوقات کسی کتاب کے حاشیے میں نوٹ کی صورت درج ملتے ہیں۔ کیونکہ کبھی کبھار یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ارسطو یا اقلیدس کی کسی بات میں رد و بدل کیا جائے تاکہ غلط نظریات دنیا میں نہ پھیلیں۔
سوچیے اس دور میں ایک ذہین عورت بن کر ایسی جگہ میں رہنا کیسی خوش نصیبی ہوگی۔
اگر آپ اپنے ذہن میں لبنیٰ کا خاکہ بنانے کی کوشش کریں تو ایک ایسی خاتون کی شبہیہ بنے گی جو بڑی بڑی جیبوں والی لمبی جُبہ نما پوشاک پہنے، مسلم دنیا کے کتب خانوں میں بے نیازی سے چل رہی ہیں جہاں معمر کتاب فروش انھیں قدر کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔
مگر پلکیں جھپکنے پر وہ ایک اور روپ میں نظر آتی ہیں۔۔ ایک خاتون جو ایک مدھم چراغ کی روشنی میں تھکی آنکھوں کے ساتھ بیٹھی ہے اور نفیس خطاطی میں فلسفیوں کے اقوال نقل کر رہی ہے۔۔ یہ عظیم خاتون عورت کی کم تری پر مضامین لکھنے والے فلسفیوں کے قول بھی نقل کر رہی ہے۔
یہ خاتون خلیفہ کی قابلِ اعتماد معتمد بھی بن چکی ہے اور اپنی ذہانت کے باعث الحکم الثانی کے دربار میں اعلیٰ مقام پر فائز ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ عورت ہونے کے ناطے خلیفہ کی نظروں میں لبنیٰ کی اہمیت کم تر تھی کیونکہ ان کا دربار مردوں سے بھرا ہوا تھا اور ان سب کے بیچ لبنیٰ نے اپنا مقام بنایا۔
ایک ناول نگار تو لبنیٰ کے کردار یا کرداروں پر بہت کچھ تخلیق کر سکتا ہے مگر غیر افسانوی تعارف کے لیے ہمیں بارہویں صدی کے سوانح نگار ابنِ بشکوال کی طرف رجوع کرنا ہوگا جو قرطبہ کی لبنیٰ کو یوں بیان کرتے ہیں: ایک ذہین مصنفہ، ماہرِ گرامر، شاعرہ، ریاضی میں دسترس رکھنے والی اور بےحد وسیع النظر علم کی مالک۔
اس دور کی لبنی کی شخِصیت کو دریافت کرنا باعثِ خوشی ہونا چاہیے لیکن ابنِ بشکوال کی تفصیل پڑھنے والے کو بےچین کر دیتی ہے محل میں کوئی بھی اتنا عالی مرتبت نہ تھا جتنی لبنیٰ۔۔ اس بات کا کیا مطلب ہے؟ کیا خلیفہ بھی نہیں؟
شاید ابنِ بشکوال یہ کہہ رہے ہیں کہ لُبنیٰ قرطبیہ ایک غیرمعمولی شخصیت تھیں اور یہی وجہ تھی کہ وہ صنفی رکاوٹوں کے باوجود اس قدر مرتبہ حاصل کر سکیں۔
کسی بھی دور میں غیرمعمولی عورت کی شخصیت پیچیدہ رہی ہے۔ لیکن جب ہم کسی ایک عورت کی زیادہ تعریف و مدح سرائی کرتے ہیں تو کیا ہم لاشعوری طور پر یہ اشارہ نہیں دے رہے ہوتے کہ اگر باقی عورتیں بھی زیادہ محنت کرتیں، زیادہ ذہین ہوتیں، تو وہ بھی یہی مقام حاصل کر سکتیں تھیں؟
جب آپ تاریخ کی کتابوں میں لُبنیٰ کا نام پڑھتے ہیں تو آپ کے ذہن میں خیال ابھر سکتا ہے کہ دسویں صدی کی یہ اندلسی عالمہ یقیناً ایک نایاب ہستی رہی ہوگی جس نے مردوں کے علمی حلقوں میں جگہ بنائی اور اس دور کے لوگ بھی یقیناً اس کے متعلق پرتجسسّ رہے ہوں گے۔
لبنٰی کو خاص طور پر ریاضی، منطق اور فلسفہ میں مہارت حاصل تھی۔ وہ مشکل ترین ریاضیاتی مساواتوں کو بھی حل کر سکتی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کئی یونانی اور لاطینی کتابوں کا ترجمہ کیا اور کچھ پر حواشی بھی لکھے۔ ان کی علمی گفتگو سن کر مرد علماء بھی متاثر ہوتے۔
لبنٰی نہ صرف سائنس کی دنیا کی ماہر تھیں، بلکہ عربی شاعری اور ادب میں بھی ان کا نام روشن تھا۔ ان کی تحریریں عالمانہ اور جاذبِ نظر تھیں۔ ان کے اشعار میں فکری گہرائی اور جمالیاتی چمک دونوں موجود تھیں۔
لبنٰی نہایت باوقار، باحجاب اور علم دوست خاتون تھیں۔ ان کی تربیت اعلیٰ اخلاق، تحمل، بردباری اور تواضع پر مبنی تھی۔ وہ علم کو محض حصولِ عزت و شہرت کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کی خدمت کے لیے استعمال کرتی تھیں۔
آج جب ہم خواتین کو تعلیم و علم کے میدان میں آگے بڑھانے کی بات کرتے ہیں، تو لبنٰی قرطبیہ ہمارے لیے مشعلِ راہ بن سکتی ہیں۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ اگر عورت کو مواقع دیے جائیں، تو وہ علم و حکمت کی بلندیوں کو چھو سکتی ہے۔
لبنٰی قرطبیہ، ایک ایسی شخصیت تھیں جو نہ صرف اپنی صدی کی بلکہ آنے والی نسلوں کی عالمہ، مفکرہ اور مصلح ثابت ہوئیں۔ ان کی زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ علم، جنس کا محتاج نہیں ہمت، جستجو اور خلوص کے ساتھ کوئی بھی بلندی پا سکتا ہے۔

