Akhri Hichki
آخری ہچکی

صبح صادق کی دھندلی روشنی مشرق کے افق سے یوں ابھر رہی تھی گویا افق کے دامن سے کوئی سفید چادر ہولے ہولے سرک رہی ہو۔ ہسپتال کی نائٹ ڈیوٹی ختم ہونے کو تھی اور میں کیفے پر ناشتہ کرنے بیٹھا۔ ابھی دوسرا نوالہ لبوں تک ہی پہنچا کہ موبائل کی گھنٹی نے کانوں پر دستک دی۔ آواز سنائی دی: "ڈاکٹر صاحب، ایمرجنسی ہے! زرا آئیے"۔ یہ سننا تھا کہ نوالہ جیسے حلق میں اٹک گیا ہو۔ اطلاع ملی کہ ایک نوجوان کو گولی لگی ہے اور اسے فوراً ایمرجنسی یونٹ میں لایا جا رہا ہے۔ میں نے ناشتہ وہیں چھوڑا اور قدموں کو پھرتی سے حرکت دی۔
ایمرجنسی وارڈ میں ہلچل تھی۔ تمام طبی عملہ چوکس تھا۔ تقریباً پندرہ منٹ بعد ایمبولینس کے سائرن نے فضا میں شور برپا کیا اور ایک زخمی نوجوان کو تیزی سے اسٹریچر پر لایا گیا۔ اس کا جسم خون میں لت پت تھا۔ ایمبولینس کو جیسے رت سے نہلایا گیا ہو۔ چھاتی کے بائیں جانب پانچ سے چھ سینٹی میٹر کا زخم، یوں معلوم پڑتا جیسے کسی نے دل کو چیر دیا ہو۔ فوراً چیسٹ ٹیوب ڈالی گئی تاکہ اندر جمع خون کو نکالا جا سکے۔ نالیاں لگا کر خون کی کمی پوری کرنے کی کوشش کی گئی۔ وہ درد سے کراہ رہا تھا، آنکھوں میں ایک التجا تھی۔ ڈاکٹر صاحب، خدا کے واسطے مجھے بے ہوش کر دیں، مجھے نشہ دے دیں! وہ چیخ رہا تھا، ہم دلاسہ دے رہے تھے۔ حوصلہ رکھو، سب ٹھیک ہو جائے گا۔
ہتھیلی پر لگی مہندی، رنگ حنا نہیں بلکہ عاشق کا لہو تھا جو عشق کے نام پر بہ رہا تھا۔ جب حقیقت کی پرتیں کھلئیں تو معلوم ہوا کہ پچیس برس کا یہ خوب رو جوان ایک کمسن کلی پر ایسا فریفتہ ہوا کہ اپنا سب کچھ اس پر قربان کر بیٹھا۔ دن کا سکون اور رات کا چین، سب اسی کے تصور میں گم ہو گئے۔ محبت پروان چڑھی، مگر وقت کے ساتھ شکوے اور شکایتوں نے خلیج پیدا کر دیا۔ جب جذبات کی دیوار میں دراڑیں آئیں، تو رقیب نے موقع غنیمت جانا اور دلوں کو مزید دور کر دیا۔ قسمت کی ستم ظریفی کہ وہ محبوب کسی اور کا مقدر ہوا۔ یادوں کی زنجیر میں جکڑا مجنوں زندگی سے اُکتانے لگا۔
اور ایک دن اس نے اپنی ہی بندوق کی نال سینے پر رکھی اور پاؤں سے فائر کر دیا۔ عشق کا ایسا جنون کہ نہ ماں باپ کی جھریوں پر نظر ڈالی، نہ بہن کی معصوم آنکھوں کا خیال کیا۔ نا جانے "سسی پنوں" کی داستان کا اثر تھا یا "سوہنی مہینوال" کی تمثیل نے دل میں آتش عشق لگا رکھی تھی۔
چونکہ زخم کا نشان چھاتی پر تھا، اس لیے چھاتی کا ماہر سرجن بھی ہمہ تن جوش کھڑا تھا۔ آپریشن تھیٹر کی ٹیم تیار تھی۔ جلد از جلد انہیں آپریشن تھیٹر پہنچایا گیا۔ عام طور پر آپریشن سے پہلے تیاری کے مراحل کی ایک لمبی فہرست ہوتی ہے، مگر ایسی ایمرجنسی کی صورت میں مریض کو فوراً آپریشن تھیٹر میں داخل کیا گیا، تاکہ معاملے کی نزاکت کو جانچا جا سکے اور مناسب لاحہ عمل اپنایا جا سکے۔ آپریشن تھیٹر میں معرکہ شروع ہوا۔ شعبۂ بےہوشی کے سربراہ نے مریض کو بے ہوش کیا۔ خون کے ہر قطرے کو سنبھالنے کی کوشش کی گئی، دل کی دھڑکن کو جینے کی راہ دکھائی گئی۔ کئی بار "کوڈ بلیو" ایکٹو ہوا۔ زندگی اور موت کے درمیان یہ کشمکش چھ گھنٹے جاری رہی۔ مگر آخر کب تک؟ زندگی بھی کبھی کبھار ہار مان لیتی ہے۔ مشینیں بھی تھک جاتی ہے۔ یوں ایک عاشق عشق کی بازی میں زندگی کی بازی ہار گیا۔ ظہر کی نماز کے بعد، سفید جوڑا زیب تن کیے، یوں اک دھج سے مقتل کی طرف روانہ ہوا۔
جوانی کی دہلیز پر کھڑا عاشق، عشق کی چتا میں جل کر راکھ ہوگیا۔ ایک ضعیف العمر شخص کو تنہائی کی چادر اوڑھا گیا، ننھی سی بہن کو بے یار چھوڑ گیا۔ اب کوئی کتنا روئے گا؟ کوئی کتنا نوحہ کناں ہوگا؟ کسی کی آہیں، کسی کے آنسو، بے رحم وقت کے سامنے کب تک ٹھہریں گے؟ دن، مہینے، سال، سب گزر جائیں گے اور رفتہ رفتہ وہ بھی ایک دھندلی یاد میں بدل جائے گا۔ اسی لیے ہہ ایک حرام عمل ہے، جس پر ربِ کائنات کی سخت وعیدیں نازل ہوئی ہیں۔ زندگی ایک امانت ہے، جس کا مالک صرف خدا ہے۔ اسے یونہی ریت کی طرح انگلیوں سے گرا دینا نہ بہادری ہے نہ وفاداری۔ ربِ کریم سے دعا گو ہیں کہ ہمیں ایسی آزمائشوں سے محفوظ رکھے، صبر و شکر کی دولت عطا کرے۔

