Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Qurratulain Shoaib
  4. Urdu Adab Mein Shohrat Ka Shortcut

Urdu Adab Mein Shohrat Ka Shortcut

اردو ادب میں شہرت کا شارٹ کٹ

آج کے دور میں شہرت حاصل کرنا دنیا کا سب سے آسان کام بن چکا ہے۔ ماضی میں شہرت محنت، تخلیقی صلاحیت اور اخلاقی معیار کی بنیاد پر حاصل کی جاتی تھی، مگر آج چند فحش جملے، متنازعہ نظریات، بدتمیزی اور بدلحاظی، اسلامی شعائر اور معاشرتی اقدار کا مذاق اڑا کر کوئی بھی لمحوں میں مشہور ہو سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا "شارٹ کٹ" ہے جو وقتی واہ واہ تو دلاتا ہے، لیکن معاشرے کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کرتا ہے۔

افسوس کا مقام ہے کہ آج سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ پر فحش نگاری اور مذہب بیزاری کو کامیابی، جرات اور "اوپن مائنڈنس" کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔ ادیب اور شاعر معاشرے کے آئینہ دار ہوتے ہیں، جن کی تحریریں کردار، اخلاق اور سوچ کی تعمیر کا ذریعہ بنتی ہیں۔ تخلیق ایک مقدس عمل ہے جس کا مقصد معاشرے کی اصلاح، شعور کی بیداری اور مثبت اقدار کی ترویج ہونا چاہیے، نہ کہ فحاشی اور سستی شہرت کا حصول۔ جب ادب حیا سے خالی ہو جائے تو وہ ذہنوں کو مسموم اور نسلوں کو گمراہ کرتا ہے۔

جب ایک عورت اپنے شوہر کی باتیں، اپنی ذاتی زندگی یا سماجی رشتوں کو فحش انداز میں قلمبند کرتی ہے، تو اس کی تحریر محض ایک انفرادی رائے نہیں رہتی بلکہ وہ پورے معاشرے کی اخلاقی تشکیل پر اثر انداز ہوتی ہے۔ وہ عورت جو کردار سازی، عزت اور تربیت کی علامت ہے جب خود فحاشی کی نمائندہ بن جائے تو نئی نسل کا گمراہی کی طرف جانا یقینی ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بعض مرد حضرات بھی بے حیائی کو "ادبی جرات" کا نام دیتے ہیں اور انہیں سراہنے والے لوگ اسے ترقی پسند سوچ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ رویہ دراصل اخلاقی پستی اور سماجی زوال کی علامت ہے۔ یہ نہ صرف ایک فرد کی اخلاقی گراوٹ کی نشاندہی کرتا ہے، بلکہ یہ معاشرتی سطح پر ایک بڑے بحران کی علامت بھی بن جاتا ہے۔

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "جب تم میں حیا نہ رہے تو جو چاہو کرو"۔ (صحیح بخاری) یہ حدیث نہ صرف انفرادی کردار کی بلکہ پورے معاشرتی زوال کی ترجمانی کرتی ہے۔ حیا اگر ختم ہو جائے تو تمام برائیاں خود بخود در آتی ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "بے شک جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے، ان کے لیے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے"۔ (سورہ نور، آیت 19) یہ آیت واضح کرتی ہے کہ بے حیائی نہ صرف انفرادی گناہ ہے بلکہ جب یہ اجتماعی سطح پر پھیلائی جائے تو یہ عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ ہمیں ان اقوام سے سبق سیکھنا چاہیے جنہوں نے فحاشی، بے حیائی اور نافرمانی کو عام کیا اور اللہ تعالیٰ کے قہر کا شکار ہوئیں۔

یہ بھی قابلِ افسوس امر ہے کہ بعض "دانشور" فحش باتوں کو شاعری اور ادب کا درجہ دے کر ان کی تعریف کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب تخلیق فحاشی بن جائے اور ادب شرم و حیا سے عاری ہو، تو یہ تخلیق نہیں بلکہ معاشرتی زہر بن جاتی ہے۔ ایسے الفاظ جو نوجوان نسل کے ذہنوں کو آلودہ کریں، وہ کسی طور " ادب" کہلانے کے مستحق نہیں۔ تخلیق کار، چاہے شاعر ہو یا نثرنگار، معاشرے کی فکری اور اخلاقی رہنمائی کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس کا ایک ایک جملہ نئی نسل کے شعور کو تشکیل دیتا ہے۔ جب قلم کا رخ فحاشی، بے حیائی اور تنازعات کی طرف ہو، تو وہ قلم رحمت نہیں، زحمت بن جاتا ہے۔ جو لوگ قلم کے تقدس کو پامال کرتے ہیں، انہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ شہرت وقتی ہو سکتی ہے، لیکن جو برے اثرات وہ معاشرے میں چھوڑ جائیں گے، وہ نسلوں کو گمراہ کرنے کے لیے کافی ہوں گے۔ اب یہ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم سستی شہرت کے پیچھے بھاگنے والوں کے ہمنوا بننا چاہتے ہیں، یا اخلاق، حیا اور اعلیٰ اقدار کے علمبردار؟

قاری کو بھی چاہیے کہ اندھی تقلید نہ کرے۔ قاری فحش نگاروں کو توجہ دے کر شہرت کی طرف کیوں لے کر جاتے ہیں۔ یہ ذمہ داری صرف لکھنے والوں کی نہیں، پڑھنے والوں کی بھی ہے کہ وہ حقیقی اردو ادب کی ترویج میں اپنا حصہ ڈالیں۔ ایسے مرد و خواتین کا بائیکاٹ کریں جو نوجوان نسل کو گمراہ کر رہے ہیں اور وہ بڑے ادیب اور دانشور بھی ہوش کے ناخن لیں جو نو آموز فحش نگاروں کی پوسٹوں پر واہ واہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یا پھر اردو ادب کا نام تبدیل کر دیں اور اسے "بے ادبوں، بدتمیزوں اور تماش بینوں کی تفریح" قرار دے دیں، کیونکہ جب تخلیق اخلاق، حیا اور شعور سے خالی ہو جائے تو وہ ادب نہیں رہتی، محض ایک تماشا بن کر رہ جاتی ہے۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan