Ramazan (1)
رمضان (1 )
آمد رمضان ہے۔ عربی زبان میں رمضان کا مادہ رَمَضٌ ہے، جس کا معنی سخت گرمی اور تپش ہے۔ رمضان میں چونکہ روزہ دار بھوک و پیاس کی حدت اور شدت محسوس کرتا ہے اس لئے اسے رمضان کہا جاتا ہے۔ (ابن منظور، لسان العرب، 7: 162)
رمضان رمضاء سے مشتق ہے اس کا معنی سخت گرم زمین ہے لہٰذا رمضان کا معنی سخت گرم ہوا۔ اسی طرح الارض الرمضاء "اس زمین کو کہا جاتا ہے جو سورج کی طمازت سے انگارا بنی ہوئی ہو۔ اور رمض النہار" دن کا بہت گرم ہونا۔ گرمی کی تیزی، دھوپ کی شدت نیز گرمی کی شدت اور دھوپ کی حدّت کے سبب زمین کا تپ جانا۔ (المنجد ص 408)
رمضان کی لغوی تعریف میں علماء کرام نے جو سادہ ترین مطلب لیا ہے وہ یہ کہ ملا علی قاری فرماتے ہیں۔
"رمضان "رمضاء" سے مشتق ہے اس کا معنی سخت گرم زمین ہے لہٰذا رمضان کا معنی سخت گرم ہوا۔ رمضان کا یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ جب عربوں نے پرانی لغت سے مہینوں کے نام منتقل کئے تو انہیں اوقات اور زمانوں کے ساتھ موسوم کر دیا۔ جن میں وہ اس وقت واقع تھے۔ اتفاقاً رمضان ان دنوں سخت گرمی کے موسم میں آیا تھا۔ اس لئے اس کا نام رمضان رکھ دیا گیا۔ (ملا علی قاری، مرقاۃ المفاتیح، 4: 229)
مجھے اس منطق سے اختلاف ہے۔ اس لئے کہ تمام صاحب علم چاہے اسلام سے قبل تھے یا اسلام کے بعد آج کے دن تک ہیں۔ وہ سب جانتے ہیں کہ عرب اور بعد میں اسلام کا سال قمری ہے۔ جس میں کوئی بھی مہینہ کسی ایک موسم سے موسوم نہیں۔ اور کبھی رمضان سردیوں کا حصہ ہوتا ہے کبھی شدید گرم۔ کبھی بہار اور کبھی خزاں۔ میرے نزدیک اس کے لغوی معنی کی تشریح کچھ یوں ہو سکتی ہے کہ پرانے زمانے میں میل کچیل اور زنگ، چاہے اسلحہ پر ہوتا، زیورات پر ہوتا یا برتنوں پر حتٰکہ چند مخصوص کپڑوں پر اسے آگ پر تپایا جاتا اور اس کا میل، چربی اور گندگی، زنگ وغیرہ اتر جاتا۔ اس سلسلے میں بطور مثال مندرجہ ذیل حدیث پیش کرتا ہوں۔
حضرت عباد بن عبدالصّمدؓ فرماتے ہیں، ہم ایک روز حضرت انس بن مالکؓ کے دولت خانہ پر حاضر ہوئے۔ آ پؓ کا حکم پا کر کنیز نے دسترخوان بچھایا۔ فرمایا، رومال بھی لاؤ۔ وہ ایک رومال لے آئی جسے دھونے کی ضرورت تھی۔ حکم دیا، اس کو تنّور میں ڈال دو۔ اس نے بھڑکتے تنّور میں ڈال دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب اسے آگ سے نکالا گیا تو وہ ایسا سفید تھا جیسا کہ دودھ۔ ہم نے حیران ہو کر عرض کی، اس میں کیا راز ہے؟ حضرت انسؓ نے فرمایا، یہ وہ رومال ہے جس سے حضور سراپا نور ﷺ اپنا چہرہ اقدس صاف فرمایا کرتے تھے۔ جب دھونے کی ضرورت پڑتی ہے ہم اس کو اسی طرح آگ میں دھو لیتے ہیں۔ کیونکہ جو چیز انبیائے کرام علیہِم السلام کے مبارک چہروں پر گزرے آگ اسے نہیں جلاتی۔
حضرت مولانا رومؒ "مثنوی" میں اس واقعہ مبارک کو لکھنے کے بعد فرماتے ہیں:
"اے دلِ تَرسِنْدہ اَز نارو عذاب با چُناں دَست و لَبے کُن اِقْتَراب
چُوں جَما وے راچُناں تشریف داد جانِ عاشِق را چَہا خَواہَد کَشاد"
ترجمہ: اے وہ دل جس کو عذاب نار کا ڈر ہے، ان پیارے پیارے ہونٹوں اور مقدّس ہاتھوں سے نزدیکی کیوں نہیں حاصل کر لیتا جنہوں نے بے جان چیز رومال تک کو ایسی فضلیت و بزرگی عطا فرمائی کہ وہ آگ میں نہ جلے، تو ان کے جو عاشق زار ہیں ان پر عذاب نار کیوں نہ حرام ہو۔
رمضان اللہ کریم نے عطا ہی اس لئے کیا ہے کہ ہم اپنی تمام سال کی میل کچیل چاہے وہ روح پر ہو، نفس کا بوجھ ہو یا جسم لتھڑا ہو، اس سے نجات حاصل کریں۔ لہٰذا اس ماہ مبارک میں جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے۔ جو آپ کو پورے سال کے لئے detoxify کر دیتا ہے۔ اور مال جس کو کمانے میں ہم سے کئی کمی بیشی ہوئی ہو اسے پاک کرنے کے لئے صاحب نصاب پر زکوٰۃ فرض کی گئی ہے۔ لیکن جو لوگ صاحب نصاب نہیں یا صاحب نصاب ہیں ان سب کو اس ماہ میں جس کا نام ہی تپش ہے۔ جہنم کی تپش سے بچنے کے لئے کثرت صدقات کا حکم ہے۔ جس کا فائدہ عام ماہ میں خرچ کرنے سے کئی گنا زیادہ ہے۔
نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے "جو اس مہینے میں کسی نفل (نیک عبادت) کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قرب تلاش کرے تو اس کو اس نفل (عبادت) کا اتنا ثواب ملتا ہے جتنا دوسرے مہینوں میں فرض کے ادا کرنے کا ثواب ملتا ہے اور جس نے اس مہینے فرض کو ادا کیا تو ایک فرض کے ادا کرنے کا اتنا ثواب ملتا ہے جتنا کہ دوسرے مہینوں میں ستر فرضوں کے ادا کرنے سے ملتا ہے۔ اور یہ صبر کا مہینہ ہے اور یہ ایسا مہینہ ہے جس میں مومن کی روزی بڑھا دی جاتی ہے"۔ (سنن بیہقی)
مال کو اللہ کی رضا میں کیسے خرچ کیا جائے؟ سورۃ البقرہ کا رکوع 36 اور 37 کس طرح اور کس پر مال خرچ کرنے کی بہترین وضاحت اور خوبصورت ترغیب دیتا ہے۔ جس کا خلاصہ آپ سب کی نذر کرتا ہوں۔
سب سے پہلے ہمیں اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا نفع بتایا گیا ہے۔ کیونکہ ہم کمزور انسان ہیں اور ہم ہر عبادت کو دنیاوی نفع یا ثواب میں کلیلکیولیٹ calculate ضرور کرتے ہیں لہٰذا رکوع 36 کی ابتدا کچھ اس طرح سے ہے۔
ترجمہ۔ جو لوگ اپنا مال اللہ تعالٰی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سے سو دانے ہوں، اور اللہ تعالٰی اسے چاہے اور بڑھا دے (1) اور اللہ تعالٰی کشادگی والا اور علم والا ہے۔ (البقرہ261)
یعنی ایک روپے کے خرچ کے عوض 700 روپے ملیں گے اور اس میں آخرت کا ذکر مخصوص نہیں۔ یہ دنیا اور آخرت دونوں کے لئے ہے۔