Qissa Habil o Qabil, Aur Karbala
قصہ ہابیل و قابیل، اور کربلا
سب سے پہلے تو میں آپ کو یہ بتا دوں کہ ہابیل اور قابیل یہ دونوں نام قرآن مجید میں نہیں ہیں۔ یہ نام اسرائیلیات اور عربی انجیل سے اخذ کئے گئے ہیں۔
کچھ احادیث میں نام موجود ہیں لیکن ان احادیث پر بحث کی جاتی رہی ہے۔ لیکن اس وقت ہمارا مدعا کچھ اور ہے۔ ہابیل اور قابیل کو تورات اور بائیبل میں Cain and Abel کہا جاتا ہے۔ بائبل (باب پیدائش) اور عرب روایات کے مطابق abel یعنی ہابیل کے معنی تازہ سانس یا سانس لیتی روح (زندگی) ہے، جبکہ cain یعنی قابیل کے لغوی معنی نیزہ یا زرگر یا لوہار کے ہیں۔
بائبل کے مطابق اور کچھ احادیث کے مطابق ہابیل حضرت آدم اور حضرت حوا کا چھوٹا بیٹا تھا۔ جسے قابیل نے قتل کر دیا۔ پیشے کے لحاظ سے ہابیل بھیڑ بکریاں چرایا کرتا تھا اور قابیل یا قائبل حضرت آدم اور حضرت حوا کا پہلا بیٹا تھا، اس کے ساتھ ساتھ پہلا قاتل بھی تھا۔ پیشے کے لحاظ سے قابیل کاشت کار تھا اور زمین میں سبزیاں اگاتا تھا۔
بائبل اور اسرائیلی روایات کے مطابق دونوں کی لڑائی کی وجہ خوبصورت لڑکی سے بیاہ تھا جسے ہابیل کے ساتھ بیاہا جانا تھا۔ جبکہ قابیل اسے غصب کرنا چاہتا تھا۔ یہ ایک سطعی بات اور انبیاء کے بیٹوں کی طرف یہ بہتان ہے۔ کیونکہ صبح اور شام بچوں کا پیدا ہونا انسانی سرشت کے خلاف ہے۔ لہٰذا اس واقعہ کی تصیح قرآن نے کی۔ قرآن نے اس واقعہ میں کسی کا نام نہیں لیا اور صرف آدم کے دو بیٹوں کا قصہ کہہ کر بات شروع کی ہے۔ ہم یہاں صرف قرآنی واقعہ کا ترجمہ لکھیں گے۔
ترجمہ: اور آپ (ﷺ) انہیں آدمؑ کے دو بیٹوں کا قصہ ٹھیک ٹھیک پڑھ کر سنائیے جب دونوں نے نذرانے پیش کیے پس ان میں سے ایک کا نذرانہ قبول ہوگیا اور دوسرے کا قبول نہ ہوا۔ (دوسرے نے) کہا میں ضرور تجھ کو قتل کر دوں گا (پہلے نے) کہا ﷲ (تعالیٰ) تو متقیوں ہی کا عمل قبول کرتا ہے۔ اگر تو مجھے قتل کرنے کیلئے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھائے گا (تب بھی) میں تجھے قتل کرنے کیلئے اپنا ہاتھ تیری طرف نہیں بڑھاؤں گا۔ بیشک میں ﷲ تعالیٰ رب العٰلمین سے ڈرتا ہوں۔ اگر تو مجھے قتل کرنے کیلئے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھائے گا، میں تجھے قتل کرنے کیلئے اپنا ہاتھ تیری طرف نہیں پڑھاؤں گا بیشک میں ﷲ تعالیٰ رب العٰلمین سے ڈرتا ہوں۔ آخر کار اس کے نفس نے اس کو اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کر لیا، چنانچہ اس نے اپنے بھائی کو قتل کر ڈالا، اور نامرادوں (نقصان اٹھانے والوں ) میں شامل ہوگیا۔ (سورہ المائدہ 27 تا 30)
قرآن کے متن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سلسلہ نیاز اس لئے دیا جا رہا تھا کہ دونوں میں سے مقرب کون ہے۔ جس کی قربانی خلوص اور محبت سے ہو اور وہ کون ہے جو حسد، بغض اور اقتدار یا خلافت کی جدوجہد میں لگا ہو۔ لہٰذا ہابیل جو چھوٹا بھائی تھا اس کی قربانی قبول ہوگئی اور وہ خلافت، نیابت یا مقربیت کا حقدار ٹھہرا۔ جبکہ بڑا بھائی قابیل اپنے بغض و عناد اور ہوس اقتدار کی وجہ سے راندہ درگاہ ہوگیا۔ اب اس رتبے کے چھن جانے کے ڈر سے اس نے چھوٹے بھائی کو قتل کرنے کی دھمکی دی۔ جس پر چھوٹے بھائی نے کہا کہ اگر آپ مجھ پر ہاتھ اٹھائیں گے تو میں جواب میں آپ پر حملہ نہیں کروں گا ہاں البتہ دفاع میرا حق ہے۔ یوں بڑے بھائی نے حسد اور حصول خلافت کی خاطر اسے قتل کر دیا۔ (قصص الانبیاء)
اقتدار، قربت، خلافت کی خاطر حسد و عناد صرف ہابیل و قابیل کے واقعہ ہی میں نہیں۔ یہ برادران یوسفؑ بھی اس کا شکار تھے اور انہوں نے بھی اپنی دانست میں یوسفؑ کو قتل کر دیا تھا۔ حتٰکہ آقا ﷺ کے دور میں قبیلہ بنو زہرہ کے حلیف سردار اخنس بن شریک نے ابوجہل سے پوچھا تھا کہ کیا آپ کو محمد ﷺ اور قرآن سننے میں سچا لگتا ہے یا جھوٹا تو اصل بات اس کی زبان پر یوں آ گئی۔
"ابوجہل نے کہا میں نے کیا سنا، اور اس کا کلام مجھے کیسا لگا، یہ بات تو رہنے دو، صاف بات یہ ہے کہ ہمارے اور بنو عبد مناف کے درمیان کچھ جھگڑے ہیں اور یہ جھگڑے تفوق اور برتری کے حوالے سے ہیں، نام و نمود اور عزت و شہرت کیلئے ہمارا یہ جھگڑا بہت پرانا ہے، ویسے تو حجابت، سقایہ، علَم برداری اور دار الندوہ کی ذمہ داری ہمارے پاس ہے، ان کے پاس حجاج کی ضیافت اور خدمت ہے، سو وہ ہم بھی کرتے ہیں۔
سخاوت اور فیاضی میں بھی ہم ان سے کم نہیں ہیں، لیکن جب وہ یہ کہتے ہیں کہ نبوت و رسالت ہمارے گھرانے میں ہے، ہم پر آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے تو ہمارے دلوں پر آرے سے چلتے ہیں اور ہم اس کا جواب نہیں دے پاتے۔ یہ شرف ایسا ہے جس میں ہم ان کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہیں، اس لئے ہم محمد (ﷺ) پر کبھی ایمان نہیں لا سکتے اور نہ ان کی تصدیق و تائید کر سکتے ہیں، خواہ دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے۔ " (کتب سیرت)
اس سے ثابت ہوا کہ وجہ مخالفت حسد، بغض اور سرداری یا خلافت کی تھی قبول حق و سچ نہیں تھا۔
اوپر آدمؑ کے بیٹوں کے واقعہ کو ایک بار پھر غور سے پڑھیں۔ کیا یوں نہیں لگتا کہ یہ منظر کشی اور، مستقبل کا تبصرہ ہے میدان کربلا میں ہونے والے واقعہ کا۔ جہاں آل رسول کی قربانی قبول ہوئی، اور قصہ ہابیل و قابیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس کی قربانی قبول ہوگی۔ جو مقرب ہوگا سر بھی اسی کا کٹے گا۔ جو ناہنجار تھا، عہدے کے قابل نہ تھا اس نے حسد و بغض میں حقدار کا سر تو اتارنا تھا۔ یہی تو سرشت انسانی رہی ہے۔
لیکن قابیل یزید سے کروڑ گنا بہتر انسان تھا، کیونکہ وہ اپنے بھائی کو قتل کرنے کے بعد نادم ہوا۔ ڈر گیا اور خوف سے لاش کو ٹھکانے لگانے کا سوچنے لگا۔ تاکہ لاش کی بے حرمتی نہ ہو اللہ نے اسے دفن کرنے کا طریقہ سکھایا تب ایک کوئے نے آ کر اسے دفن کرنا سکھایا تو وہ افسوس اور ندامت سے رو پڑا۔ اور کہنے لگا۔
ترجمہ: پھر اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اُسے بتائے کہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے یہ دیکھ کر وہ بولا افسوس مجھ پر! میں اس کوے جیسا بھی نہ ہو سکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپانے کی تدبیر نکال لیتا اس کے بعد وہ اپنے کیے پر بہت پچھتایا۔ (المائدہ 31)
جبکہ حسد و غصہ، انا اور تکبر کے مارے یزید نے امام اعلیٰ مقام کی لاش مبارک کی بے حرمتی کی، ان کی لاش پر گھوڑے دوڑائے، ان کے اور ان کے ساتھیوں کے سر نیزوں پر پروئے۔ ان کی بیوی بیٹیوں کو قید و بند اور بے سروسامانی کی حالت میں شہر شہر گھمایا۔ اور وہ چھوٹی سکینہ معصوم جو بابا کا سکھ تھی اسے زنداں میں بابا بابا پکارتے موت کے منہ میں دھکیل دیا۔
ہم ہابیل و قابیل، یا برادران یوسفؑ کے قصے کو قرآن میں اس لئے پڑھتے ہیں۔ کہ قرآن آخری کتاب ہے اور پرانے واقعات سے تاقیامت ہونے والے واقعات کی نشاندہی گزرے لوگوں کے واقعات عبرت سے کر دی گئی ہے۔ تاکہ اپنے معاملات میں پیش بینی ہو سکے۔ نصیحت ہو سکے۔
جیسے کہ نبی کریم ﷺ کے 23 سالہ دور نبوت میں ہر جنگ، غزوہ یا اہم واقعات پر قرآن کریم نے بحث فرمائی، عبرت دلائی اور مومن و منافق کا فرق واضح کیا۔ اگر نبی کریم ﷺ کی حیات پاک میں واقعہ کربلا رونما ہوتا تو شاید تا قیامت ہم حسنین کریمین اور اہل بیت کے ساتھ ہونے والے ظلم کو کسی سورہ کی صورت میں پڑھتے۔ اور ظلم ڈھانے والوں کا ٹھکانہ جانتے کہ وہ اس ظلم کے بعد کس درجے کی جہنم میں جلیں گے۔ اور دنیا میں وہ کیسے نشان عبرت بنے۔
میں جب بھی ہابیل و قابیل کے واقعہ کو پڑھتا ہوں۔ اور جس طرح قرآن یہ بیان کرتا ہے کہ (اور آپ (ﷺ) انہیں آدمؑ کے دو بیٹوں کا قصہ ٹھیک ٹھیک پڑھ کر سنایئے) تو میں سوچتا ہوں کہیں یہ آدم کے دو بیٹے امام حسین اور یزید ہی کا قصہ تو نہیں۔ لیکن پھر میں کہتا ہوں یہ آدمؑ کے ہی بیٹے ہوں گے۔ کیونکہ امام الانبیاء نے تو حق کی خاطر ایک بیٹے کی جگہ 72 بچے کٹوا دیے۔ کیونکہ ان 72 کے 72 کی قربانی قبول ہوئی تھی۔ سر تو کٹنے تھے۔ مقام امامت تو یہی ہے کہ راضی بر رضا رہا جائے۔
اپنے نانا کا وعدہ وفا کر دیا
جس نے حق کربلا میں ادا کر دیا
جس نے امّت کی خاطر فدا کر دیا
گھر کا گھر سب سپردِ خدا کر دیا
اس حسینؑ ابنِ حیدر پہ لاکھوں سلام۔