Imran Khan Ki Ghalatiyan
عمران خان کی غلطیاں

انسان خطا کا پتلا ہے۔ کوئی انسان ایسا نا ہوگا جس نے اپنی زندگی میں سب فیصلے ہمیشہ درست کیے۔ مگر عقلمند شخص غلطیوں سے سبق سیکھ کر محتاط ہو جاتا ہے۔ سیکھنے کا یہ عمل ہمیں تجربے کار بناتا ہے۔
پاکستان کی سب سیاسی جماعتوں سے غلطیاں ہوئیں مگر انھوں نے ان غلطیوں سے سبق سیکھ کر محتاط رویہ اپنا لیا اور ایک دوسرے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے، دائرے کو پار کرنے کی کوشش چھوڑ دی۔
مگر عمران خان نے اپنی بے مقصد، بلا جواز "میں" نہیں چھوڑی۔۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
میں عام عوام کی حیثیت سے ان معاملات میں بہت سی باتوں پر عمران خان کو قصوروار سمجھتی ہوں۔ عام عوام سمجھتی ہے کہ عمران خان درج ذیل غلطیاں نا کرتے تو شاید حالات اس نہج پر نا پہنچتے۔
1۔ عمران خان کی سب سے بڑی غلطی انھوں نے اپنی شہرت کا بے حد غلط استعمال کیا۔ ذاتی معاملات سے قطع نظر۔۔ وہ مشہور کھلاڑی تھے۔ شوکت خانم ہسپتال کی وجہ سے کم و بیش سب لوگ ان کی عزت کرتے تھے۔ انھیں یہیں رک جانا چاہیے تھا۔ اپنی سیاسی جماعت بنانے سے گریز کرنا چاہیے تھا اور اگر یہ کام کرنا مجبوری تھی تو خود کو صرف چئیرمین شپ تک محدود رکھنا چاہیے تھا۔
2۔ سیاست میں جیت جانے کے بعد خود کو وزیراعظم کی کرسی کے لیے پیش نہی کرنا چاہیے تھا۔ عمران خان کو اپنی اہلیت اور قابلیت کا معلوم تھا۔ انھیں کنگ کی بجائے کنگ میکر بننے کو ترجیح دینا چاہیے تھی۔ کیوں کہ یہ خود بھی جانتے تھے کہ پاکستان میں سیاست کے سپریم عہدے خاصے رسوا کرنے والے ہیں۔ خاندانی سیاستدان تو اس کے عادی ہوتے ہیں۔ مگر ایک کھلاڑی کو یہ رسک نہیں لینا چاہئیے تھا۔
3۔ اپنی زوجہ محترمہ کو قابو میں رکھنے کی ضرورت تھی۔ خاص طور پر اس صورت میں جب شادی انتہائی عجیب حالات میں ہوئی تھی۔
4، جادو ٹونے کے تماشوں سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ کیوں کہ اس شرک کا نتیجہ ہمیشہ ذلت و رسوائی کی صورت میں نکلنا فرض ہے۔
5۔ جاوید چوہدری صاحب نے اپنے ایک وی لاگ میں فرمایا کہ اسٹیبلشمنٹ ایک مشین ہے اور اس مشین سے لڑنے میں ہمیشہ شکستہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہم عام عوام سو فیصد اس بات سے متفق ہیں۔ یہ مشین اپنے باس کو یس سر کہنا جانتی ہے۔ اسے نو کہنا نہیں آتا۔ یہ کسی پروجیکٹ کو مکمل کرنے کے لئے اپنی جان کی بازی لگا دیتی ہے۔ سینے پر گولیاں کھا لیتی ہے۔ بم کے اوپر چھلانگ لگا دیتی ہے۔ بھاری جوتوں کے نیچے ہر شے کو روندتی چلی جاتی ہے۔ راستے میں آنے والے قصور وار اور ںے قصور پستے چلے جائیں۔ پرواہ نہیں۔۔ صرف باس کا دیا پروجیکٹ مکمل ہونا اہم ہے۔
تو عقلمند اس مشین کا راستہ چھوڑ کر خود کو ایک طرف کر لیتے ہیں، تا کہ کچلے نا جائیں یا مشین انھیں ہٹ کرتی ہوئی آگے نا نکل جائے۔
اور بیوقوف بجائے مشین سے خود کو بچاتے ہوئے اس کے باس کے ساتھ بنا کر رکھیں۔ اس کو روکنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔ عمران خان نے بھی یہی کام کیا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ اس مشین نے عمران خان، اس کی سیاست، اس کی بائیس سالہ جدوجہد، اس کی سیاسی جماعت، اس کی عزت غرض ہر شے کو اڑا کر رکھ دیا۔ عمارت تباہ ہوگی ملبہ باقی ہے۔ اول تو دوبارہ عمارت بن نہیں سکے گی اور اگر کسی نے یہ ہمت کر بھی لی تو مزید بائیس سال لگ جائیں گے اور دو دہائیوں میں بہت کچھ تبدیل ہو جاتا ہے۔
6۔ عمران خان نے زندگی بھر کرکٹ کے علاؤہ کوئی کام نہیں کیا۔ انھوں نے وزیراعظم بن کر سب سے بڑا ظلم خود پر کیا۔ آپ ان کے بیانات دیکھ لیں۔ ایک ہی بال میں سب کو اڑا دوں گا، آخری گیند تک کھیلوں گا۔ وہ سمجھ نا سکے کہ ملک چلانا اور کرکٹ کھیلنا دو مختلف کام ہیں۔
7۔ عمران خان ہمیشہ اپنی شخصیت کی کشش کو استعمال کرتے رہے۔ لیکن وہ یہ بھول گئے کہ عام عوام نے آپ کی شخصیت کو دیکھنے کے لیے ووٹ نہیں دیا تھا۔ عوام ان وعدوں کی تکمیل چاہتی تھی۔ جو اسٹیج پر کھڑے ہو کر کیے گئے تھے۔ شخصیت کا جادو سر چڑھ کر بولتا ضرور ہے مگر بہت جلد یہ جادو اتر بھی جاتا ہے۔
8۔ ملکی معیشت کو نقصان پہنچا کر ایک منصوبے کے تحت تحریک عدم اعتماد لائی گئی۔ عمران خان وہی کچھ کرتے رہے جو ان کا منصوبہ تھا۔ بجائے عزت کے ساتھ گھر بیٹھ کر نئے الیکشنز کا انتظار کیا جاتا۔ عمران خان نے نومئی کا تماشا کیا۔ عدالتوں کو مذاق بنا دیا۔ پھر ہر روز ٹی وی پر خود کو وزیراعظم سمجھتے ہوئے بے مقصد خطاب شروع کر دئیے۔ ان کاموں سے ان کی عزت مزید کم ہوئی۔
9۔ الیکشنز میں دھاندلی ہوئی یا نہیں؟ اس سے قطع نظر عمران خان کو شکست قبول کرکے اپوزیشن لیڈر کی سیٹ لینی چاہیے تھی اور حکومت وقت کو ٹف ٹائم دینا چاہیے تھا۔ مگر انھوں نے عوام کو اکسایا۔ پاک فوج کے بارے میں انتہائی افسوسناک کمپین چلائی۔ عوام کو تقسیم کر دیا۔ پاکستان کو ہر جگہ بدنام کیا۔
10۔ اپنی گرفتاری کو بھی مذاق بنا دیا۔ سیاستدان ہمیشہ درمیان کا راستہ نکالتا ہے۔ مگر عمران خان مشین کے ساتھ لڑتا رہا اور سب سے بڑی غلطی یہی ہے۔ عمران خان نے اسلام آباد پر اپنی زوجہ کے زریعے یلغار کروا کر اس کی بھی رہی سہی عزت ختم کر دی۔ بار بار اپنے سی اہم کے زریعے دوسرے صوبے پر یلغار کروائی اور مزید نفرتوں کو پروان چڑھایا۔ اپنے کارکنان کو بے مقصد پریکٹس سے تھکا دیا اور مقبولیت کا گراف گرتا چلا گیا۔ عمران خان کو یاد رکھنا چاہیے کہ تنی ہوئی رسی جلد ٹوٹ جاتی ہے۔ جبکہ ڈھیلی رسی پھر بھی کچھ وقت نکال لیتی ہے اور یہ بھی یاد رکھیں مشین سے لڑائی بیوقوف کرتے ہیں۔
یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی عمران خان ناکام ہیں۔
11۔ انڈیا پاکستان کی حالیہ جنگ میں حکومت کے ساتھ نا بیٹھنا، عمران خان کی غلطی نہیں بلکہ سنگین جرم تھا۔ جو پاکستان کے ادارے اور عام عوام ہمیشہ یاد رکھیں گے۔۔
اور آخر میں سب سے بڑی غلطی۔۔ دوسروں کی عزت پامال کرنے کی سنگین غلطی بلکہ جرم کہیں۔۔
عزت دینے والا اللہ تعالیٰ۔۔ ہم اختلاف کر سکتے ہیں۔ تنقید کر سکتے ہیں۔ مگر کسی بھی مرد یا خاتون کی تذلیل کرنے کا ہمیں کوئی حق حاصل نہیں۔ عمران خان آپ اپنی ذات اور نفرت میں اتنا بڑھ گئے۔ کہ معاشرے میں اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا۔ عورت کا تقدس، مرد کی عزت رہنے نہیں دی اور اس کا حق دین بھی آپ کو نہیں دیتا۔
مجھے پوری امید ہے کہ عمران خان کبھی بھی اپنی کوئی غلطی تسلیم نہیں کریں گے۔۔ سبق سیکھنا تو بہت دور کی بات ہے۔۔ تو پھر خود کو حالات پر چھوڑ دیں اور انتظار کریں کہ آپ کی قسمت میں کیا لکھا ہے؟