Thursday, 17 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Safdar Hussain Jafri
  4. Masail e Mushkila Ka Hal Aur Hazrat Ali Ki Hazir Jawabi (7)

Masail e Mushkila Ka Hal Aur Hazrat Ali Ki Hazir Jawabi (7)

مسائلِ مشکلہ کا حل اور حضرت علیؑ کی حاضر جوابی (7)

ہر زمانے ہر دور میں لوگوں کو لُوٹنے اور فریب دینے کے لیے دھوکے باز دھوکہ دہی کے نت نئے طریقے اپناتے رہے ہیں۔ جنابِ امیرالمومنینؑ کے دور میں دو آزاد شخصوں نے اپنا پیشہ یہ قرار دیا تھا کہ شہر شہر پھرتے تھے اور بازار میں جا کے ان میں سے ایک دوسرے کو غلام بنا کے بیچ آتا تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد غلام اس شہر سے بھاگ جاتا اور پھر دونوں مل کر کسی اور شہر کا رُخ کرتے اور اسی طرح نامعلوم کتنی مرتبہ انہوں نے خود کو فروخت کرکے لوگوں کو دھوکہ دیا تھا اور خُوب مال لُوٹا تھا۔

جب ایک بار وہ دونوں تقدیر کی گرفت میں آگئے اور لوگوں نے انہیں پکڑ کر دربارِ خلافت میں پیش کِیا تو مولا علی نے حکم دیا کہ ان دونوں کے ہاتھ قلم کیے جائیں کیونکہ یہ خود اپنے بھی چور ہیں اور لوگوں کے بھی چور ہیں۔

ایک شخص نے ایک پرندے کو دیکھا اور اس کا پیچھا کیا یہاں تک وہ جا کر ایک درخت پر بیٹھ گیا، اس وقت ایک شخص نے اس کا شکار کر لیا۔ پہلے شخص نے مطالبہ کیا کہ شکار میں میرا بھی حصّہ ہے کیونکہ میں نے اس کا تعاقب کیا ہے، دوسرا بولا نہیں شکار میں نے کِیا ہے یہ فقط میرا حصّہ ہے۔ جب معاملہ مولا علی کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے تعاقب کرنے والے سے فرمایا: تیرا نصیب اس طائر کو دیکھنا تھا وہ تجھ کو مل گیا، طائر شکار کرنے والے کا حق ہے!

حضرت عمرکے دور میں دو عورتوں میں ایک بچہ پر نزاع ہوگیا، جن میں سے ہرایک عورت یہ دعویٰ کررہی تھی کہ بچہ اس کا ہے۔ لیکن کسی کے پاس بھی کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا لہٰذا وہ فیصلہ کے لیے دربارِ حکومت میں پہنچِیں، لیکن حضرت عمر واقعہ کی نوعیّت دیکھ کر کوئی فیصلہ نہ کر سکے اور مولا علی سے رجوع کیا۔

حضرت علی تشریف لائے اور دونوں عورتوں کے بیانات سننے کے بعد آپ نے فرمایا کہ خدا سے ڈرو۔ لیکن سمجھانے کے باوجود دونوں اپنے دعویٰ پرمُصِر رہیں۔

بالآخر امیرالمومنین نے حکم فرمایا: ایک آری لائی جائے۔

حضرت عمرنے کہا: یا اباالحسنﷺ! آری کس کام کے لیے چاہیے؟

جنابِ امیر نے فرمایا: بچے کے دو حصّے کرتا ہوں، ایک ایک حصّہ ان دونوں کو دے دوں گا۔

آپ کا یہ فیصلہ سنتے ہی ایک عورت یکدم چیخ اُٹھی۔ رحم کیجیے یا ابالحسن! لِلّٰہ رحم کیجے! اگر آپ اس بچے کے دو حصّے کرنا چاہتے ہیں تو میں اپنا حصّہ اس عورت کو بخش دیتی ہوں۔ خدا کے لیے اس کے دو حصّے نہ کریں۔ بے شک یہ بچہ اسے ہی دے دیں۔ میں اپنا دعویٰ واپس لیتی ہوں۔ مجھے اس کے ٹکڑے نہیں کرانے، یہ زندہ تو رہے بے شک اس عورت کے پاس رہے۔ وہ فریاد کرتی رہی جبکہ دوسری عورت خاموش بیٹھی تھی۔

مولائے کائنات نے فرمایا: اللہ اکبر! یہ بچہ تیرا ہی ہے۔ اگر اس عورت کا ہوتا تو تو وہ بھی تیری طرح فریاد کرتی، یوں خاموش نہ بیٹھتی۔

دوسری عورت نے اقرار کیا کہ یا امیر! آپ نے سچ فرمایا: یہ بچہ حقیقت میں اسی کا بیٹا ہے۔ یہ میرا بچہ نہیں ہے۔

اس وقت حضرت عمر اس فیصلے سے بہت خوش ہوئے اور اکثر اوقات اس فیصلے کو یاد کرتے تھے اور جنابِ امیر کے لیے دعائے خیر فرماتے تھے۔

حضرت عبداللہ ابنِ عمر بیان کرتے ہیں کہ میرے والد عمر ابنِ خطاب نے ایک مرتبہ حضرت علی سے کہا: اے اباالحسن! تین مشکل باتیں ہر وقت میرے ذہن میں رہتی ہیں اور میرا دل چاہتا ہے کہ میری یہ الجھن سلجھ جائے۔ اگر ممکن ہو تو آپ اس سلسلہ میں میری مدد فرمائیے۔

جنابِ امیر نے فرمایا: اپنی مشکل بیان کیجیے۔

حضرت عمر نے کہا: پہلی یہ کہ کبھی کبھی انسان کسی سے ملتا ہے تو اسے اتنا چاہنے لگتا ہے کہ گویا اس سے زیادہ کسی کو دوست نہیں رکھتا اور کبھی کسی سے ملتا ہے تو خودبخود اس سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟

حضرت نے فرمایا: میں نے رسولِ خُداﷺ سے سنا ہے: "رُوحیں اپنے اپنے لشکروں میں رہتی ہیں، جب وہ بدن میں پہنچتی ہیں، اگر مختلف بدنوں میں آنے والی رُوحیں ایک ہی صف اور لشکر کی ہوں تو ایک دوسرے سے محبّت کرتی ہیں اور اگر الگ الگ ہوں تو دُوری اختیار کرتی ہیں"۔

پھر حضرت عمر نے کہا: دوسری بات یہ کہ کبھی ایسا ہوتا ہے ہے کہ انسان کوئی بات سنتا ہے تو تو کبھی کبھی اس کو وہ بات یاد آتی ہے اور کبھی وہ بھول جاتا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟

مولا نے فرمایا: میں نے رسولِ خُداﷺ سے سنا ہے: "جس طرح چاند کے سامنے بادل آجاتا ہے، اسی طرح کوئی دل ایسا نہیں جس کے لیے بادل نہ ہو۔ تم دیکھتے ہو کہ جس طرح چاند نُور افشانی کرتا ہے لیکن اچانک بادل اس کے سامنے آجاتا ہے تو وہ تاریک ہوجاتا ہے۔ دلوں کا بھی یہی حال ہے"۔

پھر حضرت عمر نے کہا: تیسری بات یہ ہے کہ انسان جو خواب بھی دیکھتا ہے کبھی تو وہ سچا ہوتا ہے اور کبھی جھُوٹا ہوتا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟

جنابِ امیر نے فرمایا: میں نے رسولِ خُدا سے سنا ہے کہ: "کوئی انسان ایسا نہیں کہ جب وہ سو جائے تو اس کی رُوح کو عرش کی طرف نہ لے جایا جائے۔ جب رُوح کے عرش پر پہنچنے کے بعد خواب سے بیدار ہو تو اسے رویائے صادقہ کہتے ہیں اور اگر عرش پر پہنچنے سے پہلے بیدار ہوجائے تو اسے رویائے کاذبہ کہتے ہیں"۔

اب حضرت عمر نے کہا: یہ تین باتیں ایسی تھیں جنیں میں ہر وقت حل کرنے کی جستجو میں رہتا تھا اور خدا کا شکر ہے کہ مرنے سے پہلے مجھے یہ معلوم ہوگئیں۔

حضرت عمر کے زمانہَ خلافت میں ایک عورت خلیفہ کے دربار میں آئی اور عرض کیا:

اے صاحبِ اختیار! اے خلیفۃ المسلمین! تمہاری ایک شادی شدہ اور جوان عورت کے بارے میں کیا رائے ہے کہ جس نے سہاگ کی پہلی رات اپنے شوہر کے ساتھ گزاری ہو اور صبح ہوتے ہی اُس نے والدین سے دوسرے شوہر کا مطالبہ کیا ہو۔ کیا آپ اس عمل کو جائز سمجھتے ہیں؟

تمام حاضرین نے اِس عورت کی بات کو جھٹلایا اور کہا: یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شوہر کے ہوتے ہوئے دوسرا شوہر اختیار کرے۔

امام المتّقین جنابِ علی مرتضیٰ نے فرمایا: "تم اپنے شوہر کو میرے سامنے حاضر کرو"۔

عورت اپنے شوہر کو لے کر دوبارہ حاضر ہوئی۔ جنابِ امیر نے اس مرد کو حکم دیا کہ ابھی اپنی بیوی کو طلاق دو۔ اُس مرد نے کسی حیل و حجّت کے بغیر اُسی لمحے جنابِ مولائے کائنات کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور اپنے حق میں کوئی دلیل پیش نہ کی۔

جنابِ امیر نے حاضرین سے مخاطب ہو کر فرمایا: یہ شخص نامرد ہے اور اس نےخود اعتراف کیا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو خود نامرد کیا ہوا ہے۔

مولا علی نے اس عورت کو عدّت کے ایّام گزارے بغیر دوسرے مرد کے نکاح میں دے دیا۔

محمّد بن شہر آشوب مناقب میں ابنِ جبیر سے نقل کرتے ہیں کہ جب اسفند یار کے لشکر کو شکست ہوئی اور مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوا تو حضرت عمر نے کہا: یہ لوگ نہ یہودی ہیں اور نہ ہی نصرانی اور نہ ہی یہ اہلِ کتاب ہیں اس لیے یہ مجوسی ہیں۔

جنابِ امیرالمومنین نے فرمایا: یہ بھی اہلِ کتاب تھے لیکن وہ کتاب آسمان کی طرف اٹھا لی گئی ہے۔

حضرت عمر نے کہا: یا ابالحسن مجوسیوں کی کتاب کا آسمان کی طرف اٹھائے جانے کا کیا سبب تھا؟

جنابِ امیر نے فرمایا: اس کی وجہ یہ تھی کہ اس قوم کے بادشاہ نے نشے کی حالت میں اپنی بیٹی سے زنا کیا تھا۔ (بعض کتب میں یہ بیان ہے کہ بہن کے ساتھ بد فعلی کی تھی) جب اسکا نشہ کافور ہوا تو اس نے کہا: اب اس سے برّی ہونے کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟

اراکینِ سلطنت نے مشورہ دیا کہ ساری سلطنت میں یہ اعلان کرا دو کہ بادشاہ کے نزدیک یہ عمل جائز ہے۔ اس نے اراکینِ سلطنت کے مشورے پر تمام علماءِ دین اور معزّز بزرگوں کو جمع کیا اور اعلان کیا کہ میرے نزدیک یہ فعل حلال ہے اور جائز ہے۔ تم لوگ بھی اسے جائز سمجھ کر میری پیروی کرو۔

لوگوں نے اس کی بات جھٹلاتے ہوئے کہا: جو بات تمہارے نزدیک حلال اور جائز ہے وہ ہماری شریعت میں فعلِ حرام ہے۔ لوگوں نے اس کا فیصلہ قبول کرنے سے انکار دیا۔ بادشاہ غصّے میں آگیا۔ اس نے عالمِ برہمی میں حکم دیا کہ چند گڑھے کھودے جائیں اور ان میں خُوب آگ بھڑکائی جائے اور جس عمل کو یہ حرام کہ رہے ہیں ان لوگوں کے سامنے کیا جائے۔ جو شخص انکار کرے اسے بھڑکتی ہوئی آگ کے گڑھے میں ڈال دیا جائے اور جو قبول کرے اس کو چھوڑ دیا جائے۔

اس رسمِ بد کے رائج ہونے کی وجہ سے کتابِ خدا ان کے درمیان سے اُٹھ گئی۔

Check Also

Hawai Rozi Aur Seat 1C

By Mubashir Ali Zaidi